• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہیدشیخ حسن جان, مولانا شیرانی اور شہید ڈاکٹر فاروق خان کا متبادل بیانیہ ۔۔۔۔۔ محمد حسین ہنرمل

شہیدشیخ حسن جان, مولانا شیرانی اور شہید ڈاکٹر فاروق خان کا متبادل بیانیہ ۔۔۔۔۔ محمد حسین ہنرمل

“دہشتگردی اور انتہا پسندی چونکہ مذہب کی غلط تعبیر کے نتیجے میں معاشرے میں جڑ پکڑتی ہے یوں اس ناسور کی بیخ کُنی کیلئے سب سے اہم فریضہ علماء کرام ہی کابنتاہے ۔ نائن الیون کے بعدیہ ناسور پورے آب وتاب کے ساتھ نہ صرف افغانستان میں پھیل گیا بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ، خیبرپختونخوا اور جزوی طور پرملک کے دوسرے حصے بھی اس کی زد میں آئے۔ لاکھوں کلمہ گومسلمان اس خونخوار بیانیے پریقین رکھنے والوں کے ہاتھوں شہید اور اس سے زیادہ تعداد میں لوگ زخمی اور دربدر ہوگئے۔ اور حال یہ ہے کہ مذہب کے نام پرخوف پھیلانے اور ایک دوسرے کی گردن زنی کا یہ کھیل خطے میں اب بھی جاری ہے ۔مذہب کی غلط تعبیر کے نتیجے میں تشکیل پانے والے اس بیانیے کو پاکستان میں جن علماء اور مذہبی سکالرز نے ڈنکے کی چوٹ پر رد کیا تھا ان میں ایک شیخ الحدیث مولانا #حسن جان مدنی , دوسرا مولانا #محمدخان شیرانی اور تیسرا مردان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد فاروق خان تھے –
یقیناً یہ ایک پُر خطر اور رسکی محاذ تھا اور اس محاذ پر شیخ مولانا حسن جان اور ڈاکٹر فاروق خان تو اپنی جانیں گنوا بیٹھے تاہم مولانا محمدخان شیرانی کئی حملوں کی زد میں آنے کے باوجود محفوظ رہے ۔
شیخ الحدیث مولانا حَسن جان پشاور کے صدر میں واقع مدرسے جامعہ امدادالعلوم (درویش مسجد) کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے ۔ مولانا حسن جان مدنی پاکستان کے اُن اٹھارہ خوش قسمت طلباء میں سے تھے جنہیں ستر کی دہائی میں سب سے پہلے مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کاشرف حاصل ہوا۔ مدینہ منورہ میں چارسال قیام کے دوران انہوں نے مسجد نبوی میں قرآن حفظ بھی کیا۔
وطن واپس لوٹے تو لاہور کے جامعہ اشرفیہ میں شیخ محمد ادریس کاندھلوی اور مولانا رسول خان ہزاروی جیسے نامور علماء کے شاگرد بنے اور وہاں سے 1967میں فارغ التحصیل ہوئے۔ 1971میں جامع پشاور سے ایم اے اسلامیات میں گولڈ میڈل ملنے کے بعدآپ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ چارسدہ کے جامعہ نعمانیہ ، کوہاٹ کے جامعہ دارالعلوم ،اکوڑہ خٹک اور مردان کے مدرس میں تقریبا پندرہ سال تک مسلسل درس وتدریس سے منسلک رہے اور بعد می ںپشاور کے صدر میں واقع مدرسے جامعہ امدادالعلوم میں تادم شہادت علم حدیث پڑھاتے رہے ۔اسلامی تاریخ سے بے پناہ لگاو نے مولانا شیخ حسن جان سے نہ صرف بے شمار ملکوں کے اسفار کروائے بلکہ یہ اشتیاق انہیں بلاد عرب میں بدر، احد، خندق حدیبیہ ، جعرانہ ،حنین ، سیف البحر، بیت المقدس کی زیارت کے علاوہ حضرت موسیٰ ، حضرت سلیمان حضرت یونس اورحضرت سلمان فارسی کے مزارات پر بھی لے گئے۔
نوے کے عام انتخابات میں جے یوآئی کی ٹکٹ پر چارسدہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار بنے تو ممتاز سیاستدان عبدالولی خان کو بھی مات دے گئے ۔ نائن الیون کے بعد ملک کے قبائلی علاقوں، خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں جب جہاد کے نام پر خودکش حملوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا تو انہوں نے بڑی بہادری کیساتھ اسے ناجائز اور خلاف شریعت قرار دیا ۔ مولانا حسن جان نہ صرف پاکستان میں خودکش حملوں کو غیرشرعی قرار دیتے رہے بلکہ وہ اپنے وسیع علمی فہم کی بنیاد پر افغان طالبان کی مزاحمت پر بھی تحفظات رکھتے تھے ۔ اس زمانے میں افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی جسے طالبان ایک کٹھ پتلی حکومت سمجھتے تھے ۔
مولانا حسن جان اپنی تقاریر میں وقتاً فوقتاً اس رائے کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ مزید خون خرابے سے بہتر ہے کہ افغانوں کے وسیع تر مفاد میں افغان طالبان حامدکرزئی پر اعتماد کرکے ایک مشترکہ حکومت تشکیل دیں- اس اتحاد کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے لئے افغان سر زمیں پر مزید ٹھہرنے کا جواز ختم ہوگا اور دوسرا یہ کہ امت مزید خون خرابے سے بچ جائے گی۔ مولانا حسن جان کے قریبی ذرائع کے مطابق خودکش حملوں کو حرام قرار دینے پر جس طرح پاکستان میں بعض قوتیں مولانا حسن جان پر برہم تھیں اسی طرح افغان طالبان کو بھی ان کی آراء اور تجاویز سے شدید اختلاف تھا – مختصر یہ کہ اس بیانیے اور موقف پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ جانے والے شیخ حسن جان کو جب دباو میں لانے کی کوششیں بھی کارگر ثابت نہ ہوسکیں تو پھر اس توانا آواز کوہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کی ٹھان لی گئی ۔ اور پھر ستمبر2007کو رمضان کے مبارک مہینے میں عین افطار کے وقت یہ آواز خاموش کردی گئی ۔
مولانا حسن جان کے بیٹے مولانا فخرالحسن کے مطابق افطاری سے کچھ دیر قبل تین باریش پگڑی والے کالے رنگ کے کار میں انکے گھرآئے اور انہوں نے انکے والد کو نکاح پڑھوانے کے بہانے اپنے ساتھ لے گئے۔بقول ان کے کچھ دیر بعد ان کو فون پر اطلاع ملی کہ مولانا حسن جان کو وزیر آباد کے علاقے میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ”۔ حال ہی میں جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے میرے ایک دوست نے بتایا کہ جس رات مولانا حسن جان کی شہادت کی خبر چہار دانگ عالم میں پھیل گئی ، اسی رات جامعہ حقانیہ میں ان انتہا پسند حلقوں میں طلباء میں مٹائیاں بھی تقسیم کی گئیں جن کے ہاں وہ واجب القتل تھے ۔
شیخ حسن جان کی شہادت کو اب بارہ برس بیت گئے ہیں لیکن خطے میں خودکش حملوں اور افغانستان میں خانہ جنگی کا وہی سلسلہ بدستور جاری ہے ۔
کاش! ہمارے دیگر علماء بھی مولانا حسن جان کی طرح خودکش حملوں کو غیر اسلامی قرار دیتے تو مجھے یقین ہے کہ پَلوں کے نیچے اتناسارا پانی نہ بہتا۔
کاش! افغان طالبان بارہ سال پہلے اس مجتہد مولانا کی رائے کو ٹکرانے کی بجائے پر اس پرحامی بھرتے تو غالب امکان تھا کہ بیرونی افواج کو وہاں مزید دس سال ٹھہرنا پڑنا اور نہ ہی لاکھوں کی تعدا د میں افغان کلمہ گو مسلمان شہید اور زخمی ہوتے ۔
دہشتگردی کے خلاف یہی بیانیہ مولانا محمدخان شیرانی نے بھی بہت پہلے اپنایا تھا اور تادم تحریر اس بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مولانا شیرانی اسلام کے نام پر بپا ہونے والی اس پرائی جنگ کی مخالفت میں مولانا شیخ حسن جان شہید سے بھی دوقدم آگے تھے۔ مولانا شیرانی پچھلے سترہ اٹھارہ سال سے مسلسل عوامی اور سیاسی اجتماعات میں کھل کر اس جنگ کوفساد کہتے آئے ہیں۔ ان کی اس دلیرانہ موقف سے اختلاف کرنے والی قوتوں نے پہلی مرتبہ انہیں جولائی 2004 کو قلعہ سیف کے قریب ریموٹ کنٹرول بم حملے کے ذریعے ان کی گاڑی کونشانہ بنایا گیا جس میں وہ اپنے تین رفقاء سمیت محفوظ رہے ۔ پھرمارچ 2009 کو پشین میں ایک جلسے میں تقسیم اسناد کے بعد ان کو ایک خودکش حملہ کے ذریعے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن مولانا شیرانی اس حملے میں بھی محفوظ رہے تاہم مدرسے کے چار طالبعلم شہید ہوگئے ۔
ملک میں فرقہ وارایت کے ناسور کے خلاف بھی مولانا شیرانی کے اقدامات صد قابل تحسین ہیں۔ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے بلوچستان میں چند سال پہلے مولانا شیرانی ہی کی کاوشوں سے اتحاد ملت ِ اسلامیہ محاذ (امام) کے نام سے مختلف فرقوں پر مشتمل ایک تنظیم قائم ہوئی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دہشتگردی اور انتہاپسندی کے بارے میں بے لاگ موقف رکھنے کے جرم میں مولانا شیرانی کو نہ صرف جان سے مارنے کے حربے آزمائے گئے بلکہ ان کو منکر جہاد ، رافضی اور خمینی کا دوست بھی قرار دیا گیا, لیکن ماشااللہ یہ مولانا تا حال اپنے اس موقف پر استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
شیخ حسن جان شہید اور مولانا شیرانی کی طرح دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خونخوار بیانیے کو چیلنج کرنے والوں میں ایک نام #ڈاکٹر محمد فاروق خان کا بھی ہے- مردان سے تعلق رکھنے والے یہ مرد جری بھی ایک متبادل بیانیے کے ساتھ نکلے تھے- اس عظیم مقصد انہوں نے کتابیں لکھیں, اخبارات میں کالمز لکھ ڈالے اور ٹی وی مباحثوں میں حصہ لیا – جب دشمنوں کے ہاں ناقابل برداشت ٹھہرے تو 2010 کو اپنے کلینک ہی میں ان کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردیا گیا – آناللہ وانا الیہ راجعون اللہ,
پشتو کے مشہور صوفی شاعر عبدالرحمان بابا نے شاید یہ شعر مولانا شیخ حسن جان شہید, ڈاکٹر فاروق خان شہید اور مولانا شیرانی جیسے صاحب عزیمت و استقامت لوگوں کے بارے میں کہا تھا،

لکہ ونہ مستقیم پر خپل مقام یم

Advertisements
julia rana solicitors

کہ خزان راباندی راشی کہ بہار ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply