پاکستانی سیاست اور انقلاب۔۔۔۔فرخ ملک

پاکستانی معاشرے میں بھی پچھلے 71 سالوں میں متعدد مواقع ایسے آئے جب  معاشرے کی مختلف  طبقوں کے درمیان مزاحمت کے نتیجے میں اضطراب اور  ذہنی ہیجان پیدا ہوا۔ لیکن پاکستانی عوام  کی بدقسمتی کہ اس ہیجان کو انقلاب میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی مقتدر قوتوں نے اپنی مرضی سے اس کا رخ موڑ  کر اسے بے اثر بنا دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں عقلی اور شعوری ارتقاء رک گیا اور پاکستانی معاشرہ جمود کا شکار ہو گیا۔ اور اب یہ معاشرہ سرانڈ مار رہاہے ۔

یہاں عوام کوتبدیلی  اور انقلاب کے نام پر کئی باربے وقوف بنایا جا چکا ہے۔ اور یہ تسلسل  آج  تک جاری و ساری ہے۔پاکستانی سیاست میں تقریباً ہر دس یا گیارہ برس کے بعد کو ئی نہ کو ئی سیاسی تبدیلی  یا ہلچل ضرور ہوتی رہی ہے جس کے نتیجے میں  اقتدار کی ہُماکبھی سیاستدانوں تو کبھی فوج  کے سر پربیٹھتا  رہتا  ہےاور  ہراُس مثبت انقلاب اور تبدیلی کا رخ مو ڑ دیا جاتا رہا ہے جس سے یہاں کے عوام کی بہتری کی امید کی جا سکتی تھی۔

پاکستان بننے کے بعد1947 سے لیکر 1957 تک کا  عرصہ   جاگیردار سیاستدانوں کے استحصال کا ایک لا متناہی سلسلہ اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہے۔ اس استحصال  کے نتیجے میں  حکمرانوں کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں   زبردست اضطراب پیدا ہوا  جس کو  فوج کو آگے لا کر ایوب خان کے ذریعے سےذائل کرنے کی کو شش کی گئی۔ عوام کے ذہنوں میں پیدا ہوتے غصے اور ہیجان کو وقتی طور پر دبا دیا گیا لیکن  1965  کے الیکشنز میں یہ غصہ   ایوب خان کے خلاف محترمہ  فاطمہ جناح کی حمایت کی صورت میں دیکھنے میں آیا اور پھر عوامی ابھار کے نتیجے میں  1968 میں ایوب  خان کو اقتدار سے الگ ہو نا پڑا۔

1967 سے 1977 تک کا دور سیاسی طور بڑا ہیجان  انگیز اور پاکستان کیلئے ابتلاؤں کا دور رہا۔ ایوب خان  اور پھر یحیٰ خان کی آمریت کے خلاف  عوام کا غم و غصہ  پاکستان کے دونوں حصوں یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان  میں اپنی انتہاؤں کو چھونے لگا۔ مشرقی پاکستان کے لو گ جب حکمرانوں سے مایوس ہو ئے تو انہوں نے علیحدگی کی تحریک کو جنم دیا ۔ مشرقی پاکستان کی تحریک حکمران طبقے کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔

مغربی پاکستان کے لوگوں میں سیاسی شعور نے  جوانگڑائی لی تھی وہ پیپلزپارٹی کے قیام پر منتج ہوئی۔ اور پھر پیپلزپارٹی میں عوام کی دلچسپی اور عوامی جذبات کو کنٹرول کرنے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو آگے لایا گیا جنہوں نے اس سیاسی ابھار اور عوام کے بدلتے تیور کو لگام دی۔ بھٹو  صاحب سے جذباتی تقریریں کروا کے ان کو ہیرو بنایا گیا اور پیپلز پارٹی پر اسٹیبلشمنٹ کا ہولڈ کروایا گیا۔ اور اس کے اصل بانیوں کو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ اور اس اٹھنے والے عوامی انقلاب کو ایک بار پھر روک دیا گیا۔بھٹو صاحب نے کہیں اسلامی سوشلزم کا شوشا چھوڑا تو کہیں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیکر مذہبی لوگوں کو ساتھ ملانے کی کو شش کی ۔ اور  نیاآئین بنا کر سیاسی لوگوں کو لالی پاپ دیا گیا۔ اور جب اندرونی اور بیرونی طاقتوں نے دیکھا کہ بھٹو نام کے پٹاخے کا بارود ختم ہو چکا ہے اور اس کی مزید ضرورت نہیں رہی تو بھٹو صاحب کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

اگلےگیارہ سال میں 1977 سے لیکر  1988 تک  افغان جنگ  کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر  عوام کا مقدر بنے ۔ اس جنگ نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کے ساتھ  قوم کی ذہنی صلاحیتوں  کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اسکو  انتہا پسندی کی   طرف مائل کردیا۔جس کے خلاف معاشرہ  وقتاً فوقتا احتجاج کرتا رہا لیکن اس کو دبایا جاتا رہا۔ اس کے باوجود عوام ایک بار پھر سے خود کو اس گھٹن زدہ ماحول سے آزاد کروانے کیلئے سرتوڑ کو ششوں میں لگ گئی ۔

اب کی بار بھٹو کی بیٹی نے اس عوامی سیلاب کے آگے بند باندھا ۔ اپنے والد کی پھانسی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرعوام کے غم و غصے  کو الیکشن بازی اور جمہوریت کا لالی پاپ دے کر ختم کرکے رکھ دیا ۔عام عوام صرف ووٹ دینے اور نعرے لگانے تک ہی محدود رہی ۔ لیکن اس کی محرومیوں کا ازالہ کبھی نہ ہو سکا۔

1988 سے لیکر 1999 تک ملک میں سیاسی نااہلوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیاں آنکھ مچولی رہی اور  ایک بار پھر ملکی حالات اس نہج پر پہنچا دئیے  گئےکہ عوام کا غصہ ان حکمرانوں کے خلاف اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا۔جس کو پھر فوجی آمرپرویز مشرف کے ذریعے  ختم کرنے کی کو شش کی گئی ۔

آمریت کا دور ا یک   بارپھر شروع  ہوا۔ بیرونی قوتوں کے پاکستانی سیاست میں غیر معمولی عمل دخل اور سیاسی بانجھ پن کی بدولت عوام حکومت سے متنفر ہو تی چلی گئی۔

1999 سے2007 تک  یہ پہلا موقع تھا جب عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی بے چینی نے 11 سال کی بجائے صرف 8 سال لئے اوروکلا تحریک کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی ۔ جس کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو دوبارہ سیاسی دھارے میں شامل کرکے روکا گیا۔ وکلا تحریک جو کہ مڈل کلاس نے شروع کی تھی اور مڈل کلاس کے لو گ ہی اس کے روح روا ں رہے لیکن بعد میں سیاسی لیڈروں کے ذریعے اس کو ہائی جیک کیا گیا اور اس کو صرف چیف جسٹس کی بحالی تک محدود کرکے رکھ دیا گیا۔ حالانکہ یہ تحریک پاکستان میں پہلی بار پڑھے لکھے اور باشعور طبقے نے چلائی تھی۔ اور اس کے عروج کے دنوں میں اس کو اٹھا کر پٹے  ہو ئے مہروں  اور ملک   سے بھاگے ہو ئے سیاستدانوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ اور یہ تحریک سوائے سیاسی ماحول میں ایک ہلچل پیدا کرنے کےکسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ نہ بن سکی۔

2007 کے بعد کے اگلے دس  سالوں کا حال مو جودہ  نو جوان نسل اپنےسامنے رو نما ہو تا  دیکھ رہی ہے۔  محترمہ بے نظیر  بھٹوکاقتل  ایک بار پھر        پیپلز پارٹی  کی  حکومت بنانے کا سبب بنا ۔ نواز شریف اور آصف علی  زرداری نے ماضی کی آپس کی دست و گریبان ہونے کی سیاست سے پرہیز کرنے  اور میثاق جمہوریت  پر عملدرآمد کرنے کا  مصمم ارادہ ظاہر کیا ۔ جس کی بدولت پیپلز پارٹی اپنے پانچ سال مکمل کرنے میں کامیاب رہی ۔ لیکن  پیپلز پارٹی کے لو گوں کی کرپشن  ، زرداری صاحب  کے خلاف کیسز ، توانائی کے  بحران نے  عوامی غم و غصے کو اپنی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔

نواز شریف اورآصف علی زرداری کے آپس میں دست و گریبان نہ  ہونے کی وجہ سے  فوج کاحکومت میں عمل دخل کم ہوتا چلا  گیا۔لیکن پاکستان کی  علاقائی صورت حال  ایسی نہیں تھی کہ ملک  کو صرف سیاست دانوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا جاتا۔ اس لئے  جمہوری حکومت کے اگلے پانچ سال شروع ہو نے سے پہلے   ہی اسٹیبلشمنٹ نے   حکومت میں پاور شئیرنگ  کیلئے تیاری کر لی  ۔

اسکے لئے دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں ایک تیسری نئی سیاسی پاور کا ہونا ضروری تھا ۔  تاکہ اس کو  ایک پریشر گروپ کے طور  پر استعمال کیا جاسکے ۔اس لئے  بڑی پلاننگ کے ذریعے مہروں کو آگے بڑھایا گیا۔ حکومت اور کرپشن کی ہاہا کار ،بجلی پانی کا بحران    سیاستدانوں سے نفرت کا سبب بنتا چلا گیا اور ماحول کو ایک بار پھر انقلاب اور تبدیلی کے خوش کن   نعروں سے گرما دیا  گیا۔ اسکے لئے تحریک انصاف اور  طاہر القادری  صاحب کی جماعتوں سے معجون تیار کی گئی۔ جو کہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے طاقت کا سبب بنتی چلی گئی

2013 کے الیکشن  کےنتائج    کو ماننے کے باوجود اس کے خلاف دھاندلی کو بنیاد بنا کر علم بغاوت بلند کیا  جانا اور پھر 126 دنوں کا دھرنا۔ عمران اور قادری صاحب  کے نئے پاکستان کے دعووں  کے  نتیجے میں عوامی جذبوں کو ایک بار پھر چونا لگا یاجانا ۔ اور اسٹیبلشمنٹ کا  اصل طاقت کو اپنے ہاتھ میں لے لینا خود اپنی کہانی آپ بیان کر رہا ہے۔کہ سارا کھیل  بلیوں کو لڑوا کر خود روٹی کو  ہڑپ کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔

اب اگر   عمران اس ساری گیم کو پو ری طرح سمجھ بھی جاتا ہے تو اس کھیل میں  وہ اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ وہ  ہزار خواہش کے باوجود بھی اس سے باہر نکل نہیں پائے گا۔  کیونکہ طاقت اب  خفیہ ہاتھوں میں جا چکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ  ملک کی خارجی  اور داخلی  سیاست  کو پو ری طرح اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے۔  نئے پاکستان کے چکر میں نئے نئے بننے والے سیاست دان  اپنے  اور اپنے دوسرے ساتھی سیاستدانوں کے ہاتھ کاٹ کر   اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں   دے چکے ہیں۔

ملک کی عسکری قوتوں نے ملک سے کرپٹ اور شر پسند عناصر کا صفایا شروع کر دیا ہواہے۔ اور ان کی حمایت کا گراف عوام میں دن بدن اوپر ہوتا چلا جارہا ہے ۔ میڈیا میں ملک کے سپہ سالار    کے ملک کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو  سراہا جارہاہے ۔ اور 2019  تک جب یہ 11 سال مکمل ہو چکےہیں۔ اور 2019   کا سال ایک بار پھر تبدیلی کا سال ہے۔ دیکھیں اسٹیبلشمنٹ براہ راست قوت اور حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے  پرانے نظام کو لپیٹتی ہے  اور اس کی جگہ کوئی نیا  نظام لاتی ہے یا پھر حکومت سے باہر بیٹھی  بلیوں  کو تھوڑی تھوڑی روٹی دے دلا کر اپنا ہمنوا بنا کر کام چلاتی ہے ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ بلیاں بلیا ں ہی رہیں گی ،  اقتدار اور کرسی کی بھوکی رہیں  گی اور عوام کو بے وقوف بناتی رہیں گی۔ اور عوام نئے پاکستان کا خواب دیکھنے کیلئے ایک بار پھر اگلے 11 سال کیلئے سلا  دی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ میرے ملک اور قوم کا حامی و ناصر ہو ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply