پاکستان میں آزادیِ صحافت اور اظہارِ رائے پر لگنے والی قدغنوں کے باوجود کچھ ایسے لکھاری بھی ہیں جو ہر حال میں پڑھنے والوں تک حقائق پہنچا رہے ہیں۔ ایسے ہی بہادر لکھاریوں میں زاہدہ حنا کا نام سرِ فہرست ہے۔ اردو کالم نگاری میں آپ کے تخلیقی سفر کو تین دھائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران آپ نے اپنے قلم کی طاقت سے انگنت شاہکار کالم اور مضامین تحریر کیے، جن میں آپ نے حالاتِ حاضرہ، سیاست، سماج، انسانی حقوق اور جمہوریت کی بالادستی کو مقدم جانتے ہوئے آمرانہ رویوں اور آمروں کے خلاف کُھل کر لکھا، اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعے پڑھنے والوں میں تاریخی شعور بھی اُجاگر کیا ہے اور لاتعداد کالم تاریخ کی روشنی میں رقم کیے ہیں۔
کورونا وبا کے دوران ہم سب نے یہ مشاہدہ کیا کہ صحت کے شعبے کو نظرانداز کر کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع کے نام پر لگایا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ کئی دھائیوں سے یوں ہی چل رہا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انسان دشمن دفاعی بجٹ، میزائلوں اور بموں کے اس غیر انسانی و غیر اخلاقی کاروبار کے خلاف آپ نے بغیر کسی مصلحت پسندی کے کئی کالم اور مضامین لکھے جو آپ کی انسان دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جنگوں کے خلاف اور امن کی حمایت میں آپ کا قلم پڑھنے والوں کو امن کی اہمیت سے روشناس کروا رہا ہے اور انہیں یہ شعور بھی دے رہا ہے کہ جنگ صرف جنگ ہوتی ہے، جو ہر ایک کو یکساں نقصان پہنچاتی ہے، کوئی بھی اس کے قہر سے نہیں بچ پاتا، ان جنگوں میں مقّدس کچھ نہیں ہوتا، اگر مقدس کچھ ہوتا بھی ہے تو وہ “امن” ہے اور یہ “امن” ہی انسانیت کی بقاء کا ضامن ہے۔
امن کے موضوع پر اپنے کالموں کے مجموعے کی کتاب “اُمیدِ سحر کی بات سُنو” میں زاہدہ حنا نے امن پرستی کے جن گیتوں کو لفظوں کی صورت دی ہے وہ پڑھنے لائق ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک ایسی انمول کتاب ہے جس کو پڑھنے سے انسان کا ذہن جنگوں کی سفاکیت اور اس کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے سیاسی، سماجی و مذہبی نظریات کی حقیقت سے آشکار ہوتا ہے۔ انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو یا کسی بھی قومیت اور مُلک سے اس کا تعلق ہو ،وہ بنیادی طور پر امن پرست ہی ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر مسلط کردہ طاقتیں اسے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر جنگ کرنے کے لیے اکساتی ہیں۔ امن اور انسانیت کی دشمن یہ قوتیں انسانوں کو تقسیم کر کے پُرامن بستیوں میں جنگ کا ہولناک ماحول بناتی ہیں اور پھر ایسا لگنے لگتا ہے کہ “امن” ناممکن ہے، لیکن “امن” ممکن ہے اور یہی “امیدِ سحر کی بات سُنو” کا مرکزی موضوع بھی ہے۔
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کی مناسبت سے میں میڈم زاہدہ حنا کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ کٹھن و نامساعد حالات اور تاریک دور میں اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق لکھنا اور لکھتے چلے جانا کوئی زاہدہ حنا سے سیکھے۔۔۔ آزادیِ صحافت کا عالمی دن مبارک ہو۔
زاہدہ حنا کی صحافتی تحریریں مجھ سمیت کئی لکھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
آج جب میں ہم ہر گزرتے دن سینسر کے “جال” کو اپنے اردگرد پھیلتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس سے ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کے بجائے ہمارے اندر ایک طاقت پیدا ہوتی ہے جو ہمیں نڈر و بےخوف ہو کر مزید لکھنے کی طرف راغب کرتی ہے اور یہ طاقت صرف اور صرف میڈم زاہدہ حنا اور اور ان کی تحریروں کے ذریعے ہی ممکن ہو سکی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ زاہدہ حنا اور ان کی تحریریں ہماری رہنمائی کر رہی ہیں۔ اب آخر میں میڈم کے کالم سے ہی چند سطریں ملاحظہ کیجیے:
“سچ بولنے والے کی زبان اور اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں تب بھی وہ ہر زمین اور ہر موسم میں اپنی بہار دکھاتی ہیں۔
سچ موسموں کا محتاج نہیں، سدا بہار ہے”
جی ہاں سچ صدا بہار ہے اور ہمیشہ رہے گا۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں