فطرت منطقی تجزیے کو ناپسند کرتی ہے ۔کیونکہ منطقی تجزیہ فطرت کی نامیاتی وحدت کو توڑ دیتا ہے۔ منطقی قضایا دراصل ایک شئے بیان کی خاطر کئی اشیاء میں تقسم کردیتا ہے۔ موضوع اور معروض خود کے شعور دو mode ہیں ۔حیوانات کو یہ نہیں ملے ۔انسان کو ملے تاکہ اپنی بقا کا سامان بہتر ہوسکے۔۔۔
فطرت ساخت structure اور فعلیت functions کا مرکب ہے۔
no function is without structure
no structure is without function.
کائنات کا ارتقا ۔۔اس کی غایت سے کسی منزل کی طرف لیے جارہا ہے۔۔
فزکس میں غایت کم نظر آتی ہے ، بیالوجی میں یہ اس سے متحرک ہے پھر انسانی دنیا psychology میں یہ شعور اور بھی نمایاں ہے۔
تتلیوں کو رنگ ملنا۔۔۔پرندون کا گھونسلے بنانا ۔۔انسانوں کو تخیل دینا ۔۔۔حیوانات میں dating اور mating کا شیڈول تیار کرنا ۔ یہ سب کس کے اشارے پر ہورہا ہے۔
ہم فطرت کا حصہ ہیں ہم ذی شعور ہیں ۔جزو میں وہ آتا ہے جو کُل میں ہو ۔۔
یہ ہمارا وحشیانہ انداز ہے کہ اپنی منطقی نرگسیت میں کہہ دیتے ہیں۔ ۔فطرت ذی شعور نہیں ۔ keath moreایک سر جن کہتا ہے کہ ہم صرف زخم میں جراثیم کا راستہ روکتے ہیں باقی فطرت اپنا دفاع خود کرتی ہے ۔ جراثیم بھی فطرت کے فائدے کیلئے بنائے گئے ہیں ۔ جو اپنا فائدہ جانتی ہے وہ ذی شعور کیسے نہیں؟
سطحی مادہ پرست سے پوچھیں تو وہ زیادہ سے زیادہ اسے قوانین کہے گا ۔ لیکن قوانین کی intime applicationفطرت کو ذی شعور ثابت کرتی ہے۔ اور فطرت بہتر سے بہترین کی طرف گامزن ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں