نانی شہراں۔۔۔محمد خان چوہدری

یہ رپورتاژ ہم نے چکوال کے پچاس سال پرانے ماحول اور سماجی روایات کو  نئی نسل تک پہچانے اور محفوظ رکھنے کے لئے تحریر کی تھی،جس کو سمجھ آئے اور پسند ہو وہ اسے کاپی کر کے سنبھال لے، کل بچوں کے کام آئے گی۔
قلندر
طلسم ہوش رُبا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چکوال کے ہمارے آبائی  محلے میں ایک بزرگ لاولد خاتون نانی شہراں رہتی تھی۔
اس کے چھوٹے موٹے کام جیسے بازار سے سودا سلف لانا، اس کی پکائی  نیاز محلے میں بانٹنا۔۔۔
ہینڈ پمپ سے پانی نکال کے گھڑے میں بھرنا۔ اور اس کے تیار کردہ نسخے کی دوائی  متاثرہ خواتین کو ان کے گھر جا کر حفاظت اور رازداری میں دے کے آنا ہمارے ذمہ ہوتا تھا۔
نانی زنانہ پوشیدہ امراض کے علاج کی ماہر تھی۔ آپ اسے گائناکالوجسٹ سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ وہ بیوٹیشن بھی تھی، دوران حمل خواتین کی مالش کرنا، اور بعد میں پیٹ کم کرنے کی ورزش کرانا بھی اس کی مہارت تھی۔
اس کے ساتھ وہ گھر پر  میٹھی گوگیاں ، حلوہ ،کھیر ، اور فیرنی بھی بناتی۔ جو ہمیں بڑے پیار اور چاؤ سے کھلاتی تھی،بچپن میں میٹھا کھانا اس وقت بھی ہر بچے کی طرح ہماری کمزوری تھی۔
نانی کی تحریر بھی بہت خوش خط تھی، پنساری کی دکان سے نسخے کے اجزاء ترکیبی ان کے طبی نام، مقدار یا تعداد کے ساتھ لکھ کے دیتی، ہم وہ کاغذ اسے اشیا بازار سے لا کے دینے کے بعد جیب میں رکھ لیتے، پھر سلیٹ پر اسے نقل کر کے ،اسی طرح لکھنے کی پریکٹس کرتے تھے۔ یوں ہم جب پرائمری پاس کر کے ہائی  سکول میں پہنچے تو ہماری اردو کی لکھائی  نستعلیق خط میں چھاپہ خانے کے مقابل تھی۔
اس زمانے میں ڈائری لکھنے کا رواج تھا۔اور آٹھویں کلاس میں ہمارے ایک انکل نے جو ایئر فورس میں افسر تھے ایک ڈائری گفٹ کی،جسے ہم نے یونیورسٹی تک اپنے ساتھ رکھا۔

نانی شہراں واقعی ایک طلسماتی شخصیت تھی۔ کبھی اُس نے اپنی بیوگی کا رونا رویا اور نہ اس کی آڑ میں کسی سے بھی کوئی  مدد مانگی، بلکہ وہ بڑے نُک سُک سے رہتی۔ بائیں کلائی  میں سونے کی چار چوڑیاں اور انگلی میں سونے کے دو چھلے ۔ دائیں کلائی  میں چاندی کا کڑا اور انگلی میں فیروزہ والی انگشتری ہمیشہ ہوتی تھی، سُتواں ناک میں نتھ اور کانوں میں دو دو سوراخوں میں رنگ بھی سونے کے ہوتے تھے۔
ایک دفعہ ہمارے پوچھنے پر  کہ اس عمر میں زیور پہننے کی کیا ضرورت ہے۔ مسکرا کے بولی۔۔۔۔۔“ عورت مرد کے لئے بوڑھی ہوتی ہے، شیطان کے لئے نہیں ! اور  سونا عورت کے بدن کی ڈھال اور قوت مدافعت کی طاقت ہوتا ہے”۔
اس وقت ہمیں اس منطق کی سمجھ نہ آ سکتی تھی نہ آئی۔
لیکن یہ بات ہم نے ڈائری میں لفظ بہ لفظ لکھ دی تھی۔
ڈائری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں نانی نے ایک فونٹین پین خرید کے دیا،اس میں سیاہی بھرنے کو کہا تو ہم نے اس کا چھوٹا کور کھول کے اس کے اندر لگی ٹیوب کو دبا کے سیاہی بھری اور اس کی پچکاری مار دی۔
نانی اس شام ہمارے گھر آئی  اور اسی رات ہمیں علیحدہ کمرے میں شفٹ کر دیا گیا،اس سے پہلے ہم بڑے کمرے میں سب کے ساتھ اپنی پلنگڑی پر  سوتے تھے،اب ہمیں بڑے رنگین پائیوں والا نواری پلنگ، کرسی اور میز ،بیٹھ کےلکھنے پڑھنے کے لئے۔۔
مل گئے پہلے ہم چارپائی پر  بیٹھ کے ، کاپی پر بھی قلم دوات سے ، اردو زی والی نب سے اور اسی ہولڈر میں آئی  نب لگا کے انگریزی لکھتے تھے اور سیاہی کے داغ کپڑوں پر  لگا لیتے تھے۔ اب میز پر کاپیاں کتابیں رکھے کرسی پر بیٹھ کے فونٹین پین سے ہوم ورک کرنے کے ساتھ ڈائری بھی لکھتے۔ جس میں اگلے دن ہم نے لکھا تھا۔
نانی شہراں کو ہمارے پین سے سیاہی بھرنے ۔ نکالنے سے ہماری بلوغت کا پتہ چل گیا۔

چکوال میں شروع سے شرح خواندگی بہت بہتر تھی، خواتین بھی میٹرک یا کم از کم پرائمری تک ضروری پڑھی ہوتی تھیں، اور نانی شہراں جیسی اتالیق کے ہونے سے وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ نانی کی لکھی ترکیب استعمال ہم سے پڑھواتیں اور اکثر مرہم یا لیپ کرنے والی دوائی  کو استعمال کرنے میں ہم سے تعاون کی فرمائش بھی کرتیں۔
یہ بات طے ہے کہ نانی شہراں کی خدمت کی برکت سے ہماری خواتین میں مقبولیت تھی۔
ہم کسی گھر میں بھی کوئی  تیار نسخہ دینے جاتے جو ہمارے کرتے کی جیب میں پوشیدہ ہوتا۔۔اور مناسب موقع  پا کر رازداری سے ہم سب سے نظر بچا کے خاتون کی جیب میں منتقل کرتے یا اس کے پاس گُھس کے اس کی شلوار کے نیفے میں اُڑس دیتے تھے،اس وجہ سے عام طور پر  ہمیں رسوئی  میں بٹھایا جاتا   اور وقت کے حساب سے کوئی  نہ کوئی  سپیشل طعام جیسے حلوہ، دودھ، یا مکھن کے ساتھ پراٹھا، کھلایا جاتا تھا۔
یہ خواتین کی اس صحبت کا شاخسانہ ہے جو آج آپ ہماری شاعری اور اس سے منطبق  دیدہ زیب اور دلفریب تصاویر بُتاں دیکھتے ہیں، اور ان پر ہم سے حسد کرتے ہیں جیسے اس وقت ہمارے ہم عمر ،ہم جماعت ہماری ہر گھر میں آؤ بھگت پہ  کرتے تھے۔جب کہ ہم کوئی  بھگت نہ تھے نہ دکھتے تھے، پکا سانولا رنگ تھا، موٹے موٹے گال تھے جو چلتے ہوئے ہلتے تھے، درمیانہ سا قد تھا،لیکن کبھی کبھار کسی کزن کے ہمراہ کسی کے  گھر جاتے ، تو خاتون خانہ اس کے تو بس سر پے ہاتھ پھیرتی لیکن ہمیں چمٹا کے گال پکڑ کے پیارکرتی،تو کزن کا رنگ جل کے مجھ سے بھی کالا ہو جاتا،جب ہم کالج میں پہنچے، تو کلاس میں فرنٹ رو میں لڑکیاں بیٹھتی تھیں، کرسی کی بیک پے لگا پھٹہ پچھلی رو میں بیٹھنے والے کی میز ہوتا،ہم ہمیشہ دوسری رو میں ہر پیریڈ کےمخصوص کمرے میں ایک ہی سیٹ پر بیٹھتے تھے،
ہمارے آگے بیٹھنے والی ہم جماعت بدلتی رہتی،اس کی وجہ بھی ہمارے پاس موجود نانی شہراں کے نسخوں والی ڈائری تھی،جس کی شہرت یہاں بھی تھی،کلاس میں ہمیں علامات لکھ کر ملتی، اور ہم نسخہ ڈائری سے نقل کر کے دے دیتے۔
کیسے ؟ سادہ سا طریقہ تھا لڑکی اپنے نقاب کو سر پے سیٹ کرتے ،اس کے اندر سے ہماری ڈائری میں دبا دیتی،پیریڈ ختم ہوتے ہوئے ہم اسی پرچی پر لکھا نسخہ ڈائری میں رکھ کے ڈائری کھسکا کے اس کی سیٹ پہ  گرا دیتے وہ کاغذ نکال کے اٹھتے ہوئے ڈائری واپس رکھ دیتی،تے ہور کی۔۔۔

فکر لاحق ہو گئی کہ آپ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم سارا دن نانی شہراں کے ہاں اس کی ڈسپنسری کرنے میں گزارتے تھے ! جی نہیں ۔۔ بالکل نہیں،
چکوال میں ہمارے بچپن،لڑکپن کے زمانے میں زندگی مکمل شمسی نظام کے مطابق بسر  کی جاتی تھی، طلوع و غروب آفتاب کے نظام کے ساتھ سارے کاموں کی ترتیب تھی۔
صبح کا آغاز “وڈی سرگی” یا صبح کاذب کے وقت سے ہوتا تھا، پہلی آذان امام بارگاہ کی مسجد میں دی جاتی، اور لوگ جاگ جاتے۔زمیندارہ کرنے والے اپنے مویشیوں کے تھن صاف کر کے انہیں چارہ ڈالتے،دیگر گھروں میں بھی گائے یا بھینس ہوتی تھی، تو ان کے دودھ نکالنے کی بالٹی میں دھاریں مارنے کی آوازیں، اور دودھ نکالنے کی منتظر بھینسوں کی رینگ ہر طرف سنائی  دیتی۔
بابا لوگ اپنی لاٹھی ٹیکتے مسجد جاتے اور گلی میں اس کی ٹک ٹک  کے ساتھ گھروں میں برتن  دھونے سے کھنکنے کی آوازیں مل کر میوزک بنا تیں،سورج نکلنے تک ، کاشتکار مویشی لے کر کھیتوں میں پہنچ چکے ہوتے۔ دکاندار اپنی دکانیں سجا چکے ہوتے، ڈیوٹیوں والے بھی گھر سے روانہ ہو جاتے،پھر گلیوں میں یونیفارم ۔ لڑکے ملیشیا کا جوڑا پہنے اور بچیاں نیلی قمیض،سفید شلوار اور چُنی سر پر لئے سکول جانے کے لئے نکلتے تو سارے شہر کی گلیاں ان کے چلنے سے پھولوں سے سجی ہوئی  لگتیں، گرلز سکولوں کی استانیاں اور کالج کی طالبات کالے برقعوں میں ملبوس  اس ماحول کو اور رنگین کئے ہوتیں۔

ظہر تک سب کی واپسی شروع ہو جاتی، اور عصر تک ہر کوئی  مویشی واپس لا کے ان کو چارہ ڈال کے اور دیگر سب حوائج سے فارغ ہو جاتا۔
اب مغرب تک سب میل جول، کھیل کود، سیرو تفریح  کے لئے مشغول ہوتے،مغرب کے بعد سوائے مسجد میں نماز کے لئے جانے کے گھر سے باہر رہنا انتہائی  معیوب سمجھا جاتا تھا۔
شام کے وقت کام کرنا جیسے جھاڑو لگانا، صفائی  کرنا۔ کپڑے دھونا مکروہ فعل گردانے جاتے،
ہم نانی شہراں کے ہاں عصر کے وقت جاتے تھے،مغرب کی ا ذان ہوتی تو نانی سب کام روک دیتی اور حکم صادر کرتیں۔۔۔۔بس کرو۔ دونوں تاڑ مل رہے ہیں۔ توبہ کرنے اور دعا مانگنے کا وقت ہے،
شاید اس فطری نظام الاوقات کے مطابق زندگی گزارنے کی روش کی برکت اور فیض تھا  کہ ماحول میں سکون محسوس ہوتا تھا اور فضا میں ایک نور سا معلق رہتا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

پانچ دہائی  قبل تک چکوال شہر تو تھا تحصیل ہیڈکواٹر بھی تھا لیکن ماحول بالکل روایتی گاؤں کا تھا۔ جس کا اہم ترین پہلو ہر بندے کا ہر بندے کو جاننا تھا کہ کون ہے کس کا بیٹا ہےکس محلے میں رہتا ہے، سول ہسپتال تھا۔ اسی ہسپتال سے ریٹائر ہونے والے دو یا تین ڈاکٹرز نے اور ایک لیڈی ڈاکٹر نے اپنے کلینک بنا لئے تھے، ان سے پہلے صرف ایک ڈاکٹر خواجہ محمد زمان پریکٹس کرتے تھے،خواتین کے لئے ایک مرکز زچہ و بچہ تھا جس میں دائی  کی پوسٹ پر کچھ خواتین کام کرتیں۔عام طور لوگ حکیموں سے علاج کراتے تھے،مخصوص زنانہ امراض کے لئے نانی شہراں جیسی بزرگ خواتین سے ہی رجوع کیا جاتا۔
نانی کا کوئی  کلینک نہیں  تھا۔ بس اس کا کمرہ معائنہ اور مالش وغیرہ کے لئے تھا۔ رسوئی  میں چند مرتبان میں کچھ جڑی بوٹیاں ہوتیں جہاں لنگری میں  ہاون  دستے سے کوٹ کاٹ کے دوائی  تیار کی جاتی، باقی اجزا  ء حسب ضرورت پنسار کی دکان سے ہم روزانہ شام کو لا دیتے۔آج کی میڈیکل سہولتوں، ایکسرے الٹرا ساؤنڈ اور لیبارٹری وغیرہ کی جگہ نانی کے ہاتھ کے لمس اور معائنہ کرنا تھے۔
آپ حیران ہوں گے کہ پانچ چھ ماہ کی حاملہ کے پیٹ کے سائز اور پھیلاؤ کی بناوٹ، خاتون کے ناخن ، آنکھیں اور چھاتی کے اُبھار سے نانی کو معلوم ہو جاتا کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی۔
اسے شاید میل اور فیمیل ہارمونز کی سمجھ تھی۔
ہمیں اس سے بڑی الجھن یہ تھی کہ لڑکی ہونے کا اندازہ کرنے کے بعد نانی متوقع  ماں پر  بھرپور توجہ دیتی، اور لڑکے والی کو بس روٹین کی احتیاط بتا دی جاتی۔
ویسے بھی ہم محسوس کرتے تھے کہ نانی بچیوں کو بہت فوقیت دیتی تھی۔ بسا اوقات لڑکا ہونے کی وجہ سے سبکی بھی کر دیتی۔
لیکن فوری طور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی کیونکہ اس وقت ہم بھی جوابی رد عمل دیتے، ایک ہی سوال پوچھتے۔ “اگر تم سچ مچ کی میری نانی ہوتی تو یہ کہتی؟”
جس پر وہ یکدم شرما سی جاتی، دوپٹہ یا چادر پوری طرح اوڑھتی اور نیچی نگاہ رکھ کے کہتی۔
“بندہ بن کے رہو۔ بڑے شیطان ہوتے جا رہے ہو”۔۔۔
خیر یہ عقدہ ہم پے بہت عرصے بعد ایک اور بزرگ خاتون نے کھولا۔ بقول ان کے  نانی کا ہمارا حقیقی نانا سے دونوں کی شادیاں ہونے سے پہلے پیار محبت کا چکر تھا لیکن غیر ذات ہونے کی وجہ سے باہم شادی نہ ہو سکی۔
اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ مرحوم نانا سے بہت مشابہت ہے شاید اس وجہ سے ہم نانی شہراں کی خاص شفقت سے بہرہ مند ہوتے تھے۔
خیر صنف کی وجہ سے ترجیحی برتاؤ پر نانی سے ہماری ایک مرتبہ سخت بحث ہوئی ۔
ہماری رشتے کی ممانی کے ہاں حسب دستور نانی کی زیر نگرانی بیٹی پیدا ہوئی   لیکن تاکید کے باوجود اس نے نانی کی عدم موجودگی میں نائی  سے اس کی (جھنڈ) سر کے بال اتروا دیئے۔
عام طور پر نانی بچی کے ماتھے اور کانوں پر پٹی چپکا دیتی ۔باقی سر کے بال استرے سے اتر جاتے، بعد میں آٹے کی لُپری سے نانی خود یہ بال ہٹا دیتی۔
بلکہ چالیس دن کے بعد لپری میں خاص مٹی اور سفوف ملا کے بچی کے بغل اور زیر ناف لیپ لگاتی اور بعد میں نہلا دیتی۔
نانی نے سخت غصے میں ممانی کو خوب کوسنے دیئے۔ جو صرف ہم ہی سن رہے تھے۔۔۔
ہم نے کافی صبر کیا، جب پارہ اترنے لگا تو ترش لہجے میں پوچھا کہ لڑکیوں کو کون سے سرخاب کے پر لگنے جو ان کے لئے اتنا تردد اور فکر کرتی ہیں۔
ہمیں نانی کا جواب اس لئے یاد ہے کہ اس رات ڈائری میں لکھا۔
“بچی کی پرورش گھوڑی کی طرح کرو۔گھوڑی کی رال اور دم کے علاوہ بدن پے بال نہیں  ہوتے، چکنی جلد کی وجہ سے وہ اپنے سوار کے لمس کو پہچانتی ہے۔ اسے گوڈی لگا کے بھی سواری کرائے گی۔ لیکن اجنبی کو چھونے بھی نہیں  دےگی، زبردستی سوار ہو تو پٹخ دے گی۔۔۔
مرد کو بدن پے بال جچتے ہیں، اور وہ تو کھوتا ہے جو رسی تھام لے اسی کا سوار۔۔”!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply