خوشیوں کے باغ اجڑنے کا غم ابھی تازہ تھا کہ ایک اور دل فِگار خبر آئی۔۔۔ جی کی اداسی اور بڑھی، لکھناپڑھنا تو تھا ہی اوڑھنا بچھونا مگر وہ خدائی خدمت گار بھی تھا کسی عوامی نمائندے کی طرح لوگ ان کے پاس عرضیاں لے کے جاتے تھے۔
اور یہ بات وہ بخوبی جانتے تھے کہ پنجاب کی افسر شاہی کتنی بےرحم اور بے لگام ہے، سو اپنی بساط بھر نشاط تقسیم کرتا رہتا کہ اصل کام انسانیت کی خدمت ہے، وہ اپنے قلم سے سرکشوں کی خبر گیری کرتا رہتا۔۔ دیہاتی ،سادہ، سانولا، سوہنا پنجابی پتر۔۔۔ ہر آتے جاتے کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرتا ۔اپنی برادری میں مقبول اور منقول ہوا اس کی صحافتی طرز کو اپنانے کی کوشش کی گئی۔
افسر شاہی اس کی بیٹ تھی ،جب اس نے افسر شاہی اور سیاسی شاہی کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا تو تخت لاہور میں ہلچل ہوئی۔۔۔
پھر رازی کی راز داریاں مشہور ہوئیں۔ جناب نواز شریف کی دو تہائی کی دھول دھواں دھواں پھیل چکی تھی ۔دکھائی دیتا تھا نہ سنائی دیتا تھا۔میں نے جنگ اخبار کے دفتر سے نمبر لیا، رازی صاحب سے بات کی اور ملاقات کی اجازت طلب کی ۔میں اگلے دن ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن ان کے گھر پہنچ گیا اپنے کمرے میں بیڈ پہ اخبار وں کا ڈھیر سامنے لیے بیٹھے تھے۔
ساری حیاتی آنکھیں ماتھے پہ نہ رکھیں مگر چشمہ ناک کی نوک پہ رکھتے ،تعارف ہوا۔۔ بولے دس کی کرنا ای؟۔۔ میں نے کہا مکالمہ!کہتے کس لیے؟ میں نے کہا کتاب کے لئے۔۔ ان کا خیال تھا نوجوان مشکل سوال شاید نہ کرے۔ ارشاد حقانی مرحوم کی طرح انہوں نے سوالنامہ نہ مانگا۔
بات شروع ہو گئی۔۔ وہ اس وقت جنگ کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن تھے۔
پوچھا۔۔ایتھے تک کیویں آئے او؟ چوہدری اوکھے پینڈے لنگھ کے آیاں واں جدوں لاہور آیا سی داتا دربار توں روٹی کھا کے ناصر باغ وچ سو جاندا ساں۔ ایس شہر وچ میرے میزبان داتا صاحب سن۔ اسی وجہ سے پھر انہوں نے لوگوں کی بہت میزبانی کی۔۔۔
صحافت میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ شارع فاطمہ سے روٹی کھا لیں اور ڈیوس روڈ پہ جا کر سو جائیں۔ یہاں کام کر کے بھی روٹی نہیں ملتی، روٹی نہ ملے تو کوئی سوئے گا کیسے؟
ان دنوں نیا نیا کالم شروع کیا تھا اور کچھ کالم نگار پھدکتے اور اتراتے تھے اپنے کالموں کی مقبولیت پر، آج کے اینکروں کی طرح ایک کا نام لے کر کہنے لگے وہ شوخا کہتا ہے میرے نام کی ڈاک کھوتا ریڑھی پہ آتی ہے۔
اس کے بعد جب ملے جہاں ملے پہلی سی محبت سے ملے، دل میں جگہ دینے والے رحمت علی رازی اللہ آپ کو اپنی رحمت میں جگہ دے۔ رازی صاحب آپ کے جانے سے دل بہت اداس ہے، ایک ایسی ریاست جہاں ادسیاں بال کھولے سو رہی ہیں اور کوئی پرسہ دینے والا نہیں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں