ہم جنسیت اور اسلام۔۔۔۔۔سلیم جاوید/قسط4

پچھلی قسط میں عرض کیا تھا کہ جنسی نفیساتی مریضوں کی دو اقسام ہوتی ہیں- یعنی زنخا اور لوطی- آج اس بارے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں-
ایک نفسیاتی یا روحانی ٹیڑھ پن وہ ہے جسے ہجڑا یا زنخا کہا ہے- یہ فزیکلی مرد ہی ہوتا ہےمگر نفسیاتی طور پر خود کو عورت سمجھتا ہے-عورتوں جیسے انداز واطوار اپنانا پسند کرتا ہے-ایسے مرد، بھرپور ازدواجی زندگی بھی گزارلیتے ہیں اور بچے بھی پیدا کرتے رہتے ہیں- مگرعورتوں کی مانند رقص کا بےپناہ شوق رکھتے ہیں- ( رقص کی خواہش ایک طبعی چیزہے- مگرایک خاص انداز میں رقص کیلئے بے قابو ہوتے لوگ آپ نے دیکھ رکھے ہونگے)- اس نفسیاتی تخلیط کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ایسے مرد، عموما” بھڑکیلے اور رنگدار کپڑے پہننا پسند کرتے ہیں- عرف عام میں یوں کہا جاتا ہے کہ

اس مرد کے اندر عورت کی روح بند ہے-( اسی طرح ایسے کیس بھی ہوتے ہیں جن میں جسم عورت کا مگرروح مرد کی پائی  جاتی ہے)-
ایسے لوگوں میں بھی ہم جنسی عمل کا رحجان پایا جانا ضروری نہیں ہوتا-گاہے وہ خود کو عورت کے روپ میں پاکرایک لذت کشید کرلیتے ہیں- اس مرض کے بھی مختلف لیول ہوتے ہیں-کچھ معززین، نجی محفلوں میں زنانہ لباس پہن کر، اس پیاس کی تسکین کرتے ہیں ( سندھ کے ایک سابق بااثر وزیر اعلی کا نام بھی لیا جاتا ہے جو رات گئے کی خصوصی محفل میں ساڑھی پہن کرآتے تھے)–ہمارے بھٹو خاندان کا چشم وچراغ تواپنے اس “شوق” کے مظاہرے کیلئے باقاعدہ “شو” ارینج کیا کرتا ہے- نوابان اودھ میں ایک ایسے بھی ہو گزرے ہیں جوبھرے دربار میں بچہ جننے کا “مظاہرہ” بھی کرلیا کرتے تھے- (میں بہرحال ایسی گستاخی نہیں کرسکتا کہ صوفیاء کی نسوانی شاعری کو بھی کسی مرض کا نام دوں یا شمس تبریز اور مولانا روم بارے کوئی  بات کروں)-

اپنی جسمانی ساخت کے الٹ جنسی شناخت رکھنا ایک ایسا  مسئلہ ہے جو کسی کے ساتھ پیدائشی بھی ہوسکتا ہے اور عورتوں کے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے- خدانے مگر کوئی  بیماری ایسی پیدا نہیں کی، جس کی دوا نہ پیدا کی ہو- میں عرض کرتا ہوں کہ اگرایسے لوگوں کا نفسیاتی علاج ناممکن ہو تو انکی جنس تبدیل کردی جائے-اگر یہ حدیث درست ہے کہ عورت کی مشابہت اختیار کرنے والے پرلعنت ہو تو پھرخاکسار کے خیال میں یہ حدیث ایسے مردکے لیے  ہوگی جو قصداً  ایسا کیا کرے- یہاں جنس تبدیلی آپریشن، مشابہت کیلئے نہیں بلکہ اصل جنس کو اصل پوزیشن میں لانے کیلئے ہے- (بہرحال ایسے معاملات کا حتمی دینی فیصلہ ، اسی شعبہ کے ماہرین کریں گے)-

نفسیاتی ٹیڑھ پن کا اگلا عمومی کیس لوطی کا ہے جس کوآ ج کل “گے” اور” لیسبئین” کہا جاتا ہے-یہ بھی قدرتی طور پر، نفسیاتی الٹ پھیر کا شاخسانہ ہے-
دیکھیے ، دوباتیں الگ الگ ہیں- ایک ہے ہم جنس کی طرف میلان ہونا(یعنی”گے” ہونا) اور ایک ہے ہم جنس کے ساتھ جنسی فعل سرانجام دینا- ( یعنی “گے سیکس” میں ملوث ہونا)”-ضروری نہیں کہ جو طبعاً  گے ہو، وہ گے سیکس بھی ضرور کرتا ہو- اس کو آپ یوں سمجھ لیجیے کہ ہر”سٹریٹ” مرد میں عورت کو دیکھ کرجنسی میلان افزود ہو جایا کرتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ اس فعل میں ملوث بھی ہوتا ہو( اگر چہ اس کوپورے مواقع میسر ہوں)- اس لیے ان دوچیزوں کوالگ الگ لیا جائے گا-(برسبیل تذکرہ، میں اس روایت کو منطق کی رو سے رد کرتا ہوں کہ امام محمد کے حسن کے فتنہ کے ڈر سے امام ابوحنیفہ صاحب ان کودیوار کے پیچھے بیٹھ کرپڑھایا کرتے تھے- واقعی نادان دوستوں سے دانا دشمن اچھا ہوتا ہے)-
گے سیکس” کے بارے میں اگلی قسط میں بات کریں گے تاہم”گے” ہونے کے بارے میں کچھ تفصیل عرض کردیتا ہوں-

ہم جنسیت کی حقیقت بارے اہل اسلام میں مختلف آرا ء رہی ہیں- مثلاً  اس کو”غیرفطری” جذبہ قراردیا جاتا ہے- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسکی ابتداء قوم لوط سے ہوئی  اور وہ اس طرح کہ ایک بار شیطان نے ایک خوبصورت لڑکے کا روپ دھار کرایک باغبان سے یہ عمل کروایا اور یوں یہ عمل انسانوں میں پھیل گیا-
ہمارے پاکستانی دانشوروں   کے مطابق ہم جنسیت کی وجہ یہ ہے کیونکہ مرد کو عورت تک پہنچنے کی آزادی میسر نہیں ہوتی-اگر یہ آزادی مل جائے توہم جنسیت ختم ہوجائےگی-
دنیا میں ایک فلسفہ یہ بھی رائج رہا ہے کہ ہم جنسی عمل ، جنگجو نسل(مارشل ریسز) میں یہ عادت زیادہ پائی  جاتی ہے-(جیسے پختون اور ترک وغیرہ)۔۔ اسکی وجہ یہ بتائی  جاتی ہے کہ ان نسلوں میں غلبے کی بےپناہ خواہش کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم جنس کو زیرکرتے ہیں-
گلی محلے کی دانش یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی  چند بار مفعول بن جائے تو اسکی دبر میں ایک ایسا کیڑا پیدا ہوجاتا ہے جو اسکو اس کام کیلئے بے چین رکھتا ہے-
مذکورہ بالا”تھیوریز” پرایک مختصر تبصرہ کرکے بات آگے بڑھائیں گے-

ہم جنسیت قوم لوط سے پہلے بھی موجود تھی- یہ ایک فطری جذبہ ہے جو خدا نے ہی تخلیق کیا ہے-جیسے خدا نے جسمانی جنسی عیب دار پیدا فرمائے ہیں اسی طرح، نفیساتی جنسی عیب دار بھی خدا نے ہی پیدا فرمائے ہیں-
سورہ روم میں خدا فرماتا ہے کہ ہم نے انسانوں کو  مختلف مزاجوں پہ بنایا ہے- مختلف “الوان” کا مطلب ہی یہی ہے کہ بنی آدم میں رنگ ونسل، صنف وجنس، مزاج وطبیعت کے لحاظ سے سارے رنگ اور اپنے پیٹ وشہوت کی بھوک مٹانے کے سارے ذائقے اصلاً منشائے خداوندی کے تحت ہی تخلیق ہوئے ہیں- (ظاہر ہے کہ اس آیت کے ضمن میں طبعی “ہم جنسی” کا میلان رکھنے والے بھی شامل ہوگئے ہیں)-

سور ہ نور میں اللہ نے ایسے مردوں کا ذکرفرمایا جن کو عورتوں کی حاجت نہیں ہے- اس آیت میں جسمانی کھسروں کا ذکرنہیں ورنہ انکے لیے  الگ اصطلاح استعمال ہوتی- ان کو ” رجال” نہیں کہا جاسکتا- خاکسار کا خیال یہ ہے کہ یہاں “گے مرد” مراد ہیں کہ جن کو عورت کی حاجت نہیں ہوتی- اگر اس آیت میں ایسے مردوں کا ذکرکیا جاتا جوبالکل نامرد ہیں یعنی ان میں شہوت کا مادہ ہی نہیں( اگرچہ ایسے کیسز تقریباً معدوم ہیں) تو یہاں بالخصوص عورتوں کی  طرف میلان کا ذکرنہ کیا جاتا بلکہ یوں کہا جاتا کہ ایسے مرد جو شہوت سے خالی ہوں-یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ ایسے مردوں کا ذکرہورہا ہے جوشہوت اور رغبت تو رکھتے ہیں مگر عورتوں میں نہیں-ایک معنی یہ بھی لیاجاسکتا ہے کہ اس سے ضعیف العمرمرد مراد ہوں جن کو عورت کی حاجت نہیں ہوتی- مگران کے  لیے  عربی میں “شیبہ” یا “عجوز” وغیرہ جیسے متعین لفظ موجود ہیں- عربی میں “گے” کیلئے چونکہ کوئی  لفظ نہیں تھا تو اس لیے  ایسی پہچان کرائی  گئی – بعد میں فقہاء نے اسکے لیے “الشذوذ الجنسی” کی اصطلاح نکالی ہے-(برسبیل تذکرہ، قرآن میں ذکر ہونے سے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ اب ایک اچھاعمل گردانا جائے- جس خدا نے بلبل کی آواز پیدا کی ہے، اسی نے گدھے کی آواز پیدا کی ہے مگرگدھے کی آواز کوخدا نے کریہہ قرار دیا ہے)-

خدا نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جانوروں کواختیارِ عمل کی آزادی نہیں ہے بلکہ ا ن کو “بائی  ڈیفالٹ” ایک فطرت پہ خدا نے پیدا کیا ہے جس کی طوعاً  وکرہاً  وہ اتباع کرتے ہیں- آج کل کی ریسرچ سے یہ بات محقق ہوچکی ہے کہ بعض جانور بھی ہم جنس پرستی کیا کرتے ہیں- یعنی ہم جنسی کرنا ایک فطری عمل ہوا-
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے جو احباب ہم جنسی میلان کو غیرفطری عمل ( ان نیچرل) قرار دیا کرتے ہیں، خاکسار اس سے اتفاق نہیں کرتا- البتہ اسکو غیرعادی عمل کہا جائیگا( ابنارمل)- ایک بندہ “کلربلائنڈ” پیدا ہو ا تو کیا وہ ابنارمل نہیں؟- ابنارمل اور مریض میں کیا فرق ہوتا ہے؟۔۔۔

انسان کا بچہ انسان پیدا ہونا چاہیے- اگر انسان سے بلی کا بچہ پیدا ہوا تو غیرفطری ہے- اگر ایسا بچہ پیدا ہوا جسکے دل میں سوراخ ہے تو غیرعادی بات ہے مگر غیرفطری نہیں- اگلی بات یہ ہے کہ مرض کوجسٹیفائی  نہیں کیا جاتا بلکہ اسکا علاج کیا جاتا ہے- (البتہ ایسے لوگ تو واقعی مریض ہیں جو بیمار بچے کویہ نصیحت کریں کہ اپنے مرض پرفخرکیا کرو)-چنانچہ اصل بحث یہ نہیں کہ “گے” کو مریض کہا جائے یا صحت مند؟ بلکہ اصل اس پہ سوچنا مقصود ہے کہ اگر وہ نارمل بندہ ہوتا ہے تو دنیا اسکے لیے  تنگ کیوں ہے؟ اور اگر وہ ابنارمل ہے تو اسکی زندگی آسان بنانے کیلئے کیا کیِا جاسکتا ہے؟-
جہاں تک قوم لوط بارے تفسیری روایت کا تعلق ہے تواس پہ ہمارا کچھ خاص اشکال نہیں- ہوسکتا ہے کہ شیطان نے انکے ساتھ ایسا ہی کیا ہو-مگر قرآنی تفسیر میں یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ وہ لوگ ، دوسری قوموں پراپنی دھاک بٹھانے، راہ چلتے مسافروں کا ریپ کیا کرتے تھے- اس زمانے میں ہر قوم اپنی بقا کیلئے جارحانہ انداز اختیار کیا کرتی تھی مثلاً خواہ مخواہ کسی قوم پہ چڑھائی  کردینا ، ان کو غلام بنا لینا، یا راہگیروں کو لوٹ لینا وغیرہ- مگرقوم لوط نے اس ضمن میں ایک ایسا گھٹیا طریقہ ایجاد کیا تھا جو ان سے پہلے کسی قوم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا- اورچونکہ اب یہ قومی رسم بن گئی تھی تو انکی عورتیں بھی قومی وقار کی خاطر انکو شکار ڈھونڈ کردیا کرتی تھیں-

رہی پاکستانی دانشوروں کی تھیوری کہ چونکہ عورت میسر نہیں ہوتی توہم جنسیت پروان چڑھتی ہے، یہ فقط بات کو پختونوں اور مولویوں کی طرف پھیرنے  کو گھڑی گئی دانشوری ہے ورنہ لاس اینجلیس میں گیز کی کالونیاں کیوں آباد ہیں؟- حال ہی میں  بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جتنے میگا سیکنڈل ظاہر ہوئے ہیں وہ تو شمالی پنجاب میں ہوئے ہیں- کیا وہاں بھی پختونخوا  کی طرح عورت سفید ٹینٹ میں بند پھرتی رہتی ہے؟-
اس میں شک نہیں کہ مدارس جیسے اقامتی درسگاہوں، فوجی کیمپوں اور جیلوں میں یہ ہم جنسیت ابھرآیا کرتی ہے مگر یہ ایسا ہے کہ فطرت میں پہلے سے ایک چیز ہواور ساتھ ہی ماحول یا مواقع میسر آجائیں تو عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے-

اسلامی مدارس اقامتی مدارس ہوتے ہیں جہاں بلوغت کے ابتدائی  پُرجوش دنوں میں لڑکے قیام کرتے ہیں- یہ لڑکے امرد ہوتے ہیں اور کشش رکھتے ہیں- رات کو بستر ساتھ ساتھ پڑے ہوتے ہیں چنانچہ تقریباً تمام اسلامی مدراس میں ہم جنسیت عام چیز ہے- (ہمارے احباب، دین کی عزت کی خاطر اسکو چھپاتے ہیں ورنہ سب کو معلوم ہے)۔۔۔کیڈٹ کالجز بھی اقامتی ادارے ہیں- ان کالجز کی  سخت مصروف روٹین ہوتی  ہے کہ تنہائی  کا موقع کم ملتا ہے دوسرے یہ کہ رات کو بستر بھی ساتھ ساتھ نہیں جڑے ہوتے بلکہ الگ الگ پڑے ہوتے   ہیں-جب ہم کیڈٹ کالج میں پڑھا کرتے تھے توساری رات لائٹ آن رکھنا اور سردیوں میں بھی “ڈورم” کے دروازے کھلے رکھنا لازمی ہوتا تھا اور ہاؤس ماسٹر کے اچانک راؤنڈ لگا کرتے تھے- اسکے باوجود وہاں بھی ہم جنسیت کے کیس چلتے تھے-(پی ایم اے کاکول کا سخت مصروف دورانیہ صرف دوسال کا ہوتا ہے- پاکستان کے ایک صحافی بارے افواہ یہی ہے کہ ان کو اسی وجہ سے وہاں سے نکالا گیا تھا)-
بتانا یہ ہے کہ ہم جنسی ایک فطری عمل ہے جس کی بنیادی وجہ ، اقامتی مدرسہ نہیں ہواکرتا- البتہ ایسا ماحول اسکو سازگار ضرور ہوتا ہے- ( اسلامی مدرسوں کو خاص طور پربدنام کرنے میں بدنیتی کا دخل بھی ہوگا مگریہ بھی فطری بات ہے کہ سفید کپڑے پرداغ نمایاں نظر آیا کرتا ہے)-

اقامتی اداروں میں جیلیں، فوجی کیمپ، پردیس میں مسافروں کےمشترکہ ڈیرے وغیرہ بھی شامل کرلیے  جائیں- جن لوگوں کوان جگہوں سے واسطہ رہا ہے، وہ کئی کہانیاں بیان کرتے ہیں- لیکن جو لوگ”سٹریٹ” پیدا ہوئے، وہ ان جگہوں پہ بھی محفوظ رہے(آپ حلفیہ معلوم کرلیجیے- کثیرتعداد مولوی صاحبان کی مدارس میں بھی محفوظ رہے ہیں)- چنانچہ، عورت کا میسر نہ ہونا یا گندے ماحول کا موجود ہونا، ہم جنسی کی “وجہ” نہیں بنتی- یہ ایک فطری ودیعت شدہ جذبہ ہے جو ہرزمان اور ہرسماج کے بعض انسانوں میں موجود رہا ہے مگرماحول کے جبر سے گاہے دب جایا کرتا ہے-
اگلی تھیوری یہ تھی کہ” مارشل ریسز میں فتح کے غلبے کے پیش نظر یہ عادت ہوتی ہے” تو یہ بھی کوئی  دل لگتی بات نہیں ہے۔ آخر جنگجو نسل کے فاعل کو مفعول بھی تو اپنی نسل سے ہی میسر آتا ہے- پھریہ کیوں؟۔ پاکستان میں بسنے والی قوموں میں سے سب سے مفتوح قوم تو سرائیکی ہیں مگرسب سےزیادہ ہم جنس پرستی بھی سرائیکی علاقوں میں ہے- عوامی تجربہ تو الٹی خبربتاتا ہے کہ جو شخص، بڑا ہوکر غنڈہ بدمعاش بنتا ہے، پتہ کیا جائے تو وہ اکثر بچپن میں مفعول جانا جاتا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی عوامی تھیوری کی بات بھی کرتے جائیں جو کہتے ہیں کہ مفعول کے اندرایک کیڑا پیدا ہوجاتا ہے۔میڈیکلی تو یہ بات غلط ہے تاہم نفیساتی طور پردرست ہے کہ عادی مفعول، زندگی کے کسی حصے میں ہو، اس بارے پیاسا رہتا ہے- پچھلے دنوں ایک ڈی ایس پی صاحب کی پورن ویڈیو وائرل ہوئی  تھی جو فیصل آباد کے لڑکے کے مفعول بنے ہوئے تھے- آفیشل نوٹس کے جواب میں اگرچہ بہانہ بنایا گیا کہ ان کو نشہ پلا کرلڑکے نے زیادتی کی ہے مگرعوام جانتے ہیں کہ ایسے کیس بھی عام ہیں- میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ڈی ایس پی صاحب کی پروفشنل لائف اور پرائیوٹ لائف کو الگ الگ دیکھنا چاہیے۔ہر بندے کی زندگی کی ایک “ڈارک سیکرٹ” ہوتی ہے-اگر وہ اسکے پروفیشن پہ اثر انداز نہیں ہوتی تو اس بارے اس کو کٹہرے میں کیوں کھڑا کیا جائے؟۔
مضمون طویل ہوتا جارہا ہے-اگلی قسط میں ہم انشاء اللہ جنسی عمل یالواطت (گے سیکس) اوراسکی شرعی سزابارے ڈسکشن کریں گے-
جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply