سرورِ کائناتﷺ اور غیر مسلم شعرا و مفکرین۔اسماء مغل

’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ‘‘ ﴿صحیح بخاری ﴾

آپ ﷺ کی محبت ایمان کی لازمی شرط ہے اور یہ شرط خود نبی کریم ﷺ  نے بیان فرمائی ہے کہ آپ ﷺ  کی محبت جب تک ہر دوسری محبت پر غالب نہ آ جائے اس وقت تک دعویٰ  ایمان معتبر نہیں ہوتا۔
’’ عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے تشریف لا رہے تھے، حضرت عمر(رض) نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! مجھے آپ میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریمﷺ  نے فرمایا : نہیں اے عمر! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،جب  تک میں تمھیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ﴿محبت کامل نہیں ہو سکتی ﴾۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اب تو آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ حضور اکرمﷺ  نے فرمایا: ہاں اب اے عمر ‘‘ (یعنی اب ٹھیک ہے)﴿ صحیح بخاری ﴾۔

الآن یا عمر۔۔۔ہاں اے عمر ،اب، یعنی بات اب پوری ہوئی۔ محبت اب کامل ہوئی، عشق اب سچا ہوا اور ایمان اب پورا ہوا۔ جب یہ بات دل میں آ گئی کہ کوئی رشتہ، کوئی تعلق ، کوئی رغبت، کوئی چاہت آقا ﷺ کی محبت سے بڑھ کر نہیں رہی۔بات اختیاری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ یہ مقام حاصل نہ ہونے تک خطرہ ہی خطرہ ہے۔

یہاں تک تو مسلمانوں کی بات تھی۔۔آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت العالمین ﷺ بنا کر بھیجا گیا، اس لیے آپ ﷺ کی محبت کسی ایک کے لیے مخصوص نہیں ،آپ مسلم غیر مسلم سب کے لیے رحمت ہیں ،سب کے لیے برکت ہیں ،ادب میں مسلم و غیر مسلم دونوں نے آپ ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کی ہے،اور آپ کے محاسن نعت اور نثر کے ذریعے بیان کیے ہیں ۔

عصر  قدیم و جدید میں ہمیں متعدد ایسے غیر مسلم شعراء ملتے ہیں جنہوں نے اس میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔انہوں نے آپﷺ  کی پرکشش ذاتِ مبارک اور آپ کا دنیا پر بلا تفریق قوم و ملت کے احسانات سے متاثر ہو کر ان شعراء نے آپ کو نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ غیر مسلم شعراء نے اردو شاعری کے ہر دور اور ہر موڑ پر جو کچھ کہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان شعراء نے رسول اکرم حضرت محمد ﷺ سے اپنی والہانہ وابستگی اور پر خلوص عقیدت کو ایسے اشعار میں پرویا ہے کہ جنہیں کبھی بھی  فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

عصر جدید میں پہلے غیر مسلم اہم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقی(1890) ہیں۔انہوں نے اردو و فارسی دونوں زبان میں اشعار کہے۔
جیتے جی روضہ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا
روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہو گی
نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے
کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی (محمد دین فوق،اذان بتکدہ ص 33-35)

مہاراجہ سرکشن پرشاد!

پہلے معروف ہندو نعت نگار تھے ،ان کا کلام پڑھ کر یہ  معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ آیا نعت کسی مسلم نے لکھی ہے یا غیر مسلم نے۔

کافر ہوں کہ مومن ہوں خدا جانے میں کیا ہوں
پر بندہ ہوں اس کا جو ہے سلطانِ مدینہ!

مدینہ کو چلو دربار دیکھو
رسول اللہ کی سرکار دیکھو!(کشن پرشاد شاد،ہدیہ شادص 92)

دلو رام کوثری!

آپ   نے نعت گوئی میں بہت  شہرت پائی۔برصغیر کے مشہور صوفی پیر جماعت علی شاہ نے آپ کی شاعری سے متاثر ہوکر آپ کو ’حسان الہند‘ کا لقب دیا تھا۔آپ  نے نبی کریمﷺ  کی محبت وشفقت اور حلم و درگزر  کو اپنی نعتوں کا موضوع بنایا۔

کچھ عشق محمد میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلب گارِ محمد(محمد دین فوق،اذان بتکدہ ص24)

عرش ملیسانی!

عرش  صاحب ِدیوان نعت گو شعرا میں سے ہیں۔آپ کے مجموعہ  کا نام’ آہنگ حجاز‘ ہے۔آپ کی شاعری میں نبی ﷺ کی ذات سے عقیدت و محبت ،دلی تڑپ اور خلوص کی چاہت پائی جاتی ہے۔

تیرے عمل کے درس سے گرم ہے خونِ ہر بشر
حسن نمود زندگی، رنگ رخ حیات نو(عرش ملیسانی،آہنگِ حجاز ص۶)

دیگرہندو نعت گو شعراءکرام میں منشی بالا سہائے متصدی،پنڈت شیو ناتھ ، منشی للتا پرشاد شاد،پربھو دیال رقم، پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی ، شیو پرشاد وہبی لکھنوی،منشی درگا سہائے سرور جہان آبادی ، مہر لال سونی ضیا،چاند بہاری لال ماتھر صبا، جگن ناتھ آزاد، کنور مہندر سنگھ بیدی،منشی روپ چند، پیارے لال رونق، چندی پرشاد شیدا، مہاراج بہادر برق،منشی لچھمی نرائن سخا،تربھون شنکر عارف، پنڈت ہری چند اختر،پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی، علامہ تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، تلوک چندر محروم، گوپی ناتھ امن، پنڈت نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی اور چند ر بھان خیال جیسے شعراءکے نام آتے ہیں۔

قارئین کرام! رسول رحمت کی عظمت و رفعت اظہار نہ صرف مسلم مفکرین کرتے رہے ہیں بلکہ غیر مسلم مفکرین کی کثیر تعداد بھی وقتاً فوقتاً اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔یہاں چند   غیر مسلم مفکرین کے اقوال درج کررہی ہوں  ،  اللہ تعالیٰ ہمیں مقام مصطفیٰ ﷺ کی معرفت اور محبت مصطفیٰﷺ  کےلئے اپنا کردار ادا کرنے اور ان کی مکمل اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مائیکل ایچ ہارٹ!

A Ranking  of  the  most  Influential  Persons  in History

میں نے محمدؑ  کو پہلی پوزیشن(اہمیت)دیتے ہوئے سب سے اہم اور متاثر کن شخصیت قرار دیا ہے۔ ہارٹ لکھتے ہیں:- ’’کچھ قارئین کے لئے محمدؑ کا دنیا کے سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے شخص کی حیثیت سے انتخاب تعجب کا باعث ہو گا اور ہو سکتا ہے دوسرے بھی ایسا سوال کریں لیکن تاریخ میں صرف وہی ایک ایسی کامیاب ترین شخصیت ہے جس نے مذہبی اور دنیاوی امور (Religious and Secular) میں دونوں سطحوں پر نہایت اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔‘‘

سینٹ پال !

سینٹ  نظریہء  عیسائیت کے بانی اور اس کے بنیادی مبلغ بھی ہیں ،ان کے مطابق،

’’محمدؑ  نے نظریۂ اسلام اور اس کے آداب و اخلاقی اصولوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ میں نئی روح پھونکنے اور اپنے عمل کے ذریعہ دین قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔‘‘

الفانسو ڈی لامارٹن!

’’مقصد کی عظمت، اختصار کا مطلب اور ششدر (حیران)کردینے والے نتائج کسی شخص کو غیر معمولی ذہین ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ محمد  ؑ سے تاریخ کے کسی عظیم انسان کا موازنہ کرنے کی کون جرأت کرسکتا ہے؟‘‘ فلاسفر، خطیب، پیغمبر، قانون ساز، خیالات کو تسخیر کرنے والے فاتح، عقلیت پر مبنی عقائد کو بحال کرنے والے بیسوں دنیاوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے بانی محمدؑ  ہیں جو کسی انسان کی عظمت کی پیمائش کے معیار پر تمام ادب و لحاظ کے ساتھ پورے اترتے ہیں۔ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا یہاں کوئی شخص ان کی طرح عظیم ہوسکتا ہے؟

تھامس کارلائل!

’’مغر بی بہتان تراشوں نے جوش میں آ کر اس شخصیت  (محمد) کے گرد جھوٹ کا انبار لگا دیا ہے جو ان کے اپنے لیے غیر پروقار ہے۔ ایک خاموش عظیم روح جس کی طرح کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، اس نے سنجیدگی سے اپنے فرمان کے ذریعے  دنیا میں روشنی کرکے دنیا جگمگادی۔‘‘

 ڈی لیسی اولیری!

’’یہ روایت کہ تشدد پسند مسلمانوں نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلایا اور نسلوں کوفتح کیا،ایک انتہائی ناقابل یقین احمقانہ خیالی کہانی ہے جو تاریخ نویسوں نے بار بار دہرائی ہے۔‘‘

گبون!

’’محمدؑ کی اچھی حس شاہی خاندان کے افراد کی شان وشوکت کو حقیر سمجھتی تھی۔ وہ اپنے گھر کے تمام کام خود کرلیتے تھے۔ آگ روشن کرنا، فرش صاف کرنا، بھیڑ بکری کا دودھ دوہنا اور اپنے کپڑے اور جوتے کی مرمت کرنے جیسے کم تر کام اپنے ہاتھوں سے کرنے میں بھی اللہ   کے پیغمبر نے کبھی عار نہیں سمجھااور انہوں نے کافر اور تارک الدنیا (دنیا سے بے رغبتی)کے اعزاز کو لائق توجہ نہ سمجھا۔

سرجاج برنارڈ شا!

’’اگر انگلینڈ اور پورے یورپ میں حکمرانی کے لیے اگلے سو سال کے لیے کسی مذہب کا انتخاب کیا جائے تو وہ اسلام ہوگا۔‘‘

آکسفورڈ عالم !

محمدﷺ  کے سوانح نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس کا ختم ہونا ناممکن ہے لیکن ان  کے سوانح نگاروں میں جگہ پانا قابل فخر چیز ہے ۔

سٹری کونٹ ہنری !

عقل حیران ہے کہ قرآن حکیم جیسا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکر ادا ہوا جو بالکل اُمی تھا ۔ تمام مشرق نے اقرار کر لیا ہے کہ نوع انسانی لفظ و معنی ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ۔

پادری دال ریلین بی ڈی !

مسلمانوں کا مذہب جو قرآن کا مذہب ہے ایک امن اور سلامتی کا مذہب ہے

واشنگٹن ارونک !

محمدﷺ  عظیم سپہ سالار اور شجاع تھے اس کے باوجود آپﷺ  کا مشن اپنے دین کو فروغ دینا تھا ، جب آپﷺ  حکمران بنے تو آپ ﷺ  نے اپنے عزیزوں کو دوسروں پر ترجیح نہیں دی بلکہ آپﷺ  تو دین الٰہی کی بالادستی چاہتے تھے ۔

جرنیل نپولین بوناپارٹ!

فرانس کے عظیم جرنیل نپولین بونا پارٹ نے رسول کریمﷺ  کی ذات کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

محمد ﷺ دراصل اصل سالارِ اعظم تھے ۔ آپ نے اہلِ عرب کو درسِ اتحاد دیا۔ ان کے آپس کے تنازعات ومناقشات ختم کیے ۔ تھوڑ ی ہی مدت میں آپ کی امت نے نصف دنیا کو فتح کر لیا۔15  سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کر لی ۔ مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں ، بت خانوں میں رکھی ہوئی مورتیوں کو توڑ دیا گیا۔ حیرت انگیز کارنامہ تھا، رسول معظم ﷺ کی تعلیم کا کہ یہ سب کچھ صرف پندرہ ہی سال کے عرصے میں ہو گیا۔ جبکہ سیدنا موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام پندرہ سوسال میں اپنے  امتیوں کو صحیح راہ پر لانے میں کامیاب نہ ہوئے تھے ۔ سیدنا محمد ﷺ عظیم انسان تھے ۔ جب آپ دنیا میں تشریف لائے اس وقت اہل عرب صدیوں سے خانہ جنگی میں مبتلا تھے ۔ دنیا کی اسٹیج پر دیگر قوموں نے جو عظمت وشہرت حاصل کی اس قوم نے بھی اس طرح ابتلاء ومصائب کے دور سے گزر کر عظمت حاصل کی اور اس نے اپنی روح اور نفس کو تمام آلائشوں سے پاک کر کے تقدس وپاکیزگی کا جوہر حاصل کیا۔

سرولیم میود!

ہمیں بلا تکلف اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ تعلیم نبوی ﷺ نے ان تاریک توہمات کو ہمیشہ کے لیے  جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکال دیا جو صدیوں سے اس ملک پر چھائے ہوئے تھے ، بت پرستی نابود ہوگئی ، توحید اور اللہ کی بے پناہ رحمت کا تصور محمد ﷺ کے متبعین کے دلوں میں گہرائیوں اور زندگی کے اعمال  میں جاگزیں ہوگیا ، معاشرتی اصلاحات کی بھی کوئی کمی نہ رہی ۔ ایمان کے دائرہ میں برادرانہ محبت ، یتیموں کی پرورش ، غلاموں سے احسان ومروت جیسے جوہر نمودار ہوگئے امتناع شراب میں جو کامیابی اسلام نے حاصل کی اور کسی مذہب کو نصیب نہیں ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین کرام! جب کافر  بھی اپنی زبان سےآپ ﷺ کی شان بیان کرنے پر مجبور ہوجائیں تو  معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے یقیناً  انسانیت کے اوپر بڑ ا احسان فرمایا ہے اور نبی ا کرمﷺ کی ذات کو ایک ایسی فضیلت حاصل ہے جو کسی دوسری ہستی کو حاصل نہیں ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم محبوب ربِّ کریم کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل کریں تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکیں ۔ان شا اللہ! لاکھوں کروڑوں درود و سلام اس نبیء برحق ؑ،شافع محشر،رحمت اللعالمین  حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply