یاسر حسین کے نام خط۔۔۔۔قراۃ العین

یاسر میاں!
تم نے یہ کیا کردیا۔ اف توبہ توبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کب سرِ عام مرد و عورت ایک دوسرے کو چوم سکتے ہیں۔ وہ بھی ایک بار نہیں تین بار۔ ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا ، بے حیائی ہے یہ تو، ہماری اقدار کے منافی ہے یہ حرکت۔ ہم کیا ہمارے اجداد نے کبھی ایسی جرات نہ  کی ،منگیتر کو ایسے پبلک میں چومنے کی۔ ہاں چوری چھپے ملنا ملانا فون پہ باتیں کرنا اور لاڈ کرنے کی اجازت ہے۔ مگر یہ کیا کہ ادھر لڑکی کو شادی کا کہا اور ادھر اس کے ہاں کرنے پر تم نے اسے چومنا شروع کردیا۔ ارے دیکھو یاسر میاں تم نے یہ کیا حرکت کی ہم عوامی جگہوں پہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں عورتوں کو نہیں چومتے۔ ہماری اخلاقیات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم تو بس ننگی گالیاں دیتے ہیں ایک دوسرے کی ماں بہنوں کو، بیویوں کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں جوان لڑکیوں کو گلی محلوں میں بیٹھ کے تاڑتے ہیں ان پہ بیہودہ فقرے کستے ہیں، غلیظ نظروں سے برقعے میں چھپا ہوا جسم تک ٹٹول لیتے ہیں۔

مگر یہ کیا کہ چومنے ہی بیٹھ جاؤ۔ ارے میاں ہم سے سیکھو ہم کیسے لوگوں سے نظریں بچا کے اپنے جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔ لوکل گاڑیوں میں اگر کوئی لڑکی سفر کر رہی ہو نا تو بریک لگتے ہی ہم اس صنفِ نازک کے گلے جا لگتے ہیں، اسی سے ہی ہم رام ہو جاتے ہیں مگر تم نے تو چوم کے بے حیائی کا عالمی ریکاڈ قائم کردیا ہے۔

کوئی لڑکی دکان پہ سودا سلف لینے آجائے تو تب بھی ہماری چاندی ہو جاتی ہے اور ہم سودا پکڑاتے ہوئے اس کی انگلیوں کو چھونے پہ ہی قناعت کر لیتے ہیں۔ ہماری اخلاقیات تو ہمیں صبر کا درس دیتی ہیں۔ ساری رات جانو مانو سے برہنہ تصویریں مانگتے گزر جاتی ہے اور پے درپے انکار پہ کوئی پورن فلم دیکھ کے سرد آہیں بھر کے سو جاتے ہیں۔ ہاں اگر حسرتِ شوق پوری ہو جائے اور قسمت مہرباں ہو تو صرف تصویروں سے ہی ہم کام چلا لیتے ہیں۔ ہم میں تو اتنی بیتابی نہیں  ہے، تم تو بہت ہی بیتاب ٹھہرے۔ ہماری اخلاقی اقدار تو صرف لڑکیوں کو بہلانے پھسلانے تک محدود ہیں ، شادی کے جھوٹے خواب دکھاؤ، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاؤ ، اُن کو لے کے گھومو پھرو، عیاشی کرو، چھچھوری حرکتیں کرو دوستوں میں بیٹھ کے اُن کا مذاق اڑاؤ اور مجبوریوں کا بہانہ بنا کے انہیں چھوڑ دو۔ اس طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ کے ہیرے کی انگوٹھی پیش کر کے شادی کا کہنا ہماری روایات نہیں ہیں ۔ یہ تو مغربی اقدار ہیں جو ہمارے اندر فروغ پا رہی ہیں۔ یہ گوروں کی سازش ہے ہمارے خلاف ہماری نوجوان نسل کو بہکا رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ سب بیہودگی پھیل رہی ہے اور ہم چپ بیٹھے رہیں، ہمارا ماضی تو شان دار ہے ہم بہت غیرت مند قوم ہیں۔ ہم تو پسند کی شادی کرنے والے لڑکے اور لڑکی کو غیرت کے نام پہ قتل کر دیتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لو کتنے ہی سنہری کارنامے ہیں جو ہمارے ہاتھوں رقم ہوئے ہیں۔ لڑکیوں کو ایسے کون چومتا ہے ، فرطِ جذبات اور محبت سے چومنا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ ہم تو صرف انہیں اغوا کر کے ویرانے میں لے جا کر انکے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور انہیں ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔ تم اندازہ لگاؤ ہماری فراخدلی کا کہ زیادتی کرتے ہوئے ہم عمر کی تفریق کو  ذہن میں لاتے ہی نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں تو فکر لاحق ہے کہ تمہاری اس غیر اخلاقی حرکت سے ہمارے تہذیب یافتہ جوان بچے کیا سبق سیکھیں گے۔ تم نے تو اخلاقیات کا اتنی دھوم دھام سے جنازہ نکال کے ہمارا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امید ہے تم اپنی اس غلطی کو دہرا کر ہمارے نا مراد جذبات کا مذاق نہیں اڑاؤ گے اور اپنے آباواجداد کی نظروں میں مزید شرمندہ نہیں کرو گے
فقط
تہذیب یافتہ قوم!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply