جب بھی 14 اگست آتا ہے ‘ میرے وطن کی آزادی طلوع ہوتی ہے، مجھے علامہ اقبال کایہ شعر یاد آنے لگتا ہے:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
اور وجہ یہ ہے کہ شاعر مشرق کی طرح میں بھی ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل سے ناامید نہیں ہوں۔ میں جب کسی سے یہ سنتا ہوں کہ اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے تو مجھے خود ترحمی کے شکار ان لوگوں پر شدید غصہ آتا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ ان سے یہ پوچھوں کہ وہ کون سی چیز ہے‘ جو اس وطن نے انہیں نہیں دی ۔ اس نے انہیں تعلیم نہیں دی؟ امن اور سکون نہیں دیا؟ تحفظ کا احساس نہیں دیا؟ کھانے کو روٹی نہیں دی؟ آگے بڑھنے کو مواقع فراہم نہیں کیے؟ روشن مستقبل نہیں دیا؟ایک آسودہ زندگی نہیں دی؟ میری بات کا یقین نہیں آتا تو ذرا ایک نظر مشرق وسطیٰ پرڈال لیجئے۔ یہ مشاہدہ کیجئے کہ شام‘ عراق‘ لبنان‘ فلسطین‘ لیبیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کس طرح وہ لوگ پناہ کی تلاش میں مار ے مارے پھر رہے ہیں اور سکون کا ایک مامون لمحہ ان کی سب سے بڑی خواہش بن چکا ہے۔ یہ دیکھیے کہ بھارت اور برما (میانمار) میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ یہ دیکھیے کہ بھارتی حکومت نے اہل کشمیر کا جینا کس قدر اجیرن کر رکھا ہے۔ یہ نظر ڈالیے کہ افغانستان کس طرح تباہ وبرباد کر دیا گیا ہے کہ اس کے اپنے باسی وہاں رہنے کو تیار نہیں۔ بھاگ بھاگ کر پاکستان آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ پاکستان ہی ہے‘ جو گزشتہ بارہ پندرہ برس سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کا سامنا کر رہاہے اور کامیابی سے کر رہا ہے۔ ہمارے ساٹھ ستر ہزار سے زیادہ بے گناہ لوگ اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں ‘ لیکن ہمارے قدم کہیں ڈگمگائے نہیں‘ پایہ ء استقلال میں کسی بھی مقام پر کوئی لغزش نہیں آئی۔ ہم اس عفریت سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کا اتنا ہی مصمم عزم اور ارادہ رکھتے ہیں‘ جتنا اس آفت کے نازل ہونے کے بعد شروع دنوں میں رکھتے تھے۔یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت کو اسی افغانستان کے کوہساروں میں پتھروں سے سر ٹکرانے اور خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ ہمارا پاکستان ہی ہے‘ اب دنیا کی واحد سپر پاور جس کے آگے افغانستان کی ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے لیے دست تعاون بار بار دراز کرتی ہے اور ہماری سٹریٹیجک منصوبہ بندی کے سامنے خود کو بے بس پاتی ہے۔یہ وہی پاکستان ہے جو کبھی کرکٹ‘ ہاکی‘ سنوکر اورسکواش کا ایک ہی وقت ‘ ایک ہی زمانے میں چیمپئن رہا۔ جس کے کھلاڑیوں نے حال ہی میں انگلستان میں منعقد کی گئی چیمپئنز ٹرافی اپنے نام کی۔ چیمپئنز کا چیمپئن بن گیا۔ وہی پاکستان جس کے کھلاڑیوں نے کرکٹ میں گوگلی جیسی باؤلنگ تکنیک متعارف کرائی۔ جس کے باؤلرز کے بارے میں رننگ کمنٹری کرنے والے یہ کہا کرتے تھے کہ یہ ہوا میں گیند کو حرکت دینے پر قادر ہیں۔ یہ ہماری سپن اور سوئنگ باؤلنگ کی تعریف تھی۔
وہی پاکستان جس کے کرکٹ کھلاڑیوں نے کئی بار آخری گیند پر چھکا لگا کر حریف کے جبڑوں سے فتح چھین لی۔ وہی پاکستان‘ جس کے باسیوں کے چہرے اپنے ملک کی کسی بھی کھیل میں فتح پر گلاب ہو جاتے ہیں اور آنکھیں سورج کی طرح چمکنے لگتی ہیں۔حب الوطنی پھر کس کو کہتے ہیں؟ یہی تو ہے حب وطنی۔وہی پاکستان جو دنیا بھر کے 192ممالک میں سے اس چنندہ گروپ کا حصہ ہے‘جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس کے جلدی ختم ہو جانے اور جلد بھارت کی جھولی میں جا گرنے کی پیش گوئیاں کرنے والے ہندو لیڈروں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ پاکستان کسی روز دنیا بھر میں سات جوہری طاقتوں میں سے ایک ہو گا اور بھارت کے سامنے سینہ تان کر کھڑ اہو جائے گا۔ وہی جس نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سات ایٹمی دھماکے کرکے بھار ت پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ تر نوالہ نہیں‘ لوہے کے چنے بن چکا ہے۔ کوئی چبانا چاہے تو کوشش کر دیکھے۔
کون سا موسم ہے جو ہمارے ملک پہ نہیں اترتا۔ سردی اتنی پڑتی ہے کہ خون جم جائے ‘ دانت بجنے لگیں اور پھر گرمی بھی اتنی پڑتی ہے کہ بقول میرے دوست سجاد کریم کے نہاتے ہوئے بھی پسینہ آ جاتا ہے۔ بہار اور خزاں کا بھی اپنا ایک مزا اپنی ایک رونق ہے۔ برسات کے موسم میں گرم چائے کے ساتھ پکوڑے کھانے کا مزا کس نے نہیں لیا ہو گا۔ انہی موسموں کی دین ہے کہ ہمیں سارا سال پھل اور سبزیاں ملتی رہتی ہیں اور اب تو ہم اس قابل بھی ہو چکے ہیں کہ بے موسم کی سبزیاں بھی اگا سکتے ہیں۔وہ پاکستان‘ جس کے پہاڑی سلسلے سونے‘ چاندی‘ تانبے اور پتا نہیں کس کس نوعیت کی دھاتوں اور معدنیات سے بھرے پڑے ہیں۔بلوچستان میں ریکوڈک کے علاقے کو ہی کھود لیا جائے تو ہمارے ملک کے دلدر دور ہو سکتے ہیں اور یہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں دنیا بھر میں سونے کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں۔ سوئی کے مقام سے نکالی جانے والی گیس ہم اب تک استعمال کر رہے ہیں۔ ہمارے صحرائے تھر میں کوئلے کا دنیا بھر میں سولہواں بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
ہمارے کھیت آج بھی اتنا اناج پیدا کرتے ہیں ہماری ضروریات سے کہیں زیادہ اور ہمارے کسان اتنے محنتی ہیں کہ پورے ملک کا پیٹ بھرتے ہیں۔کون سی فصل اور کون سا پھل یا سبزی ہے جو یہاں پیدا نہیں ہوتی۔ پاکستان کے باسمتی چاول تو پوری دنیا میں مشہور ہیں۔آج ہمارے سائنس دان نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں اور ہمارے انجینئر اس قابل ہیں کہ بڑے بڑے پروجیکٹ مقامی طور پر ہی مکمل کیے جاتے ہیں۔چند سا ل پہلے تک کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان کے بیچوں بیچ اس طرح میٹرو ٹریک کھڑا ہو جائے گا۔نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسف زئی ہماری قومی زندگی میں دو روشن ترین ستارے ہیں۔ ہمارے نوجوان دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ ہمارے فنکار بھی کسی سے کم نہیں۔ بھارت میں کوئی مہدی حسن‘ کوئی نورجہاں‘ کوئی نصرت فتح علی خان‘ کوئی راحت فتح علی خان نہیں ہے۔ وہ بہترین گانے کے لیے اب بھی ہمارے راحت کے منتظر رہتے ہیں۔
یہ شکوہ کسی حد تک درست ہے کہ کچھ لوگوں نے ہمارے ملک کو خراب کیا ہے‘ لیکن اس کا الزام وطن عزیز پر عائد کرنا بھی مناسب نہیں۔ کچھ خرابیاں ہیں اور کچھ مسائل بھی در پیش ہیں لیکن ان کا حل بھی تو ہم ہی نے تلاش کرنا ہے۔یہ سب سوچیے اور پھر ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کرکے اندازہ لگائیے کہ پاکستان نے ہمیں کیا کچھ دے رکھا ہے۔اس سرزمین پر پروردگار عالم نے ہمارے لیے کون کون سے خزانوں کے دروازے کھول رکھے ہیں اور ہم اس کی یاد سے کتنی بھی غفلت برت لیں ‘ وہ رحمٰن ہمیں عطا کرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ امن‘ سکون‘ رزق‘ آزادی‘ فرصت‘ کیا یہ سب اللہ کی نعمتیں نہیں ہیں۔ اور کیا ہم اس کی ان نعمتوں سے انکار کر سکتے ہیں؟نہیں ‘ کبھی نہیں‘ کسی صورت نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں