داستان زیست ۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط7

تعارف:

محمد خان چوہدری کا تعلق چکوال کے ، بجنگ آمد کے  مصنف کرنل محمدخان کے قبیلہ سے ہے، جن کی چھاپ تحریر پر نمایاں ہے، میجر ضمیر جعفری بھی اسی علاقے سے ہیں انکی شفقت بھی میسر رہی، فوج میں تو بھرتی نہ ہو سکے لیکن کامرس میں پوسٹ گریجوایشن کر کے پہلی ملازمت فوج کے رفاعی ادارے میں کی، پھر اِنکم ٹیکس کی وکالت کی، لیکن داستان نویسی میں چکوال کی ثقافت حاوی ہے، مکالمہ  پر  ان کی دو درجن کہانیاں چھپ چکیں ہیں  ، آج کل داستان زیست قسط وار بیان کر رہے ہیں۔

گزشتہ قسط:

بشیر کچن میں شاید اپنے لئے چائے بنا رہا تھا، ہم کھانا کھاتے اس کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ہو سکتا ہے یہ پہنچا ہوا بزرگ ہو، پھر سوچا ایک چُوہڑا کیسے درویش ہو سکتا ہے، بچپن سے جو سنتے آئے اسے دماغ سے نکالنا  آسان نہیں  تھا۔
باہر لان میں ٹہلنے لگے، بشیر کچن سمیٹ کے جانے لگا ، تو اسے روک لیا، کرسیاں منگوا کے ساتھ بٹھا لیا۔۔
اس سے کہا، کل کے لئے دعا کرو دفتر کے کام سارے آرام سے ہو جائیں ، اسلام آباد میں گھر کی دعا بھی کرنی ہے تم نے اور ہاں تمہاری لیڈی ڈاکٹر سے بھی شاید ملنا پڑے۔
وہ بولا اور کچھ ؟ ہم نے کہہ دیا آج مائی  رحمت سے بھی دعا کرانا، میرا سلام بھی کہنا، وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
کہنے لگا، صاحب آپ کے پاس کسی مجبور کا کام ہے جو آپ ہی سمجھ سکتے ہیں اور کرسکتے ہیں ، اسکی مدد کرنے کی کوشش کریں آپکے تو سب کام ہو جانے ہیں   اماں جتنی دعا آپکو اور کرنل صاحب کو دیتی ہے ، کسی اور کو نہیں دیتی ۔
وہ چلا گیا ہم سوچتے رہ گئے کہ یہ نام، ذات، مذہب، عقیدہ،نسل ، یہ سب کیا ہیں نیک تو کوئی  انسان بھی ہو سکتا ہے۔
بشیر کی فرمائش اب سمجھ آئی  اور کل کی فرحی سے طے ملاقات کی طرف دھیان پھر گیا۔

ساتویں قسط

بشیر کے جانے کے کچھ دیر بعد ہم نے سر جھٹکا ، گھوڑے گدھے کیا خچر بھی بیچ کر سو گئے۔۔اذان کی آواز سے آنکھ کھلی، سمجھے صبح ہو گئی  ،اذان کے کلمات کے جواب پڑھتے اٹھ بیٹھے،لیکن جب  حیی الفلاح کے بعد الصلات خیر” من النوم کی صدا نہ آئی  تو پردے ہٹا کے دیکھا، سمجھ آئی  کہ   شام ہے، مغرب کا وقت ہے، وضو کیا، نماز پڑھی، دعائیں مانگیں اور سجدہ شُکر میں گر گئے، جو شُکر سے زیادہ طلب کا  سجدہ تھا، تسبیح پڑھتے لان میں نکل آئے ، گیٹ کھلا، بشیر پھر نازل ہو گیا، ساتھ جی ایم صاحب کا ڈرائیور ایک گفٹ پیک اٹھائے ہوئے تھا، اور پیغام یہ لایا کہ راجہ صاحب نے کسی دوست کو ملنے اسلام آباد جانا ہے، ملاقات آج نہیں  ہو سکتی، ہم نے سکھ کا  سانس لیا ، کہ مزید ریسٹ کریں گے۔۔

بشیر ڈرائیور کو رخصت کر چکا تو پیکٹ کھولا، کھانا اور رائل سیلوٹ کی بوتل نکلی، جو اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پے سجا دی۔۔۔
کھانا کچن میں رکھ دیا، وجہ نزول پوچھی تو اس نے فرمان جاری کیا، بلیو شرٹ سرف میں بھگو دی تھی، کالر میلے تھے، اسے اب سکھا کے استری کرنا ہے، سوٹ برش کرنا ہے جوتے پالش کرنے ہیں صبح آپ جلدی جائیں گے، جنرل صاحب کے پاس پیشی مذاق نہیں ۔۔۔

سو اگلی صبح ٹھیک آٹھ بجے ہم ہارلے سٹریٹ ، ہیڈ آفس میں پراپر سوٹڈ بوٹڈ حاضر تھے۔۔
جنرل نواز ملک صاحب کا تعلق تلہ گنگ سے تھا ذاتی طور  پر جانتے تھے، متوقع سوال پوچھا کہ یہ ادارہ کیوں چھوڑ رہے ہو؟
تیار کردہ جواب، اسلام آباد میں گھر بنانا، بچوں کی تعلیم، ذرا بہتر مستقبل، ساتھ لاء کرنا  ہے ،عرض کر دیا۔۔
فرمایا تم نے اپنی مرضی سے استعفی دیا یا پراجیکٹ مینجمنٹ نے مجبور کیا ؟ ہم پل بھر  کو پریشان ہو گئے ۔
خیر عرض کی کہ پورے ادارے میں کبھی کسی نے بھی ایسی کوئی  بات نہیں  کی، سب کو میرے سینئر افسران سے تعلقات کا پتہ ہے اور میری پرفارمنس پرسنل فائل میں موجود ہے جو انکے سامنے موجود تھی۔ مسکرا دیئے  اور یہ کہتے  ہوئے فائل میں استعفی پر Approved پر دستخط فرما دیئے۔ Hope you will never let us down ہم نے شکریہ ادا کیا انہوں نے دعا دی ۔

اگلے دو گھنٹے ہیڈ آفس میں جملہ افسران کو سلام کرتے، سٹاف سے ملتے لگ گئے، جس میں اپنے پرانے باس اور استاد  کنڑولر فنانس ۔ جی ایم فنانس سے ڈانٹ کھانے میں صرف ہوئے، منت سماجت کرتے روتے دھوتے ان سے بھی  اجازت اور دعا مل ہی گئی، اپنے کلب بلڈنگ آفس کھڑے کھڑے حاضری دی، جی ایم صاحب نے اگلے دن انٹر کان  میں رخصتی لنچ کی نوید دی ۔
دفتر سے نکل رہے تھے کہ خالد شاہ پہنچ گئے ان کے ساتھ ہوٹل آ گئے۔

پچھلے ساٹھ گھنٹے جس مسلسل ذہنی ہیجان اور دباؤ میں گزرے، اس سے اعصاب چٹخ گئے تھے، خوشگوار ماحول کی شدید ضرورت تھی جو ہوٹل میں میسر تھا، ڈائیننگ حال کی سائیڈ پہ  لان کی طرف وی آئی  پی لاؤنج میں فرحی، سیمی نادرہ  انکے دوست بیٹھے گپ لگا رہے تھے شاہ اور میں بھی شامل ہو گئے، جوس کے گلاس سب کے سامنے تھے، ہم نے شاہ سے کہہ کے اپنے لئے بار سے ڈرافٹ بیئر کا مگ منگوا لیا۔۔
نادرہ نے کلب میں مشاعرے کا ذکر چھیڑا، جہاں ہم نے بھی نظم پڑھی تھی، اس کا زور ہم سے ملاقات پر تھا۔۔
ڈرنکس کے ساتھ گپ شپ میں سب شریک تھے کوئی  اجنبیت نہیں  تھی، کچھ دیر بعد انکے دوست اور سیمی معذرت کر کے چلے گئے، خالد شاہ بار کی طرف گیا تو نادرہ نے بات چھیڑی کہ فرحی کا مسئلہ جلدی حل ہونا چاہیے۔
فرحی خود پر سکون تھی ، ہر بات پہ ہلکا سا ہنس کے مجھے دیکھتی، نادرہ کی بات میں نے ان سنی کر دی، شاہ دوسرا مگ  لایا تو وہ اور نادرہ بھی کام دیکھنے کا بہانہ کرتے چلے گئے، فرحی اور ہم اس لاؤنج میں اکیلے تھے۔۔
فرحی واش روم سے ہو کے واپس آئی  تو اسے غور سے دیکھا ، کشتی نما گلے والی گہرے نیلے رنگ کی ریشمی قمیض سے  کالے رنگ کی برا میں پوشیدہ خزانے مظہر تھے، دوپٹہ بازؤں تک محدود تھا، ہلکے نیلے رنگ کی شلوار سے گھٹنوں کے بل دیکھے جا سکتے تھے، سامنے سنگل سیٹر صوفہ پہ  ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھی ، ہاتھوں اور چہرے کی گوری رنگت سے کسی ولایتی صابن یا کریم کے اشتہار کی ماڈل لگ رہی تھی، خالد شاہ تولیہ میں لپٹی لندن لیجر بیئر کی بوتل میز پہ  چھوڑ  کے جاتے  ہوئے حال کی طرف کے فولڈنگ ڈور بھی بند کر گیا، ماحول میں مکمل تخلیہ تھا۔۔۔
فرحی نے چہچہاتی آواز میں بات شروع کی۔۔ تو اسلام آباد شفٹ ہو رہے ہیں ۔۔ آپ ؟؟۔۔
آپ کی ،پ ،پہ  اس نے ہونٹ یوں باہم پیوست رکھے کہ جیسے چوم    رہی ہو، آنکھوں سے امڈتی شرارت ، چہرے  پہ  پھیلی مسکراہٹ کے ساتھ پورے بدن کے برتاؤ سے سمجھ آ گئی  کہ میڈم بذلہ سنج بھی ہیں اور نقطہ چیں بھی۔

جواب دینے کی بجائے ہم نے محبت سے لبریز لہجے میں سوال پوچھا ، آپ ہماری تاریخ اور جغرافیہ کتنا جانتی ہیں؟۔۔۔
بولی۔ جی جب آپ اپنے شہر کے کالج میں ایف اے میں پڑھتے تھے ! ہم نے کہا ،، کیسے ؟
جواب دیا ، تب ہم بھی وہاں رہتے تھے، میری باجی فہمیدہ آپ کی کلاس فیلو تھی، میں گرلز ہائی  سکول میں تھی ۔
ہمارے ابا بھی ریلوے میں تھے ، ہم خالد شاہ کے ساتھ والے گھر میں رہتے تھے،تو یہ خالد شاہ کو میرے پیچھے کیوں لگا دیا ہے ؟۔۔ ہم نے بنا بات کو گھمائے بھرائے بغیر سیدھا پوچھا۔۔

آپ کا اس سے کیا تعلق ہے ؟
کہنے لگی اس کا ہمارے گھر آنا جانا ہے، باجی اور آپ کا ہم جماعت تھا تب سے۔۔
یہ دو نمبر بندہ ہے، خود جیسے تولیہ میں بوتل لپیٹ لایا ہے ویسے سمجھتا ہے کپڑوں میں لپٹی ہر عورت بوتل ہے۔
مجھے تھوڑا سا مسئلہ ہوا، باجی کو شک ہوا کہ گڑ بڑ ہے، اسے آپکی کالج میں نانی شہراں والے نسخوں کی شہرت یاد ہے۔۔


میں نے بھی یہ سُن رکھا ہے، شاہ بھی جانتا ہے، ویسے بھی ہمارے گھر میں آپ کا ذکر ہوتا ہے، خاص طور پر  جب آپ نے میرے بہنوئی  ، بھائی  جان منیر کا ڈھلیاں والے پٹرول پمپ اور ٹرکوں کے اڈے کا مسئلہ حل کرایا تو روزانہ  ہم لوگ کسی نہ کسی طرح آپ کی بات کرتے ہیں، باجی نے تو صرف خالد شاہ سے آپ سے مجھے ملاقات کرانے کا کہا  کہ مشورہ لوں، اور اگر علاج کرانا پڑے تو آپکی معرفت کراؤں ، بھائی  جان کو کہہ نہیں  سکتے، باجی کر نہیں  سکتیں۔
آپ تو کالج کے زمانے سے یہ نیکی کرتے ہیں، بھروسہ اور یقین بھی ہے ، لیکن اس شاہ نے نادرہ اور سیمی کو بتایا ۔۔
مجھے پتہ ہے وہ بات نہیں  جو یہ کہتا پھرتا ہے، ڈس آرڈر ہو سکتا ہے، لیکن پھر بھی چیک تو کرانا ہے ناں،
فرح نے یوں ایک سانس میں ساری بات کلیئر کر دی۔۔
اتنی دیر میں ویٹر کھانا لے آیا ، بوتل بھی خالی ہو چکی تھی، کھانا مل کے کھایا، شاہ اتنی دیر غائب رہا،ہم نے ذہن پہ زور ڈالا ، لیکن موزوں نسخہ کیسے یاد آتا جب تک علامات، شبہات اور کچھ اتصال بارے تفصیل نہ ہو۔۔۔
ہم اٹھ کے کھڑے ہوئے تو فرحی نے ہاتھ تھام لیا، وہ بھی اٹھی، یوں کہ ہم متصل تھے،اس کی آنکھوں کے ڈھیلوں کا رنگ گاڑھا ہو گیا، بولی، پلیز ہلپ می، ناں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

کمر کو  بازو  کے گھیرے میں لیتے ہوئے   اس کے ماتھے اور ہماری چھاتی کے کرنٹ منطبق تھے ۔۔۔۔ہم نے کہا۔۔کل انٹرکان میں لنچ کے بعد یہاں یا مناسب جگہ ملتے ہیں، دعا کرو نانی شہراں کے نسخوں والی ڈائری مل جائے۔
وہ تو چُپ رہی لیکن اس کا رُوں رُوں آمین آمین کہہ رہا تھا۔۔
جاری۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply