کیا کزن سے شادی خطرناک ہے؟۔۔علی انوار بنگڑ

قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنا بہت سے ممالک میں ایک رواج ہے، لیکن یہ رواج بہت سےجینیاتی روگ کے پھیلاؤ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ کچھ بیماریاں جینز کی صورت میں والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں جیسے تھیلسیمیا، سکل سیل اینیمیااور سیسٹک فبروسس وغیرہ۔ ان بیماریوں کو منتقل کرنے میں والدین کیریئر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ فرسٹ کزن سے شادی سے بچوں میں جینیاتی امراض کا خطرہ بڑھتا ہے اور یہ خطرہ ان آبادیوں میں زیادہ ہے جو نسلی اعتبار سے پہلے ہی ملتی جلتی ہیں۔ دور کے رشتے داروں سے شادی کرنے پر بچوں میں ان امراض کا کم خطرہ ہوتا ہے لیکن کسی دوسری نسل میں شادی کرنے سے یہ امکان بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔

دنیا بھر میں ایک ارب افراد ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں رشتہ داروں میں شادی عام ہے۔ یہاں ہر تین میں سے ایک شخص قریبی رشتے دار سے شادی شدہ ہے یا اس طرح کی شادی کی اولاد ہے۔

ایسے بچوں میں جینیاتی بیماریاں ہونے کے امکانات دوگنا ہوتے ہیں۔ کچھ جنوبی ایشیائی ، مشرق وسطی ، اور شمالی افریقی ممالک میں نصف سے زیادہ شادیاں رشتے داروں میں ہوتی ہیں۔ جس سے یہاں جینیاتی عوارض کی شرح بھی زیادہ ہے۔

ہم میں سے ہر ایک اپنے والد اور والدہ سے ہرجین کی ایک ایک کاپی وصول کرتا ہے۔ اس طرح ہم ہر جین کے دو ورژن (جس کو الیل کہتے ہیں) کے وارث ہوتے ہیں۔ ایک الیل غالب(Dominant) اور دوسرا مغلوب (Recessive) ہوسکتا ہے۔ کسی فرد میں در حقیقت جین کے ظاہر ہونے کے لیے جین کی دونوں کاپیاں لازمی ہونی چاہئیں۔ اگر کسی فرد کو جین کے دونوں الیل ایک طرح کے ہی ملتے ہیں۔ جن میں بیماری کی کوڈنگ نہ ہو تواس فرد کو ایسا کیریئر سمجھا جاتا ہے جو بیماری سے بچنے کی صلاحیت کو اپنی اولاد میں منتقل کرسکتا ہے۔ لیکن جب کسی فرد کو ایک خطرناک الیل کی دو کاپیاں وراثت میں ملتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ جین کو بے نقاب(Unmasking) کیا گیا ہے اور وہ اس حالت کا وارث ہوگا۔ کیریئر سے بچے میں خطرناک الیل منتقل کرنے کا امکان پچاس فیصد ہوتا ہے۔ اگر کسی آبادی میں کوئی کیریئر جین نایاب ہو تو بہت کم افراد کیریئر ہوتے ہیں۔ کزنز میرج میں مسئلہ یہ ہے کہ کزنز دادا دادی کے جین کا ایک طرح کا سیٹ رکھتے ہیں۔ ان کے جینز میں مماثلت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر دادا، دادی میں سے ایک کیریئر ہے تو اس کے پچاس فیصد امکان موجود ہیں کہ ان کے ہر بچہ (کزنز والدین) بھی کیریئر ہوں۔ لہذا کزنز شادیوں میں کسی بچے کو خطرناک ایلیل کی دو کاپیاں حاصل کرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے یہاں کزن میرج ایک عام رواج ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق تو کل آبادی کے نصف لوگ فرسٹ یا سیکنڈ کزن سے شادی کرتے ہیں۔ اور دیہی علاقوں میں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں کچھ روایات کی بنیاد کچھ غلط فہمیوں پر پڑی ہوئی ہے۔ انہیں غلط فہمی کہہ لیجیے یا خوش فہمی۔ جیسے اپنی برادری، قبیلے یا رشتہ داروں سے باہر شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ خواہ مخواہ کا زعم ہے کہ صرف ان کی نسل خالص ہے باقیوں میں ملاوٹ ہے۔ صرف ان کی ذات معتبر ہے باقی برادریوں والے کمتر ہیں۔ بعض لوگ تو اسی سوچ کی بنیاد پر دوستی تک اپنی ذات یا نسل سے باہر نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ سوچ بہت پروان چڑھ چکی ہے کہ صرف ان کا قبیلہ، ذات، نسل یا صوبے والے اعلیٰ نسل کے ہیں باقی کمتر ہے یا ہمارے برابر کے نہیں۔ ہماری اقدار شرافت کا نمونہ ہیں باقیوں کی نہیں۔ انتخابات میں ووٹ تک تو ہم ذات برادری کے نام پر دیتے ہیں۔ ہماری آدھی سے زیادہ سیاست ہی ذات برادریوں کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ جو لوگ ووٹ برادری سے باہر نہیں دیتے وہ رشتہ باہر کیسے کرسکتے ہیں۔ ایک پیمانہ تو ہم نے فرقے والا بھی شامل کر لیا ہے۔ ایک فرقے والے کے لیے دوسرا فرقے والا کو قبول کرنا بھی ایک طرح کی جنگ ہی ہوتی ہے۔

اسی طرح کچھ لوگ جائیداد باہر چلی جانے کے خوف سے رشتہ باہر نہیں کرتےہیں۔ قابلیت سے زیادہ آج کل ہم سٹیٹس کو کے قائل ہیں۔ ایک شخص میں لاکھ برائیاں بھی ہے لیکن مالدار ہے اور اپنے گھر کا ہے تو ہم دوسروں پر اسے فوقیت دیں گے۔

یہ ہی رویہ ان پاکستانیوں میں بھی ہے جو دوسرے ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ پوری زندگی وہی رہے ، لیکن بچوں کی شادی کے لیے دوڑے پاکستان آئیں   گے۔ اور صرف رشتہ داروں یا اپنی برادری والوں کو ہی ان سے رشتہ جوڑنے کی سعادت نصیب ہوگی۔ اگر رشتے داروں میں رشتہ کرنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے تو کم از کم میڈیکل ٹیسٹ ہی کرالیے جاۓ تاکہ آپ کی غلطی کا خمیازہ آپ کے بچے نہ بھگتیں۔ یہ تو رشتے داروں سے باہر شادی کروانے پر بھی کروانے چاہئیں   تاکہ ان عوارض سے جان چھڑائی جائے۔ لیکن ہم اپنی غلطی کو قسمت کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ لیکن اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنی۔ قسمت میں ہی ایسا لکھا تھا کی گردان  کریں گے۔

اب تو بہت سے ممالک نے جینیاتی عوارض کی وجہ سے فرسٹ کزن میرج پر پابندی لگا دی ہے۔ تاکہ آبادی میں ان عوارض کا تناسب کم سے کم ہو۔ ہمیں بھی چاہیے اپنی کھوکھلی روایات پر ایک نظر ڈالیں تاکہ ہماری وجہ سے آنے والی نسلیں نہ تکلیف اٹھاۓ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: آرٹیکل میں شیئر کی گئی معلومات مارٹینا مرتن اور جیمز مکڈونلڈ کے آرٹیکلز سے لی گئیں  ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply