• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل۔۔سکندر مرزا کا کردار۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط2(دوسرا ،آخری حصہ)

پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل۔۔سکندر مرزا کا کردار۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط2(دوسرا ،آخری حصہ)

مین کنونشن لیگ کے ڈپٹی لیڈر سید مرید حسین نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ گورنر جنرل غلام محمد بیمار ہوگئے تو مشتاق احمد گورمانی نے اس کی جگہ لینے کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ گورمانی کا راستہ روکنے کے لیے سیکرٹری دفاع سکندر مرزا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں نے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کو استعفیٰ لکھ کر دیا کہ گورنر جنرل سے اس پر دستخط کرا لاؤ۔ غلام محمد نے بوگرا کو چھڑیاں ماریں پھر جنرل ایوب خاں خود گئے۔ غلام محمد رونے لگے کہ میرا تو ہاتھ ہی کام نہیں کرتا۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں نے سہارا دے کر استعفے پر زبردستی ان کے دستخط کرائے۔ یوں سکندر مرزا گورنر جنرل بنے۔

اس آئین کے تحت صدر کا عہدہ وزیرِ اعظم سے برتر قرار دیا گیا تھا اور اس میں کچھ ایسی شق ڈالی گئی تھی کہ صدر وزیرِ اعظم کو کسی بھی وقت یک بینی دو گوش نکال باہر کر سکتے تھے۔
اسکندر مرزا نے جن وزرائے اعظم کا شکار کیا ان کی فہرست دیکھیے:
محمد علی بوگرہ: 17 اپریل تا 12 اگست 1955 (ان سے استعفیٰ آئین منظور ہونے سے پہلے لیا گیا تھا)

چوہدری محمد علی: 12 اگست 55 تا 12 ستمبر 56

حسین شہید سہروردی: 12 اکتوبر 56 تا 17 ستمبر 57

آئی آئی چندریگر: 17 اکتوبر 57 تا 16 دسمبر 57

ملک فیروز خان نون: 16 دسمبر 57 تا سات اکتوبر

پاکستانی وزیرِ اعظموں کی اس میوزیکل چیئر کے بارے میں ہندوستان کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو سے منسوب یہ فقرہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ ‘میں تو اتنی جلدی دھوتیاں بھی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیرِ اعظم بدل لیتے ہیں۔

سفیرِ پاکستان محمد علی بوگرہ کو واشنگٹن سے امپورٹ کرکے وزیرِ اعظم بنایا تھا مگر 847 دن بعد دوبارہ واشنگٹن کی فلائٹ پر بطور سفیر سوار کرادیا۔
اسکندر مرزا نے منتر پڑھا اور مسلم لیگ کو ریپبلیکن پارٹی بنا دیا۔ پھر اس منتر سے چوہدری محمد علی کا بطور وزیرِ اعظم جنم ہوا۔ لیکن چوہدری صاحب مداری کے ہاتھ سے نکل گئے اور سنہ 56کا آئین بنا ڈالا۔ پھرمداری نے گورنر جنرل سے صدر کا روپ دھارا اور 56کے آئین کے تحت انتخابات کے خوف سے منتر پڑھ کر چوہدری محمد علی کو 397 دن کی وزارتِ عظمیٰ چٹا کر غائب کر کے اقتدار کا چراغ حسین شہید سہروردی کے حوالے کردیا۔
جب حسین شہید سہروردی عوامی لیگ اور مسلم لیگ کا اتحاد بنانے میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے صدر سے درخواست کی کہ اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے تاکہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ اگر سہروردی یہ ووٹ حاصل کرلیتے تو اس کے بعد وہ صدر کے پر کترنے میں کامیاب ہوجاتے۔ صدر نے اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کردیا اور سہروردی400  دن کی وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ڈھاکہ روانہ ہوگئے۔
اس کے بعد صدر اسکندر مرزا نے آئی آئی چندریگر کو 60 دن کے لیے وزیرِ اعظم کی ملازمت پر رکھا۔ پھر فیروز خاں نون کو 295دن برداشت کیا۔ جب آئین کے تحت الیکشن کا مطالبہ زور پکڑ گیا تو 7اکتوبر1958 کو ایوب خان کے ہاتھوں مارشل لاء لگوا دیا گیا۔
اسکندر مرزا کو جمہوریت اور آئین کا کس قدر پاس تھا، اس کی ایک مثال ان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کی زبانی مل جاتی ہے۔
شہاب اپنی آپ بیتی ‘شہاب نامہ’ میں لکھتے ہیں کہ 22 ستمبر 1958 کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے انھیں بلایا۔ ‘ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی  جانب اشارہ کر کے کہا، ‘تم نے اس ٹریش کو پڑھا ہے؟’
‘جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے اس کے متعلق ان کی زبان سے ٹریش کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔’
23 مارچ 1956 کو منظور ہونے والے جس آئین کو مرزا صاحب نے کوڑا قرار دیا تھا وہ آئین پاکستان کی دستور اسمبلی نے  9سال کی زبردست محنت کے بعد تیار کیا تھا۔ اس آئین کے تحت پاکستان برطانیہ  عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خودمختار ملک کی حییثت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔

جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں لکھتے ہیں:
‘میں 5اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل اسکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔ میں نے پوچھا۔
‘کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟

ہاں۔
کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؟
نہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔
میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔
اس گفتگو کے دو دن بعد سات اور آٹھ اکتوبر 1958 کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
چونکہ پہلی پہلی کوشش تھی، اس لیے اس اولین مارشل لا میں ‘میرے عزیز ہم وطنو’ وغیرہ کے عنوان سے ریڈیو (ٹی وی تو خیر ابھی آیا ہی نہیں تھا) پر کوئی تقریر نہیں ہوئی۔ بس ٹائپ رائٹر پر لکھا ایک فیصلہ رات کے ساڑھے دس بجے سائیکلوسٹائل کر کے اخباروں کے دفتروں اور سفارت خانوں کو بھیج دیا گیا۔
البتہ یہ ضرور ہوا کہ چند فوجی دستے احتیاطاً ریڈیو پاکستان اور ٹیلی گراف کی عمارت کو گھیرے میں لینے کے لیے بھیج دیے گئے تاکہ سند رہے  اور بوقتِ ضرورت کام آئیں۔
فیصلہ تھا جس نے ملک پر ایسی سیاہ رات طاری کر دی جس کے کالے سائے آج بھی پوری طرح سے نہیں چھٹ سکے ہیں۔
اسکندر مرزا کے تحریر کردہ فیصلے کی سائیکلوسٹائل کاپیاں آنے والے  عشروں میں بار بار تقسیم ہوتی رہیں، بس کردار بدلتے رہے، کہانی وہی پرانی رہی۔
مثال کے طور پر دیکھیے کہ اس رات تقسیم ہونے والے فیصلے میں رقم تھا:
‘میں پچھلے دو سال سے شدید تشویش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں طاقت کی بےرحم رسہ کشی جاری ہے، بدعنوانی اور ہمارے محبِ وطن، سادہ، محنتی اور ایمان دار عوام کے استحصال کا بازار گرم ہے، رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے آلۂ کار بنا دیا گیا ہے۔”
‘سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس درجہ گر چکی ہے کہ مجھے یقین نہیں رہا کہ انتخابات سے موجودہ داخلی انتشار بہتر ہو گا اور ہم ایسی مستحکم حکومت بنا پائیں گے جو ہمیں آج درپیش لاتعداد اور پیچیدہ مسائل حل کر سکے گی۔ ہمارے لیے چاند سے نئے لوگ نہیں آئیں گے۔`
‘یہی لوگ جنہوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، اپنے مقاصد کے لیے انتخابات میں بھی دھاندلی سے باز نہیں آئیں گے۔ ۔۔ یہ لوگ واپس آ کر بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں گے جنھیں استعمال کر کے انھوں نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔’

آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعد میں آنے والے مارشل لاز میں یہی سکرپٹ سرقہ ہو ہو کر استعمال ہوتا رہا۔
اسکندر مرزا کے بقول جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے، لیکن اصل مذاق یہ تھا کہ جب یہ مارشل لا لگا، اس کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم ملک فیروز خان نون کا حکومتی اتحاد جیت جائے گا، اور یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ شاید اس کے قمری نہیں بلکہ زمینی ارکان صدر اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب نہ کریں۔ چنانچہ صدرِ مملکت کو عافیت اسی میں دکھائی دی کہ جمہوریت ہی کو راکٹ میں بٹھا کر خلا میں روانہ کر دیں۔

اس کی تائید بیرونی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ مارشل لا کے نفاذ سے کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی ہائی کمشنر سر الیگزینڈر سائمن نے اپنی حکومت کو جو خفیہ مراسلہ بھیجا اس میں درج تھا کہ صدرِ پاکستان نے انھیں بتایا ہے کہ اگر انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں ناپسندیدہ عناصر موجود ہوئے تو وہ مداخلت کریں گے۔
سر الیگزینڈر نے اسی مراسلے میں لکھا کہ ‘ناپسندیدہ عناصر’ سے مراد وہ ارکانِ اسمبلی ہیں جو سکندر مرزا کو دوبارہ صدر بنانے کے لیے ووٹ نہ دیں۔

سکندر مرزا نے ایوب کو خوش کرنے کے لیے چوبیس اکتوبر کو وزارتِ عظمیٰ کا قلمدان بھی دے دیا۔ چار دن وزیرِ اعظم رہ کر ایوب خان نےسوچا کہ صدارت بھی کیا بری شئے  ہے۔ جب سب کچھ میری وجہ سے ہونا ہے تو مجھے براہ راست حکومت کرنا چاہیے۔
چنانچہ ایوب نے چند جرنیلوں کو ستائیس اکتوبر کی نصف شب ایوانِ صدر بھیجا۔ ایک جنرل نے پستول کنپٹی پر رکھا، دوسرے نے ٹائپ شدہ کاغذ سامنے رکھا اور تیسرے نے مرزا کے ہاتھ میں پین تھما دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا ۔۔۔ مرزا کو اگلی فلائٹ سے لندن روانہ کردیا گیا۔ جہاں مرزا گیارہ برس تک ایک ریسٹورنٹ چلاتے چلاتے جاں بحق ہوگئے۔ ۔

پاکستان سے جلا وطنی کے بعد انہوں نے اپنی بقیہ زندگی لندن میں گزاری انہیں 3000 پاؤنڈ پنشن ملتی تھی جس میں ان کا گزر بسر ممکن نہ تھا تاہم ان کے ایرانی اور برطانوی رفقا نے ان کی مالی اور معاشی مدد جاری رکھی جس کے باعث انہوں نے بہترزندگی گزاری۔ اپنی بیماری کے ایام میں انہوں نے اپنی بیوی ناہید مرزاکو مخاظب ہو کر کہا” ہم بیماری کے علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے اس لیے مجھے مر نے دو” 3نومبر،1969ء کو انہوں نے دل کے عارضہ میں مبتلا ہو کر وفات پائی۔ صدر پاکستان محمد یحیٰ خان نے ان کی میت پاکستان لانے اور یہاں دفن کرنے سے صاف انکار کر دیاان کے رشتہ داروں کو بھی جنازہ میں شرکت سے سختی سے روک دیا گیا۔ ایرانی بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے خصوصی طیارے کے ذریعے سکندر مرزاکی میت تہران لانے کا حکم دیا یہاں سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ ان کے جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ 1979ء کے انقلاب ایران کے بعد یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ کچھ شرپسندوں نے سابق صدر پاکستان سکندر مرزا کی قبر کو مسمار کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

انھی اسکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا نے ایک کتاب لکھی ہے، ‘فرام پلاسی ٹو پاکستان،’ جس میں انھوں نے حیرت انگیز طور پر کچھ اور ہی کہانی بیان کی ہے۔ صاحبِ کتاب نے سراج الدولہ کو بدمزاج اور بےرحم ٹھہراتے ہوئے لارڈ کلائیو کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار خود انھی کو قرار دیا تو دوسری طرف یہ عجیب و غریب مماثلت ڈھونڈی ہے کہ جن لوگوں نے سراج الدولہ کو تخت پر بٹھایا تھا (مراد اپنے جدِ امجد میر جعفر سے ہے) انھی کے ساتھ نوجوان حکمران نے بےوفائی کی۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس جنگ کے تقریباً ٹھیک دو سو سال بعد بنگال کی تاریخ کراچی میں دہرائی گئی اور میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا نے جس ایوب خان کو پروان چڑھایا تھا، اسی نے اپنے محسن کے سر سے تاجِ صدارت نوچ لیا۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply