محترم وزیر اعظم صاحب! کیسے نہ گھبرائیں؟۔۔۔۔محمد بلال غفور

ہمارا زمانہء طالب علمی تھا اور یونیورسٹی کا پہلا سال تھا 30 اکتوبر 2011 کی بات ہے۔ جب پنجاب کے دِل   لاہور میں مینار پاکستان کے مقام پر چئیر مین تحریک انصاف عمران خان صاحب کی ایک کال پر جیسے پورے لاہور نے لبیک کہا ہو۔ پورے پنجاب سے بلکہ پورے پاکستان سے عوام کا ایک جم غفیر تھا۔ رات کے وقت چاند کی چاندنی اور مصنوعی روشنیوں کی وجہ سے منظر اور دلکش ہو گیا تھا پارٹی ترانے بج رہے تھے، اور میلے سا سماں لگ رہا تھا۔ ان روشنیوں کے بیچ امید کی نئی  کرنیں نظر آ رہی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ، چھ لاکھ کے قریب عوام اِس تاریخی جلسے میں شریک ہوئی تھی۔

اِس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ  جس طرح ہمارے میڈیا نے اِس کو کوریج دی تھی تو دکھوں، مصیبتوں، بے روزگاری اور مہنگائی سے گھبرائی یہ عوام اور زرداری کے دور سے اکتائے ہوئے لوگوں میں حالات کی بہتری اور روشن مستقبل کی ایک نئی امید جاگی۔ اور ہم جو سیاست کو سرے سے ہی نہیں جانتے تھے، عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کے پکے ووٹر اور سپورٹر بن گئے۔ اور ایسے سپورٹر بنے کہ پھر کلاس روم ہو، لائبریری ہو، دوستوں کی محفل ہو یا کوئی بھی جگہ ہو ہر جگہ عمران خان صاحب کی اچھائی اور بڑائی کے گن گانے لگ گئے۔ اور ان سے ایک طاقتور اور کامیاب ریاست کی امیدیں باندھ لیں۔

اِس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ  جس طرح کی اپوزیشن عمران خان صاحب اور تحریک انصاف نے کی ہے، پچھلے پچیس تیس سالوں میں شاید  کوئی نہ  کر سکا ہوگا، مگر سوال یہ ہے کہ ہماری عوام، جو دو وقت کی روٹی کے لیے مارے مارے پھرتی ہے، جو مہنگائی کی وجہ سے پس رہی ہے، جن کے  رہنے کے لیے چار دیواری اور سر ڈھانپنے کے لیے چھت نہیں ہے۔ ان کو اِس سے کیا حاصل ہو گا کہ نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہے، وہ نا اہل ہو گئے ہَیں، پاناما لیکس کیس پر ان کو جیل ہو گئی ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نا اہل ہو گئے ہَیں، وزیر اطلاعات پرویز رشید کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ، یہ لولی پاپ اِس عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان تو نہیں دے سکتا، مگر ہاں آپ کو حکومت ضرور دے سکتا ہے۔

چلو غیر جس طرح بھی کر کرا کے بائیس، تئیس سالوں کی انتھک محنت کے بعد  آپ وزیر اعظم پاکستان منتخب ہو گئے، مگر آپ نے ایسی عوام جن کو انصاف نہیں ملتا، روزگار نہیں ملتا، غربت ہے، بیماری ہے، پینے کو صاف پانی نہیں ملتا، سرکاری دفا تر میں کام کے لیے سفارش ڈھونڈنی پڑتی ہے، بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتا، ایک اندازے کے مطابق تقریباًپندرہ ملین بچے سرے سے ہی سکول نہیں جاتے، کتنے ہی بچے ہیں جو مناسب خوراک کی کمی کے باعث اپنے پورے قد پر نہیں پہنچ پاتے، کتنی ہی ماؤں کے جگر گوشے جوملک میں روزگار نہ  ہونے کے باعث دوسرے ممالک میں جانوروں کی طرح مزدوری کر رہے ہَیں اور اپنے پیاروں سے دور عیدیں گزارنے پر مجبور ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین  تین مریض ہَیں، پولیس کا نظام جو غریب اور کمزور کو انصاف نہیں دیتا، عدالتوں میں کئی کئی سالوں سے کیس چل رہے، ان سب چیزوں کو بہتر کرنے کے بے شمار وعدے کیے گئے، مگر۔۔۔

اِس کے علاوہ آپ کی حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگا دیئے، بجلی مہنگی کر دی، پیٹرول مہنگا کر دیا، ڈیزل اور باقی آئل مہنگے کر دیئے، سگریٹ مہنگی کر دی، گھریلو اشیاء چینی مہنگی کردی، گھی مہنگا کر دیا، دالیں مہنگی کر دیں، چاول ، مرچیں  مہنگی کردیں ،موبائل کمپنیوں کے بیلنس پر پھر سے ٹیکس لگا دیئے غرض یہ کہ ہر چیز غریب کی پہنچ سے اور دور کردی،محترم وزیر اعظم صاحب آپ نے ان سب کو بہتر کرنے کے ان گنت وعدے کیے جگہ جگہ جلسوں میں اور دھرنوں میں قسمیں کھائیں اور عوام کو اعتماد میں لیا مگرحالات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جارہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات ٹھیک ہے کہ ابھی آپ کی حکومت کو اقتدار میں آئے دس ، گیارہ ماہ ہوئے ہیں، مگر آپ نے اِس معصوم، سیدھی سادھی اور بھولی بھالی عوام سے جو وعدے کیے ان کو پورا کرنا تو دور اس کے لیے ابھی تک صحیح  سمت کا  بھی تعین نہیں کر سکے۔ اپنے ارد گرد نا اہل وزیروں کا ٹولہ اکھٹا کر لیا ہے جو آپ کی بچی کھچی ساخت کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہے، محترم وزیراعظم صاحب ڈریں، ڈریں اس وقت سے جب عوام کا اعتبار اگر آپ پر سے بھی اٹھ گیا اور کسی بھی اور شخص کو اپنا مسیحا ماننے کو تیار  نہ  ہوئے تو اس کے ذمہ دار محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ ہوں گے ہاں! صرف اور صرف آپ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply