اینا مولکا احمد اور پاکستانی امپریشنزم۔۔۔حسنین جمال

’آپ ایک جہاز میں بیٹھے ہوں اور وہ کریش ہوجائے، کیا اس میں آپ کی مرضی شامل ہوگی؟ میرے یہاں آنے میں بھی کیا میری مرضی شامل تھی؟ میرا باپ، بھائی، بہنیں، والدہ اور ان کے رشتے دار، وہ سب پولینڈ میں رہتے تھے۔ ان میں سے بہت سوں کا تو قتل ہوگیا، جو باقی بچے وہ بھاگ نکلے۔ میں جو ان میں سے ایک تھی، میرا انجام یہ ہوا کہ میں لاہور جیسے دُور دراز شہر میں آن بسی اور پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ فائن آرٹس قائم کیا۔ کون پیچھے سے ڈور ہلا رہا ہے؟ یہ تو پہلے سے طے تھا، یہ سب کچھ بہرحال ہونا تھا۔‘

ان کی والدہ پولینڈ سے تھیں، والد روس سے تھے اور وہ دونوں اس نسل کشی سے بھاگتے پھر رہے تھے جو ان کے وقتوں میں یہودیوں کا مقدر تھا۔ ان کی ملاقات لندن میں ہوئی اور پھر اس کا نتیجہ شادی تک پہنچا۔ اینا لندن میں پیدا ہوئیں۔ 1917ء کا سال تھا۔ شروع کی اسکولنگ کے دوران ہی اینا مولکا یہ جان گئی تھیں کہ اگر ان میں کسی چیز کی مہارت موجود ہے تو وہ پینٹنگ ہے۔ آج کل کے اکثر ابا جی لوگ کی طرح ان کے والد بھی نہیں چاہتے تھے کہ بیٹی ایویں بے مقصد کام سیکھے، ایسا کام جس سے نہ کچھ کمائی ہوسکتی ہو اور نہ ہی جس کی معاشرے میں کوئی اہمیت ہو، وہ کون کیوں اپنی اولاد کو سکھانا چاہے گا؟

اینا مولکا

جب مسلسل کوششوں اور محنت کے بعد وہ وقت آیا کہ اینا کو رائل آرٹ کالج لندن میں اسکالرشپ پر داخلہ مل سکتا تھا تب بھی داخلہ فارم پر دستخط کروانے وہ ابّا کے پاس نہیں گئیں۔ خود ہی ان کے دستخط کیے اور فارم بھجوا دیا، صرف اس لیے کہ وہ کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔

رائل کالج میں پڑھائی کے دوران ہی ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوگئی۔ شیخ احمد خود بھی ایک زبردست پینٹر تھے۔ ہمارے یہاں ان کا نام شاید اس لیے کم سننے کو ملتا ہے کیونکہ بعد کے حالات کچھ ان کے حق میں نہیں گئے۔ شیخ احمد ولایت سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرکے واپس جانے والے تھے کہ ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی اور وہ رُک گئے۔ جن دنوں وہ ریسٹ پر تھے انہی دنوں اینا سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ پینٹنگ اور ایچنگ میں کامل مہارت کی وجہ سے وہ ان دنوں سینٹرل اسکول آف آرٹس اینڈ کرافٹ میں کلاسیں بھی لیتے تھے۔ اینا کا ایسے ملٹی ٹیلینٹڈ نوجوان سے متاثر ہونا فطری تھا۔ تو یہ ملاقاتیں محبت میں بدلیں اور 18 برس کی عمر میں اینا اسلام بھی قبول کرچکی تھیں۔

دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر 1939ء کو شروع ہوتی ہے اور 9 ستمبر کو یہ جوڑا نکاح کرلینے کے بعد ہندوستان جانے والے بحری جہاز میں بیٹھ جاتا ہے۔ نئی دلہن یہاں کے رنگا رنگ پھل اور پھول دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے لیکن ساتھ میں اسے شدید پریشانی بھی رہتی ہے کہ بھئی یہ کیسا ملک ہے، یہاں ہر دوسرے آدمی کو ٹی بی ہے؟ جسے دیکھو خون تھوکتا نظر آتا ہے؟ اور وہ بھی سڑکوں پر تھوکتا ہے؟ بعد میں دلہن کو وضاحت دی جاتی ہے کہ یہ خون نہیں پان کی پیک ہے اور ادھر ہر دوسرا بندہ پان کا شوقین ہے۔ کبھی دلہن کو چائے بہت زیادہ میٹھی لگتی ہے، کبھی دیسی پردے کے رواج اسے تنگ کرتے ہیں، کبھی وہ گلی میں کھڑی گائے بھینسوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر شدید خوفزدہ ہوجاتی ہے، کبھی اسے کھلی چھت پر سوتے ہوئے بھڑ کے کاٹ جانے کا خوف رہتا ہے لیکن دلہن مینیج کرتی ہے۔ گزارا چلتا رہتا ہے۔

اینا مولکا کی پینٹنگز

ایک دن ان کے گھر ایک دوست آتا ہے اور دونوں میاں بیوی کو ایک اشتہار دکھاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں آرٹ ٹیچر کی اسامی خالی تھی۔ ولایتی آرٹ ٹیچر کو فوراً نوکری مل گئی مگر باقی پورے شعبے میں اللہ کا نام تھا۔

سلیبس، کرسیاں، میز، کوئی اور آرٹ ٹیچر۔۔۔ نشتہ! یا اینا مولکا احمد اور یا میاں افضل حسین جو ان دنوں یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور جن کا یہ آئیڈیا تھا کہ یونیورسٹی میں آرٹ کلاسیں شروع ہونا چاہئیں۔ پھر مسز احمد سلیبس بناتی ہیں، کالجوں میں جا جا کر طالب علموں کو اس طرف راستہ دکھاتی ہیں، ان کے امّاں ابّا کو مناتی ہیں کہ آرٹ بھی ایک فن ہے اور اس کی بھی ڈگری ہوتی ہے اور جب پاکستان بنتا ہے تو اس وقت ان کے شعبے میں کُل 200 لڑکیاں ہوتی ہیں جن میں سے مسلمان صرف 18 لڑکیاں ہوتی ہیں۔

اینا مولکا کی ایک پرانی تصویر

شعبہ پھر سے خالی ہوجاتا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کے ماں باپ پینٹنگ کو غیر شرعی سمجھتے ہوئے بیٹیوں کو داخلے کی اجازت نہیں دیتے۔ مسز احمد پھر اپنی کوششوں میں لگ جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ حالات دوبارہ بہتر ہوتے ہیں اور 1956ء میں لڑکوں کے لیے بھی پنجاب یونیورسٹی آکر مصوری سیکھنے کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں کتنی مرتبہ سرکاری میٹنگوں میں جانا اور وہاں سے غصے میں بھرے واپس آنا پڑا، یہ ایک الگ داستان ہے۔

اینا مولکا احمد ہمت نہیں ہارتیں اور 1958ء میں ایم اے فائن آرٹس شروع ہوتا ہے۔ 1960ء میں 3 سالہ بی اے آنرز کی ڈگری شروع کی جاتی ہے اور یہ شعبہ ایک بار پھر سلیقے سے ٹریک پر لگ جاتا ہے۔ اس دوران ڈیپارٹمنٹ ہیڈ مسز احمد کی ذاتی زندگی بہت بڑے طوفان سے گزر رہی ہوتی ہے۔ کچھ مزاجوں کا فرق ہوتا ہے اور کچھ وہ شکایتیں جو ہر فنکار ٹائپ انسان سے اس کے بیوی بچوں کو ہوسکتی ہیں، تو 1951ء میں اینا مولکا احمد اپنی 2 بیٹیوں کے ساتھ شیخ احمد سے علیحدگی اختیار کرچکی ہوتی ہیں۔ ان کی تصویروں میں ان کی زندگی کے سارے موسم دیکھے جاسکتے ہیں۔
مسز احمد اپنی محدود آمدنی کی حدود میں رہتے ہوئے نہایت سلیقے سے دونوں بیٹیوں کی پرورش کرتی ہیں، ڈیپارٹمنٹ، گھریلو زندگی اور مصوری کو برابر وقت دیتے دیتے ذرا سانس لیتی ہیں تو ایک اور مسئلہ سر پر کھڑا ہوتا ہے۔ ان کی صاحبزادی زارا مریم ان کی مرضی کے خلاف اپنے کلاس فیلو کولن ڈیوڈ سے شادی کرلیتی ہیں۔ ایک تھرڈ پرسن کی حیثیت سے لکھتے اور پڑھتے ہوئے ہمیں یہ سوچنے (یا جج کرنے) کی بالکل ضرورت نہیں کہ زارا ڈیوڈ کا فیصلہ فائدہ مند تھا یا انہوں نے کچھ بہتر نہیں کیا۔ ایک اولاد اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں اسی قدر آزاد ہے جتنا کہ اسے پیدا کرنے والے ہیں، تو جو کچھ زارا نے کیا وہ ان کا فیصلہ تھا اور بہترین تھا۔ لیکن اینا مولکا اس واقعے کے بعد بڑے عرصے تک ڈپریس رہیں۔ فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں کافی زیادہ پولرائزیشن یا تقسیم پیدا ہوئی، کچھ لوگ مسز احمد کے ساتھ تھے اور کچھ زارا ڈیوڈ کے فیصلے کو سپورٹ کرتے تھے۔ پھر اس واقعے کے بعد مسز احمد نے ایک تصویر بنائی جو کافی حد تک سچ ثابت ہوئی۔ طویل مدت کے بعد بالاخر وہ اس صدمے سے باہر آچکی تھیں۔

انہوں نے 65ء اور 71ء کی جنگوں کے دوران بھی کچھ پینٹنگز بنائیں جو ایک آرٹسٹ کے کمرشل پہلو کے طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ آخر بڑے بڑے ادیبوں نے بھی تو کمرشل رسالوں کے لیے کہانیاں لکھیں، ٹی وی چینلز کے ڈرامے لکھے، شادی آن لائن ٹائپ پروگرام کیے۔۔۔ تو روزی کمانا ہر دور کے فنکار کا اولین مسئلہ بہرحال رہا ہے۔

محکمہ ڈاک نے ان کی یاد میں ٹکٹس بھی جاری کیے تھے

1975ء میں ریٹائر ہونے سے پہلے انہیں ڈیپارٹمنٹ میں کچھ جونئیرز کے ماتحت بھی کام کرنا پڑا۔ یہ اس وقت کی حکومتی پالیسی تھی۔ 1983ء میں انہیں پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر ایمریطس کا درجہ مل چکا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اینا مولکا احمد دوبارہ فل ٹائم پینٹنگ میں مصروف ہوگئیں اور کئی قد آدم تصویریں بھی بنائیں۔ لینڈ اسکیپ، جنگی تصاویر، انسانی چہرے اور جسم، ڈرائنگز، مذہبی رجحان والی تصویریں، ان کا فن بہت سے پہلو رکھتا تھا۔

جو ان کا ٹریڈ مارک اسٹائل تھا وہ تو یورپی مصوروں والا امپریشنزم تھا۔ اس میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر بنائی جاتی ہے۔ تصویر کا موضوع کچھ بھی ہوسکتا ہے، کوئی بھی عام سا منظر لیکن اس میں لائٹ پڑنے کے اینگلز اور سائے کے رنگوں کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ سائے یہاں رنگین ہوتے ہیں۔ جیسا چیز کا رنگ ویسا سایہ، اس دنیا کے سائے سرمئی تھوڑا کم کم ہوتے ہیں۔ تو وہ جو اسٹروکس ہوتے ہیں وہ آپس میں مل کر وہی تصویر بناتے ہیں جو سامنے کا منظر ہوتا ہے لیکن اس میں ایک خواب نما کیفیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت اور خیال کا مکسچر، یوں جو چیز بنتی ہے وہ امپریشنسٹ تصویر کہلاتی ہے۔ جیسے وان گاف، مانے، سیزان، روداں یا دوسرے کئی مصور تھے۔

اب اس امپریشنزم میں ایک باریکی انہوں نے الگ سے پیدا کردی تھی۔ ان کے رنگ ایک تو بہت شوخ ہوتے تھے اور دوسرا وہ زیادہ تر چاقو سے پینٹ کرنا پسند کرتی تھی۔ کینوس یا ہارڈ بورڈ پر رنگوں کی موٹی موٹی تہہ لگائی اور بجائے نرم و ملائم برش استعمال کرنے کے، انہی رنگوں کے درمیان چاقو سے نقش ابھارنا شروع کردیا۔ یہ ان کی پسندیدہ ٹیکنیک تھی (اسے عام طور پر Impresto کہتے ہیں)۔ پھر سیاہ رنگ کا استعمال ان کی تصویروں میں کافی زیادہ ہے جو عام طور پر امپریشنسٹ کم پسند کرتے تھے۔

’جب میں اسٹوڈیو میں پینٹ کرتی ہوں تو میرا سبجیکٹ، میرا اسٹائل، سب الگ ہوتا ہے۔ ہلکے رنگ ہوتے ہیں، اداس موضوع ہوتے ہیں۔ میں باہر جاکر اس وقت پینٹ کرتی ہوں جس وقت سورج بھرپور طریقے سے چمک رہا ہو، بادل ہوں یا مٹی اڑ رہی ہو تو بھی میں آؤٹ ڈور پینٹنگ نہیں کرتی۔ تو بس جب سورج مکمل طور پر چمک رہا ہوتا ہے اس وقت وہ مجھ پر حاوی ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں نشے میں ہوں۔ سورج کے آگے میری اپنی سب خصوصیات ختم ہوجاتی ہیں۔ میں بھرپور شوخ اور کھلتے ہوئے رنگ استعمال کرتی ہوں۔ نارنجی، پیلا، چمکدار نیلا، زیتون جیسا سبز یا پھر کبھی کبھی لال رنگ بھی، میں بھرپور جوش اور شدت کی تیزی سے کام کرنا شروع کردیتی ہوں، اگر کوئی پاس سے گزرنے والا مجھے دیکھنے رک جائے اور خلل ڈالنے کی کوشش کرے تو میں شدید غصے میں آجاتی ہوں۔ سورج جادوگر ہے۔ سورج ہر چیز میں نئے رنگ بھر دیتا ہے۔ جب سورج چلا گیا تو سمجھو رنگ سارے غائب ہوگئے۔‘

خالد اقبال کی بنائی ہوئی پینٹنگ اینا مولکا

انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی ملا۔ محکمہءِ ڈاک نے ان کی یاد میں ٹکٹس جاری کیے لیکن ان کا جو سب سے قیمتی اثاثہ ہے وہ ان کے اسٹوڈنٹس کی دلوں میں ان کی یاد ہے۔ جاوید اقبال، شاہنواز زیدی، ابرار ترمذی، غلام رسول کے نام ان شاگردوں میں گنائے جاسکتے ہیں، جنہوں نے اپنی استاد کا علَم اگلی نسل تک بحفاظت پہنچایا۔

مسز احمد کے مجسمے، ان کی بنائی پینٹنگز، ڈرائنگز، گرافک آرٹ یہ سب کچھ آج بھی ان کے شاگردوں، آرٹ کے قدر دانوں اور ان کی صاحبزادیوں کے پاس موجود ہے۔ کاش کوئی میوزیم ایسا ہوتا جہاں یہ سب چیزیں ایک عام بندہ اکٹھی دیکھ سکتا۔ اینا مولکا پاکستانی مصوری کا وہ کردار تھیں جس کے بغیر مغربی آرٹ کی سیڑھی پھلانگ جانا ہمارے لوگوں کے لیے ناممکن ہوتا بلکہ شاید مصوری اور مجسمہ سازی 7 پردوں میں ہو رہی ہوتی۔
محکمہ ڈاک نے ان کی یاد میں ٹکٹس بھی جاری کیے تھے

’اب ایک سانس بند ہونے والی کیفیت ہے۔ جلدی! جلدی! مجھے سب کچھ کینوس پر اتارنا ہے۔ وقت بھاگا جارہا ہے۔ پینٹ کم پڑگئے ہیں۔ مارکیٹ تک سے نہیں مل رہے، پھر دوست کام آتے ہیں۔ وہ پینٹ لاکر دیتے ہیں اور میں کسی بے چین روح کی طرح انہیں کینوس پر پھیلا کر کام شروع کردیتی ہوں۔ مجھے بہت سی تصویریں بنانی ہیں، بہت سے جذبات مصور کرنے ہیں، بہت سے خیال مجسم کرنے ہیں۔۔۔۔‘

اینا مولکا احمد کا انتقال 1994ء میں ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.dawnnews.tv

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply