لفظوں کے بلیک ہولز۔۔۔۔بینا گوئندی

انسان کا اس دنیا میں لاۓ جانے کا یا ادھر آنے کا مقصد سمجھنا خود انسان کے لئے بے شمار صورتوں میں ایک معمہ بن جاتا ہےسوال اٹھتے ہیں, ہر ذہن اپنی اپنی بساط کے مطابق جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر وہ عمل ہمارے لئے قابل تحسین ہے جس کو ہم کر رہے ہیں یا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں, باقی ماندہ کا درجہ مستعار ہے ۔ یعنی ہم “وہ ہیں جو ہیں” اور جو نہیں وہ ہم نہیں ۔ بس اپنے اپنے mass یعنی کیمیائی وزن کو سمیٹ کر بیٹھے ہیں۔ بظاہر سب انسان ہیں، اگرچہ تمام اعضاء ایک جیسے بھی ہیں مگر “بندے” الگ الگ ہیں، یعنی سفر اپنا اپنا ہے, شناخت اپنی اپنی ہے۔ جیسے ہر لفظ اپنے الگ الگ معنی رکھتا ہے اور وہ معنی اس کے عمل سے ظاہر بھی ہوتے ہیں اسی طرح ہم اپنے خیال کے دائرے میں رہتے ہوۓ سفر کرتے چلے جاتے ہیں۔ حتی کہ ایک چھوٹے سے ذرّے “ایٹم “کو لیجیے ،جو اپنے اندر تمام ساختی حوالوں کے ساتھ ساتھ توانائی بھی رکھتا ہے مختلف ایٹم مل کر مادے کو تشکیل دیتے ہیں جو اس کے حجم یعنی mass کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ حجم مسلسل حرکت میں ہے اور ان دونوں کے حاصل جمع سے توانائی  کا اخراج ہے E= mc2
رفتارِ مادہ روشنی کی رفتار ہے جو “C” میں بیان کی جاتی ہے باالفاظ دیگر طاقت, حجم (mass )کے مطابق ہوتی ہے یعنی مادے کے ساتھ ساتھ روشنی کا وزن بھی ہوتا ہے۔ اندھیرے کمرے اور روشن کمرے کے وزن میں فرق ہے۔ یعنی اگر مادے کو توڑیں تو اس سے روشنی، آواز اور طاقت, تینوں ہی کا اخراج ہو گا۔ جو ہمیں نیو کلیائی پاور کی شکل میں ملتی ہے سائنس کا علم سائنس دانوں کا نہیں, خدا کا علم ہے سائنس دان اپنے شعور سے اس کو دریافت کرتے ہیں اور یہ شعور بھی اسی کا عطا کردہ ہے۔ اگر ایک درخت سے نکلنے والی طاقت کو nuclear power میں تبدیل کر لیں تو یہ طاقت ہمارے ملک کو ایک سال تک روشنی مہیا کر سکتی ہے، یعنی یوں سمجھ لیں کہ ہر ذرّے, خلیے اور ایٹم کو طاقت نے چاروں جانب سے گھیرا ہوتا ہے بس شعور کی سطح اور افزائش اس کی نشان دہی کرتی ہے اسی طرح موجودات کے تمام عناصر میں چاہے وہ ظاہرا ً مادی ہوں یا اخفائی مادی ہوں، ان کی اپنی اپنی طاقت capacity ہوتی ہے اور یہ ہی اس کی شناخت بنتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

اسی طرح الفاظ حرفوں سے مل کر بنتے ہیں، ان کے معنی کی اپنی اپنی طاقت ہوتی ہے، جس کو وہ ہی سمجھتا ہے جو اس کا شعور رکھتا ہے بصورت دیگر وہ بھی ہمارے گرد موجود درختوں کی نیوکلیئر پاور کی مانند غیر مستعمل پڑے رہیں گے۔ خدا نے انسان کو بندۂ خدا بنانے کے لیے  لفظ کو استعمال کرتے ہوئے آسمانی کتابوں کی شکل میں نازل کیا۔ حدیث کے مطابق ایک لاکھ   چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں بھیجے گئے، جن میں سے 315 صاحبِ کتاب تھے اگر بندۂ خدا مستفید نہ ہو سکے تو یہ اس کا مقدر ہے۔ خدا کا حکم ہے کہ “تمام ستارے بے نور کردئیے جائیں گے”۔
مادہ اپنی طاقت اور الفاظ اپنے معنی کی وجۂ تعظیم، وجۂ تفسیر، وجۂ تکریم اور شناخت کی وجہ بنتا ہے تخلیق کار اپنا اپنا لفظ لکھ رہا ہے، قاری اس کو اپنے اپنے شعور کی طاقت کے مطابق سمجھے گا اور عمل کرے گا اب لفظ کی حرمت خالق اور قاری دونوں پر آتی ہے کہ وہ اس کو سمجھیں اور پڑھیں کہ سب کے سب الفاظ اس ہی کے عطا کردہ ہیں۔
بس ہمیں فری ول (Free will) کی سہولت عطا کی گئی ہے سو ہم اس سہولت کواستعمال کرتے ہوۓ لکھتے ہیں اور اگر لکھاری یا قاری اس سے انصاف نہیں کرتا تو وہ سب الفاظ وقت کے بلیک ہولز میں گِر جاتے ہیں جس کی نہ  طاقت ہے اور نہ  چمک، بس وہ دیو نما مادوں کا ڈھیر ہے جو نظرِ کرمِ خالق کے در پر مراد کی آس میں بیٹھا رہتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply