مکالمہ کانفرنس ،، چیدہ چیدہ نکات

مکالمہ کانفرنس ،، چیدہ چیدہ نکات
اشفاق احمد
کانفرنس کا افتتاح جناب ژان سارتر Jean Sartreنے نہایت دل چسپ شرائط وضوابط بیان کر کے کیا۔ تلاوت کے بعد تقریروں کا آغاز ڈاکٹر شہباز منج Muhammad Shahbaz Manjصاحب کے خطاب سے ہوا،ڈاکٹر صاحب نے منافرت کے خاتمے میں مکالمے کے کردار پر مثالوں سے اچھے انداز میں روشنی ڈالی ۔ استاد محترم مفتی محمد زاہد Muhammad Zahid صاحب نے مکالمہ کی ضرورت ، فوائد اور طریق کار پر قرآن وسنت کی روشنی میں بہت پراثر اور شان دار گفتگو کی۔ مفتی صاحب کے مطابق قرآن نے صرف مکالمے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ اس کا طریق کار بھی بتایا۔ جس میں اس بات کی بھی تاکید کی کہ جب مخالف نقطہ نظر والے جو کہ آپ کے ہم مذہب بھی نہ ہوں ان سے مکالمہ کرو تو خوب سوچ سمجھ کر بات کرنے کے جتنے اچھے اسالیب ہوسکتے ہیں ان میں سے سب سے اچھا اسلوب اختیار کرو (یہ تو غیر مذہب کے بارے میں ہدایت ہے اپنے ہی ہم مذہبوں سے مکالمہ کرتے ہوئے کس قدر مثبت اور اچھے رویے کی ضرورت ہوگی اس کا خود ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے) ۔مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ قرآن نے تو جھگڑوں میں بھی مکالمے کا حکم دیا ہے کہ میاں بیوی کی ٹھن گئی ہے تو دونوں کے خاندان سے ایک ایک بندہ لے کر میاں بیوی سے مکالمہ کرکے ان کے گلے شکوے دور کرکے تعلقات معمول پر لائے جائیں۔ خالد محمود صاحب اور بلال قطب صاحب نے عمدہ نکات اٹھائے ۔ بلال قطب صاحب نےاپنے نفس کے ساتھ مکالمہ کرنے کی اہمیت پر روشی ڈالی اور اسے کئی معاشرتی خرابیوں کا علاج قرار دیا ۔اس سیشن کے آخر میں عامر خاکوانی صاحب نے اختتامی کلمات کہے اور یہ اہم نکتہ اٹھایا کہ سوال کی حرمت کا سوال وہاں ہونا چاہیے جہاں موجودہ دور کے ایشوز ہوں ؛ ستر کی دہائی میں جو باتیں طے ہوچکی ہیں ان کو ہی وقتا ًفوقتاً اٹھاتے رہنا کوئی خدمت نہیں ۔ مجموعی طور پر ان کی گفتگو عمدہ اور مربوط تھی۔
دوسرے سیشن کا آغاز استاد محترم ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی Tufail Hashmiصاحب کے انٹرویو سے ہوا۔ شدت پسندی کے خاتمے سے متعلق سوال کے جواب میں مذہبی شدت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا جو اس کے بانی ہیں وہ جب چاہیں ختم کرسکتے ہیں اصل کنٹرول کہیں اور ہے؛ رویوں میں شدت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا اس کے لیے تربیت کی ضرورت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص استاد بن کر تربیت کے منصب پر فائز ہوتا ہے وہ معاشرے کا وہ شخص ہوتا ہے جو کسی دوسرے میدان میں چلنے کا اہل نہیں ہوتا اور استادی کو آسان پیشہ سمجھ کر اختیار کرلیتا ہے۔ مساجد کے کردار کے حوالے سے ان کا جواب تھا کہ آپ ذہین اور اونچے گھرانوں کے لوگ دینی تعلیم کے لیے بھیجیں گے تو ہی کوئی جوہری فرق پڑے گا؛ اس کے ساتھ ساتھ مسجد کے امام کے معیار زندگی کے حوالے سے ہمیں اپنے رویے کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
کانفرنس کا سب سے دل چسپ اور خوشن کن مرحلہ لالہ عارف خٹک Arif Khattak کا انٹرویو تھا۔(لکھنے سے زیادہ سننے سے تعلق رکھتا ہے) سب خوتین وحضرات بہت محظوظ ہوئے۔ انعام رانا صاحب کا انٹرویو بھی بہت دل چسپ تھا۔ انعام رانا کی جتنی اچھی تحریر ہے اسی قدر تقریر بھی عمدہ ہے (انٹرویو میں ہونے والی باتیں وہ ہی ہیں جو آپ تین ماہ سے پڑھ رہے ہیں)۔ سیکس اور سماج کے مصنف کا انٹرویو ، جس میں انھوں نے خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی رویے کی یہ عجیب وغریب وجہ بتائی کہ ان کے ساتھ امتیازی برتاؤ لوگ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان میں زنانہ پن ہوتا ہے اور زنانیوں (خواتین) کو ہم لوگ کمزور اور دھتکارا ہوا سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ شادی کی پہلی رات سے ہی زیادتی شروع کردی جاتی ہے اور کوئی احترام نہیں دیا جاتا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس نظریے کو ہال میں موجود خواتین کی طرف سے بھی کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی ، میرے بائیں طرف بیٹھی خواتین کی طرف سے کئی تنقیدی آوازیں بلند ہوئیں لیکن شور کی وجہ سے ان تک شاید نہ پہنچ سکیں۔ وقاص خان اور ثاقب ملک نے بھی اچھی گفتگو کی۔حافظ صفوان Hafiz Safwanصاحب کے انٹرویو کا انتظار تھا لیکن ان کی قسمت اچھی کہ ٹائم نہ مل سکا۔کانفرنس کا اختتام بعض شرکا کی فرمائش پر “دادا جان کے نام خط” پر ہوا ،جسے خود انعام رانا نے سنایا اور ہر آنکھ نمناک ہوگئی۔۔
مجموعی طور پر کانفرنس بہت شان دار رہی ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply