سقراط۔۔آغر ندیم سحر

سقراط(469ق م تا399ق م)ایتھنز کی سرزمین کا سب سے بڑا آدمی تھا۔اس نے زندگی کو جتنے قریب سے دیکھا اور زندگی اور موت کے بارے میں جو سوالات اٹھائے‘ان سوالوں نے اسے ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔وہ جسمانی طور پر کوئی پُرکشش شخص تو نہیں تھا لیکن اس کی تقاریر اور لیکچرز نے ایتھنز کی سوچ اور جغرافیہ بدلنے میں بنیاددی کردار ادا کیا۔ وہ بولتا زیادہ اور کام کم کرتا تھااور شاید یہی اس کا خاصہ تھا جس نے اسے سب سے منفرد بنایا۔اس کو زمانہ قدیم کا سب سے نامور فلاسفر مانا جاتا ہے۔ایتھنز نے اس سے قبل کوئی اس جیسا انسان پیدا نہیں کیا‘اس کا نام تاریخ میں ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جا تا رہے گا۔سقراط کے دوستوں اور شاگردوں کی تحریروں نے اسے زندہ و جاوید کر دیا جن میں اقلیدس‘افلاطون اور زینی فون نمایاں ہیں۔

اس کی گفتگو‘اس کی سچائی اور اس کے دلائل کے بارے میں سوالات اور زندگی اور موت کے بارے میں رویہ‘اس کی عظمت ان سب باتوں کو افلاطون دہراتا ہے۔اگرچہ سقراط نے یہ سب باتیں ایک مخصوص حلقے میں کیں لیکن ان کی گونج زمانے نے سنی اور محسوس کی۔سقراط ایتھنز کے سنہری دور میں زندہ رہا جب ایتھنز یونان کی طاقتور ریاست تھا۔اس سے قبل اس ریاست میں فن اور تجارت سمیت دیگر شعبوں میں کوئی قابلِ قدر کام نہیں کیا تھا۔سقراط کا والد نقاش اور والدہ دایہ تھی۔سقراط نے والدہ کا پیشہ جدلیاتی طور پر اپنایا یعنی وہ خود کو خیالات کا دایہ کہتا تھا۔سقراط ایک بہترین مقرر تھا اور اس کی زندگی کا زیادہ حصہ گلیوں‘بازاروں اور چوراہوں میں تقاریر کرتے گزرا اور یہ تقاریر ہی اس کی موت کا سبب بنی۔وہ بڑے بڑے اجتماعات بناتا اور لوگ اس سے طرح طرح کے سوالات کرتے جس سے وہ خوش ہوتا۔اس کے بارے میں اس کے شاگردوں کا کہنا تھا کہ جیسے اس نے زندگی گزاری اگر کسی غلام کو بھی گزارنی پڑھتی تو وہ بھاگ جاتا مگر سقراط شاید ہی کبھی ایتھنز کے دروازوں سے باہر گیا ہو۔

404ق م کی دہشت ناکی کے ذریعے جب ایتھنز کی شہنشاہت کا خاتمہ ہوا تو اس کے حکمران نے   تیس لوگوں کی غیر قانونی گرفتاریاں عمل میں لانے کا کہا ،جس کا سقراط سے صاف انکار کر دیااگرچہ وہ جانتا تھا اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔درحقیقت وہ عوام کے اشتعال سے بچنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے کوئی بھی غیر قانونی کام کرنے سے انکار کر دیا۔اس کے مقدمے اور موت میں یہی واقعی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔گھنٹوں سوچوں میں گم رہنے والا انسان کوئی بڑا کارنامہ کر جائے گا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا تا تھا۔

ارسطو نے اپنے ایک کھیل میں اس کا مذاق بھی اڑایا جس میں ارسطو نے سقراط کو آدھا خبطی انسان بنا کر پیش کیا۔جس کے پاس سوچوں کی آما جگاہ تو ہے مگر کرنے کو کچھ نہیں۔ارسطو کا خیال تھا کہ سقراط نوجوانوں کو بہت زیادہ خبط اور غیر توقیری تصورات سکھاتا ہے۔ارسطو کے مذاق کے باوجود ایتھنز کی محبت میں کمی نہیں آئی اور سقراط کا حلقہ احباب بڑھتا ہی گیا۔اس نے دو شادیاں کی اور دونوں ناکام ہو گئیں کیونکہ سقراط باتوں کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

399ق م میں 70سال کی عمر میں سقراط کے دشمن غالب آ گئے اور سقراط پر مقدمہ چلا اور اس پر بنیادی لحاظ سے دو الزامات لگائے گئے۔پہلا یہ کہ وہ عوامی دیوتاؤں کی تحقیر کرتا ہے اور ان کے احکامات کو نہیں مانتا اور دوسرا الزام یہ تھا کہ سقراط ایتھنز کے نوجوانوں کو بگاڑ رہا ہے۔مقدمے کے دوران ایتھنز کے عظیم فلاسفر لیسیا نے سقراط کے دفاع کے لیے ایک تقریر بھی کی تھی جس پر سقراط نے اسے روک دیا،وہ کہتاتھا کہ میں خود اپنے دفاع کی اہلیت رکھتا ہوں۔اس نے عدالت میں ججوں سے کہا کہ”اگر آپ کا خیال ہے کہ میں سچائی کی تلاش ترک کر دوں گا تو میرا جواب یہ ہے کہ اے ایتھنز والو!میری طرف سے شکریہ مگر میں اللہ تعالیٰ کی تابعداری کروں گا جس نے بقول میرے مجھے سچائی کے لیے چن لیا ہے اور جب تک سانس اور قوت باقی ہے‘میں اس فلسفے سے دست بردار نہیں ہوں گا۔میں اپنی تبلیغ جاری رکھوں گا‘میں نہیں جانتا موت کیا ہے‘ہو سکتا ہے موت ایک اچھی شے ہو جسے میں ایک بری شے سمجھتا ہوں اور نہ ہی میں اس سے خوف زدہ ہوں مگر میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ کسی کو اس کے فرائض سے روکنا برا رویہ ہے۔یہ بھی ممکن ہے جسے میں برا سمجھتا ہوں وہ ایک اچھی شے ہو“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پر ایک چھوٹی سی جماعت نے الزام لگایا اور ایتھنز کے قوانین کے مطابق اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ اسے جرمانے کی سزا یا پھر وطن بدر کر دیا جائے۔سقراط نے خود کہا مجھے وہ سزا دی جائے جس میں عوام کا مفاد شامل ہو۔سقراط کے ایک شاگرد نے جرمانے کا انتظام بھی کیا لیکن سقراط نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ تقریر میں عدالت کا مذاق بنایا جس پر عدالتی حکام مزید برہم ہو گئے۔اب عدالت کو غصہ آ گیا اور سقراط کو ایتھنز کی سب سے بڑی سزا زہر پینے کی سزا سنا دی۔اس نے یہ سزا بھی خوشی سے تسلیم کر لی۔اس نے ججز سے کہا کہ اب میرا وقت جانے کا آ گیا ہے تاکہ تم لوگ زندہ رہ سکو۔سقراط کو زنجیروں یں جکڑ کر تین ہفتوں کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔اس دوران بھی سقراط نے دوستوں اور شاگردوں سے انتہائی پرسکون انداز میں ملاقاتیں جاری رکھیں اور انہیں ہمیشہ پر سکون رہنے کا مشورہ دیا۔آخری دن جب اس کی بیوی تھیپی اور اس کا چھوٹا بیتا اسے ملنے آئے تو سقراط بہت دیر ان کو گلے سے کگا کے روتا رہا اور بعد میں قراطو سے کہا کہ انہیں گھر چھوڑ آئے تاکہ وہ اس کی موت کا منظر نہ دیکھ سکیں۔قراطو نے سقراط کو جیل سے بھگانے کا بھی انتظام کیا مگر سقراط نے کہا کہ اسے ریاست کے قانونی ادارے نے سزا دی ہے اور اس پر ریاست کے قوانین کا احترام لازم ہے۔آخری وقت میں وہ بستر سے اٹھا‘پاؤں پہ بندھی زنجیر کو ہاتھ سے ہلایا اور اس درد کو محسوس کرنے لگا جو اسے بنا کسی جرم کے دیا گیا۔اس کے ارد گرد بیٹھے شاگردوں اور دوستوں نے سقراط سے زندگی‘موت اور انسان کی لافانی حیثیت کے بارے سوال و جواب شروع کر دیا جن کا سقراط نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔سقراط اٹھا‘غسل کرنے گیا‘واپس آ یا تو سورج غروب ہو رہا تھا اور یہی وقت پھانسی کے لیے متعین تھا۔ایک انکوائری آفیسر اندر آیا‘سقراط سے اپنے سخت رویے پر معافی اور روتے ہوئے اسے الوداع کہا۔اگرچہ آخری وقت میں بھی اس کے شاگرد قراطو نے سقراط کو زہر کا پیالہ پینے سے روکا مگر سقراط نے یہ تاریخی جملے کہتے ہوئے موت کو سینے سے لگا لیا کہ”ہمیشگی کی زندگی کے لیے مرنا برحق ہے لہٰذا میں اس موت کو محسوس کرنا چاہتا ہوں“۔یہ کہتے ہوئے اس نے موت کا پیالہ پیا اور یوں سچے اخلاقی فلسفے کا بانی (جس کا گندے ما بعد اطبیعاتی فلسفے سے کوئی تعلق نہ تھا)سقراط ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ اس کے شاگرد افلاطون نے سقراط کے آخری تین سب سے اہم لیکچرزاپالوجی‘کریٹو اور فیڈوکو اپنی کتاب مکالماتِ افلاطون میں یکجا کر دیا تاکہ سقراط کے نظریات آنے والی نسلوں تک منتقل ہو سکیں اور سقراط کو ہمیشہ پڑھا اور سمجھا جاتا رہے۔انشاء اللہ اگلے کالم میں مکالماتِ افلاطون کے ان تین لیکچرز پر گفتگو کروں گاجو تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔

Facebook Comments