سن ساٹھ کے عشرے کے اوایل میں جب میں دہلی میں ہندوستان کے ممتاز ساینس دان اے پی جے عبدالکلام سے ملا تو دھان پان ایسے شخص کو دیکھ کر جس کے بال بیچ کی مانگ کے ساتھ شانوں تک بکھرے ہوئے تھے اور جس کے خواب زدہ چہرے پر گھنی بھنویں دو کمانوں کی مانند نظر آتی تھیں ان پرخوابوں میں گم ایک شاعر کا زیادہ گمان ہوتا تھا۔
عبد الکلام امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا میں مختصر تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد امریکا سے وطن لوٹے تھے اور وہ ہندوستان کے پہلے راکٹ کی تیاری میں مصروف تھے۔ جب عبدالکلام ناسا میں تھے تو ان کا کہنا تھا کہ وہاں استقبالیہ میں انہوں نے ایک بڑی سی پینٹنگ دیکھی جس میں ٹیپو سلطان کی سپاہ اور انگریزوں کی فوج کے درمیان معرکہ دکھایا گیا تھا ۔ ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے قریب جا کر دیکھا کہ اس پینٹنگ میں ٹیپو کی سپاہ کو راکٹ داغتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس لمحہ ان کے دل و دماغ میں شعلہ کی مانند ایک خواب نے جنم لیا کہ ڈیڑھ سو سال قبل جب ٹیپو سلطان کی فوج راکٹ تیار کر سکتی تھی تو آج کا ہندوستان اپنے وسائل سے راکٹ اور مزایل کیوں نہیں تیار کر سکتا۔
ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریز اس کے اسلحہ خانہ سے سات سو راکٹ انگلستان لائے تھے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں ان کے تجزیہ کے بعد انگلستان میں انجینرینگ نے ایک نیا انقلابی رخ اختیار کیا اور در اصل صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا۔
ٹیپو سلطان کی سپاہ کے معرکہ کی اس تصویر نے عبدالکلام کو بھی ایک نئی راہ پر گامزن کردیا اور ان کے دل میں ایک ایسے خواب کی جوت جگائی جس نے جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے ایک دور افتادہ جزیرہ کے ایک غریب کشتی بان زین العابدین کے سب سے چھوٹے بیٹے عبد الکلام کو جو اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کر کیلے کے پتے پر چاول اور سانبر ایسے کھاتا تھا کہ دنیا کے تمام لذیذ کھانے اس کے سامنے ہیچ ہوں اور جو اسکول جانے سے پہلے صبح صبح اخبار تقسیم کرتا تھا اور اسکول کے بعد اپنے بھائی کی پرچون کی دکان کی دیکھ بھال کرتا تھا ہندوستان کا ممتاز جوہری اور مزایل ساینس دان بن کر نام پیدا کرے گا اور اس کے ساینسی کارناموں کے اعتراف میں اسے ہندوستان کا صدر مملکت منتخب کیا جائے گا۔
دہلی میں جب میں ان سے ملا تو وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے ۔ شادی انہوں نے نہیں کی تھی اور جتنی تنخواہ انہیں ملتی تھی اس میں سے آدھی سے زیادہ تنخواہ وہ غریب طالب علموں کو وظایف دینے پر خرچ کرتے تھے۔ چھوٹے سے کمرے میں ان کی نہایت سادہ زندگی دیکھ کرمیں حیران رہ گیا۔میں ان سے سوال کیے بغیر نہ رہ سکا کہ آپ ہندوستان کے عظیم ساینس دان ہیں آپ کا جی نہیں چاہتا کہ آپ عالی شان مکان میں رہیں تو ایک خاص مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا کہ چھوٹے سے کمرے میں میرا جی نہیں گھبراتا کیونکہ میں نے رامیشورم کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ یہ چھوٹا کمرہ مجھے اپنے بچپن کے دور کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ ویسے بھی ذہن کشادہ رکھنا چاہیے اور اگر ذہن کشادہ ہے تو دنیا کی وسعت آپ کے قدموں میں ہے ۔ ذہن کشادہ ہو تو آپ خلاء کو تسخیر کر سکتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ ساینس کے میدان میں آپ نے اتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں اگر پوچھا جائے کہ ان کے پیچھے کیا قوت اور راز کار فرما رہا ہے تو بغیر کسی توقف کے بولے۔مذہبی عقیدہ۔کہنے لگے کہ عقیدہ کی پختگی انہیں ان کے والد سے ملی۔ کہنے لگے کہ ہر بڑے کام سے پہلے ان کے والد اپنے محلے کی چھوٹی سی مسجد میں دعا کے لئے لے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ جب میں رامیشورم سے قریب کے شہر رام ناتھ پورم میں میٹرک کی تعلیم کے لئے جارہا تھا تو میرے والد ہم سب کو لے کر مسجد میں گئے اور دعا کی۔ اسی طرح جب میں تری چلا پلی میں سینٹ جوزف کالج میں پڑھنے جا رہا تھاتو والد صاحب نے مسجد میں لے جا کر دعا کی اور اس وقت بھی مسجد میں جا کر دعا کی جب میں ناسا میں تربیت کے لیے امریکا جا رہا تھا۔
جس زمانے میں عبدالکلام صاحب سے ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت پاکستان میں ایوب خان کا فوجی راج تھااور ہندوستان میں بعض عناصر فوجی حکومت سے بہت متاثر تھے ۔ میں نے عبدالکام صاحب سے پوچھا کہ کیا ہندوستان میں بھی فوج کے اقتدار پر قبضہ کا اندیشہ ہے تو وہ بولے ۔ ہرگز نہیں۔ اول تو ہندوستان میں چپہ چپہ میں سیاسی شعور اور بیداری ہے اور سیاسی جماعتیں بڑی مضبوط ہیں۔ پھر پاکستان کے مقابلہ میں ہندوستان بے حد وسیع ملک ہے جس میں بڑی بڑی ریاستیں ہیں جن پر فوج کنٹرول نہیں کر سکے گی تیسرے ہندوستان میں فوج پاکستان کی طرح بڑی حد تک ایک صوبہ سے تعلق نہیں رکھتی اس لیے یہ اقتدار پر اپنی گرفت زیاہ دیر تک نہیں رکھ سکے گی ۔ وہ کہنے لگے کہ ہندوستان خوش قسمت ہے کہ آزادی کے فور ا بعد رجواڑے اور زمینداریاں یکسر ختم کر دی گئیں ۔ عبد الکلام صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تحریک میں وڈیرے ، زمیندار اور سردار پیش پیش تھے اس لئے ان کا دعوی تھا کہ پاکستان انہوں نے بنایا ہے اس لئے قیام پاکستان کے بعد کسی حکومت کو زمینداری کے خاتمہ کی ہمت نہیں ہوئی اور دراصل پاکستان میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اسی طبقہ کی حمایت حاصل کی اور بیوروکریسی نے اس کا ساتھ دیا کیونکہ ان تمام قوتوں کے مفادات مشترک ہیں۔ عبدالکلام صاحب کی رائے تھی کہ پاکستان کی ترقی کے لئے زراعت کی ترقی اور اصلاحات بہت ضروری ہیں لیکن چونکہ زمیندار طبقہ اس کی اجازت نہیں دے گا اس لئے پاکستان کی معیشت اور سیاست سنگین بحران کا شکار رہے گی۔ عبد الکلام صاحب کا یہ ساینسی تجزیہ اتنا حقیقت پسندانہ اور مدلل تھا کہ مجھے مزیدکوئی سوال کرنے کی جرات نہیں ہوئی ۔
سن تریسٹھ میں جب عبد الکلام صاحب نے ہندوستان کے پہلے راکٹ کا تجربہ کیا اور پوکھرن میں پہلا جوہری دھماکہ کیا تو ان کے نزدیک یہ ٹیپو سلطان کے خواب کی تجدید کا عمل تھا ۔ اس کے بعد عبد الکلام صاحب کی کوششوں سے ہندوستان نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ روھنی چھوڑا اور انہوں نے ملک کو اگنی ، آکاش ، پرتھوی ، ترشول اور ناگ مزایل کے تحفے دیے او ر اس کے اعتراف میں ملک نے انہیں پہلے پدم بھوشن اور آخر کار سب سے بڑا اعزاز بھارت رتنا دیا اور انہیں صدر مملکت کے عہدہ پر فایز کیا۔
اول پکیرجین العابدین عبد الکلام ( اول فقیر زین العابدین عبدالکلام) کا بچپن رامیشورم کے جس ماحول میں گذرا اس نے ان کی شخصیت میں مذہبی عقیدہ کی پختگی کے ساتھ مذہبی رواداری کو بھی فروغ دیا۔ ان کی کشتی بان والد رامیشورم کے مشہور شیوا مندر کے پروہت کے قریبی دوست تھے اور جن کی روحانی مسائل پر ان سے طویل بحثیں ہوتی تھیں۔
مذہبی روا داری رامیشورم میں مسلمانوں ، ہندووں اور عیسائیوں کے درمیاں گہرے بھائی چارے کی دین تھی۔ عبد الکلام کے ابتدائی اسکول میں بڑے پکے دوست تھے یہ تینوں برہمن گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ عبدالکلام کروشیا کی بنی ہوئی ٹوپی پہنتے تھے اور ان کے برہمن دوست جنیو پہنتے تھے۔ ایک بار جب رامیشورم کے باہر سے ان کے اسکول میں پڑھانے کے لئے ایک نئے استاد آئے تو انہوں نے جماعت میں سب سے آگے برہمن بچوں کے ساتھ اس مسلمان بچے کو بیٹھے دیکھا تو کہا کہ یہ ملیچھ بچہ برہمنوں کے ساتھ کیوں بیٹھا ہے اور عبدالکلام کو سب سے پیچھے بیٹھنے کا حکم دیا۔ زین العابدین کے دوست پروہت کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے استاد کو بلا بھیجا اور کہا کہ عبدالکلام اپنے دوستوں کے
ساتھ آگے بیٹھے گا اور اگر انہیں یہ بات پسند نہیں تو وہ اسکول چھوڑ دیں۔ استاد کو آخر کار سر تسلیم خم کرنا پڑااور پھر ایک زمانہ کے بعد ان کے شاگرد عبد الکلام کی شہرت نے اس استاد کاسر فخر سے بلند کردیا۔
یہ رامیشورم کے ماحول کا اثر تھا کہ عبدالکلام ہر صبح تلاوت کلام پاک کے بعد گیتا کا بھی مطالعہ کرتے تھے اور جنوبی ہند کا ساز مردنگ بھی بجایا کرتے تھے۔
عبدالکلام صاحب کی شخصیت مذہب ساینس اور شاعری کے ایک حسین امتزاج سے عبارت تھی۔ وہ تامل کے اچھے شاعر بھی تھے۔ مدراس کے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنولوجی سے ایروناٹکس انجیرینگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عبدالکلام صاحب ہوا باز بننا چاہتے تھے اور انہوں نے ہندوستانی فضایہ میں بھرتی کی درخواست بھی دی تھی لیکن انہیں مسترد کر دیا گیا۔ افسوس اس کاانہیں بہت ہوا لیکن مایوسی نہیں ہوئی اور انہوں نے اپنے خوابوں کو نئی جہت دی۔ اس کے بعد انہوں نے ڈایرکٹیٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ پروڈکشن میں ڈھائی سو روپے ماہانہ کے مشاہیرہ پر ملازمت اختیار کی جہاں سے ان کے خوابوں کی تعبیروں کی راہ روشن ہوتی چلی گئی۔
سن ستر میں عبد الکلام صاحب نے میزایل کی تیاری کا پروگرام شروع کیا ۔ ہندوستان کے مزایلوں میں اگنی پہلا تھا۔ اس کے نام سے عبد الکلام صاحب کے فلسفہ حیات سے قریبی مناسبت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب اپنے اندر ایک آتش ربانی لئے پیدا ہوئے ہیں اور ہماری کوشش اس آگ کوپر دینے اور اس سے دنیا کو خیر اور اچھائی کی روشنی سے منور کرنے کی ہونی چاہئے ۔ اپنی آپ بیتی کا عنوان عبد الکلام صاحب ے Wings of Fire یعنی شہپر آتش رکھا ہے۔ اور شہپر آتش والے افراد روز روز نہیں پیدا ہوتے۔عبدالکلام صاحب کو آسام کے شہر شیلانگ میں ایک لیکچر دیتے ہوئے دل کا زبردست دورہ پڑا ۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے ۔ ان کی عمر ۸۳ سال تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں