• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قرآنی آیات میں بانی اسلامﷺ کی معرفت کی ایک جھلک(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔۔نذ ر حافی

قرآنی آیات میں بانی اسلامﷺ کی معرفت کی ایک جھلک(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔۔نذ ر حافی

اخلاقِ حسنہ

خداوندِ عالم تمام اوصافِ حسنہ اور عظمتوں کا حقیقی مالک ہے۔ حضور اکرمﷺ اس قدر اعلیٰ و ارفع اخلاق کے مالک تھے کہ تمام اوصافِ حسنہ کے خالق و مالک نے بھی آپ کے خُلق کو “خُلقِ عظیم” کہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے سورہ قلم کی آیت ٤:
وَِانَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ(٤) “اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں۔” چونکہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی عظمت اور قدر و قیمت مال و ثروت اور جاہ و حشمت سے ہے، لیکن خدا نے اس آیہ مجیدہ کے ذریعے سے بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیا ہے کہ عظمت خُلق میں ہے مال و دولت میں نہیں ہے۔۔ حضورﷺ کی ذاتِ گرامی کو قرآن مجید نے جہاں پر خُلقِ عظیم قرار دیا ہے، وہیں پر آپ کے خُلق کی جہانِ ہستی کو فیضیاب کرنے کے لئے آپ کو عالمی نبی بھی قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضورﷺ کی نبوّت کے عالمی ہونے کے بارے میں قرآن مجید نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

عالمی نبوّت
خداوند عالم نے حضورﷺ کی نبوّت کو عالمی قرار دیا ہے، البتّہ اس نبوّت کو صرف مومنین پر احسان شمار کیا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے خدا نے قرآن کو عالمین کے لئے بھیجا ہے، لیکن صرف متّقین کے لئے ہی ہدایت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت١٨٥ میں ارشاد پروردگار ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی ُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاس۔ “ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو انسانوں کے لئے ہدایت ہے۔” قرآن مجید نازل تو پورے عالمِ انسانیت کے لئے ہدایت بن کر ہوا، لیکن اس سے ہدایت صرف متّقین ہی حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ٢ میں ارشاد پرور دگار ہے: ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ۔ “یہ وہ کتاب ہے، جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے۔” اس طرح حضورﷺ کے بارے میں ارشاد پروردگار ہے کہ ہم نے آپ کو پورے عالم بشریت کے لئے بھیجا ہے، لیکن آپ کو بھیج کر احسان صرف مومنین پر کیا ہے۔ چونکہ غیر مومن لوگ اس نعمت کو سمجھتے ہی نہیں تو ان پر احسان کس بات کا۔

ملاحظہ فرمائیں سورہ سباء کی آیت٢٨: وَمَا َرْسَلْنَاکَ ِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِیرًا وَ نَذِیرًا وَلَکِنَّ َکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ۔ “اور پیغمبرﷺ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے صرف بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے، یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں۔” چونکہ پیغمبر کی آمد کی حقیقت سے اکثر لوگ بے خبر ہیں تو اس لئے پیغمبر کی بعثت کا احسان صرف اور صرف مومنین سے منسوب کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ آل عمران کی آیت١٦٤: لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ َنْفُسِہِمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ۔ “یقیناً خدا نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے، جو ان پر آیات الہیہ کی تلاوت کرتا ہے، انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ یہ لوگ پہلے سے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔” سورہ اعراف کی آیت١٥٨میں بھی حضورﷺ کو پورے عالم بشریت کے لئے رسول کہا گیا ہے۔ آیت قرآنی ملاحظہ فرمائیں۔ قلْ یَاَیُّہَا النَّاسُ ِنِّی رَسُولُ اﷲِ ِلَیْکُمْ جَمِیعًا۔ “پیغمبر —– کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول اور نمائندہ ہوں۔”

مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورِ اکرمﷺ کی نبوت تو عالمی اور بین الاقوامی ہے، لیکن اس سے فیضیاب فقط مومنین ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سورج تو پوری دنیا میں چمکتا ہے، لیکن اس کی روشنی سے صرف بینا لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، اندھے سورج کی روشنی میں بھی تاریکی جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ چونکہ صرف مومنین ہی حضورﷺ کی قدر و منزلت پہچانتے ہیں اور حضورﷺکی ذات سے فیض اٹھاتے ہیں، اس لئے حضورﷺ پر درود بھیجنے کے لئے بھی صرف مومنین کو ہی کہا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ احزاب کی آیت ٥٦: ا ِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا۔ “بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے مومنین تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔” رسول اکرمﷺ کی ذاتِ مبارک کو قرآن مجید نے عالمی کہنے کے علاوہ لوگوں کے لئے مونس و ہمدرد بھی کہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عوام سے ہمدردی اور شفقت کو کس طرح بیان کیا ہے۔

امت کے درمیان مقام و مرتبہ
خدا تعالیٰ نے بعض انبیاء کو لوگوں کا بھائی کہا ہے۔ جیسے حضرت صالح کے بارے میں سورہ اعراف کی آیت ٧٣ میں فرمایا کہ “ہم نے قوم ثمود کے لئے ان کے بھائی صالح کو بھیجا” اسی طرح حضرت ہود کے بارے میں سورہ ہود کی آیت ٥٠ میں یوں ارشاد فرمایا: “ہم نے قوم ِعاد کے لئے ان کے بھائی ہود کو بھیجا” اور اسی طرح سورہ شعراء کی آیت ١٠٦ میں حضرت نوح کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا: “اس وقت کہ جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا” لیکن پیغمبر اسلام کے بارے میں قرآن مجید نے بھائی کی تعبیر استعمال نہیں کی، بلکہ حضورﷺ کا تعارف قرآن مجید نے یوں کروایا ہے: ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُم۔ “اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے، جو ان ہی میں سے تھا۔” پھر اسی طرح سورہ توبہ کی آیت ١٢٨ میں ارشاد فرمایا: لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُول مِنْ َنفُسِکُمْ عَزِیز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیص عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوف رَحِیم۔ “یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے، جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے، وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے۔”

مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺ اپنی عوام دوستی اور مہربانی کے باعث لوگوں سے اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ قرآن مجید نے آپ کا تعارف بھی اس طرح سے کرایا ہے کہ آپ ان لوگوں کے بھائی وغیرہ نہیں بلکہ خود انہی میں سے ہیں۔ یہ بھی آپ کی نرمی، شفقت اور لوگوں کے لئے انس و ہمدردی کا جذبہ ہی تھا کہ جس کی بناء پر سورہ نساء کی آیت ٦٤میں یوں فرمایا گیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُااللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَاجَدُوااللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ “اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے، مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپﷺ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔” اسی طرح سورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ میں حضورﷺ کو عالمین کے لئے رحمت کہا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ ِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ۔ “اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔” حضورﷺ کی لوگوں سے ہمدردی، شفقت اور رحمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے رسولﷺ کی اطاعت بھی لوگوں کے لئے لازمی قرار دی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی اطاعت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کی اطاعت:
حضورﷺ کی اطاعت کو اللہ نے نہ صرف اپنی اطاعت قرار دیا ہے بلکہ محبوبِ خدا بننے کے لئے اطاعتِ پیغمبرِ اسلامﷺ کو لازمی قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ آل عمران کی آیت ٣١: قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اﷲُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم۔ “اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔” جس طرح حضورﷺ کی اطاعت کو قرآن نے خدا کی محبت اور بخشش و مغفرت کے لئے لازمی قرار دیا ہے، اسی طرح حضورﷺ کی نافرمانی اور عدمِ اطاعت کو بھی خدا کی ناراضگی اور کفر قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں سورہ آل عمران کی ہی آیت ٣٢ ملاحظہ فرمائیں: قُلْ َطِیعُوا اﷲَ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَِنَّ اﷲَ لاَیُحِبُّ الْکَافِرِین۔ “کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے۔” قرآن مجید نے حضورﷺ کی اطاعت کرنے پر اس قدر تاکید کی ہے اور مومنین کو خبردار کیا ہے کہ ہرگز اپنے آپ کو رسولﷺ پر مقدّم نہ کریں اور رسولﷺ سے آگے نہ بڑھیں۔ چنانچہ سورہ حجرات کی آیت ١ میں ارشاد پروردگار ہے: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ اﷲِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ سَمِیع عَلِیم۔ “ایمان والو خبردار خدا اور رسول سے آگے نہ بڑھنا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے۔”

خداوندِ عالم نے جس طرح رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو سخت عذاب سے ڈرایا ہے۔ اسی طرح رسول کی اطاعت کرنے والوں کو بھی انعامات و اکرامات کی بشارت دی ہے۔ اس سلسلے میں سورہ نساء کی آیت ٦٩ ملاحظہ فرمائیں: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ۔ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا۔ “اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا، جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں۔ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔” قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی رسولﷺ کی اطاعت کئے بغیر اللہ کی اطاعت کا دم بھرے تو اصل میں وہ اطاعت ِ الٰہی کا محض ڈھونگ رچا رہا ہے اور خدا کے نزدیک ایسے شخص کا اطاعت کا دعویٰ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور ایسے لوگوں کو جہنّم میں دھکیلا جائے گا۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت٦٦ میں ارشاد پروردگار ہے: یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُولُونَ یَالَیْتَنَا َطَعْنَا اﷲَ وََطَعْنَا الرَّسُولَ۔ “جس دن ان کے چہرے جہنم کی طرف موڑ دیئے جائیں گے اور یہ کہیں گے کہ اے کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔”

قرآن مجید کے مطابق حضورﷺ کے فیصلے کے بعد کسی کو چون و چرا کرنے کی اجازت نہیں ہے، چونکہ اطاعت کا تقاضا یہی ہے کہ حکمِ رسولﷺ کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ اس ضمن میں سورہ احزاب کی آیت٣٦ ملاحظہ فرمائیں: وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَةٍ ِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُولُہُ َمْرًا َنْ یَکُونَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ مِنْ َمْرِہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اﷲَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِینًا۔ “اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا، وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔” مندرجہ بالا آیات سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی اطاعت ہی اصل میں خدا کی اطاعت ہے اور اگر کوئی رسولﷺ سے دوری اختیار کرتا ہے تو وہ دراصل قرآن سے دوری اختیار کرتا ہے، چونکہ حضورﷺ کی اطاعت اور پیروی کا حکم قرآن مجید نے ہی دیا ہے۔ قرآن مجید نے صرف حضورﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضورﷺ کے ادب و احترام کا بھی حکم دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے ادب و احترام کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔

امت پر ادب و احترام کا وجوب
خداوندِ عالم نے لوگوں کو پیغمبرﷺ کا احترام بجا لانے کی از حد تاکید فرمائی ہے۔ بعض لوگ پیغمبرﷺ سے اس حد تک بے تکلّف ہوا چاہتے تھے کہ کبھی آرام کے وقت میں مخل ہوتے تھے اور کبھی بزم ِپیغمبر ﷺ میں پیغمبر کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرتے تھے اور کبھی پیغمبرﷺ سے بلاضرورت سرگوشی کرتے تھے، قرآن مجید ان تمام امور کو خلاف ادب و احترام شمار کیا ہے اور لوگوں کو ایسی حرکات سے منع فرمایا ہے۔ نمونے کے طور پر سورہ حجرات کی چند آیات ملاحظہ فرمائیں۔ َاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْفَعُوا َصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ َنْ تَحْبَطَ َعْمَالُکُمْ وََنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ(٢) اِنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ َصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ ُوْلَئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی لَہُمْ مَغْفِرَة وََجْر عَظِیم(٣) ِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ َکْثَرُہُمْ لاَیَعْقِلُونَ(٤) وَلَوْ َنَّہُمْ صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَہُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم(٥)

(2)ایمان والو خبردار اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات بھی نہ کرنا، جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔ (3)بیشک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہے اور ان ہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ (4)بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں، ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ہے۔ (5)اور اگر یہ اتنا صبر کر لیتے کہ آپ نکل کر باہر آجاتے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اس کے علاوہ حضور کے گھر میں زیادہ دیر رکنے اور گپیں ہانکنے سے بھی لوگوں کو منع فرمایا ہے اور حضورﷺ کی بیویوں کو بھی خاص احترام دیا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ازواج پیغمبر سے پردے کے پیچھے سے سوال کریں، نیز ازواج پیغمبر سے پیغمبرﷺ کے بعد کسی اور کا نکاح کرنا بھی ممنوع قرار دیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں سورہ احزاب کی آیت ٥٣: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ ِلاَّ َنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ ِلَی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ ِنَاہُ وَلَکِنْ ِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَمُسْتَْنِسِینَ لِحَدِیثٍ ِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِ مِنْکُمْ وَاﷲُ لاَیَسْتَحْیِ مِنْ الْحَقِّ وَِذَا سََلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسَْلُوہُنَّ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ ذَلِکُمْ َطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ وَمَا کَانَ لَکُمْ َنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اﷲِ وَلاََنْ تَنْکِحُوا َزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ َبَدًا ِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اﷲِ عَظِیمًا(٥٣) (53)اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا، جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا، ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجائو اور جب کھالو تو فوراً منتشر ہو جاو اور باتوں میں نہ لگ جائو کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں، حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے۔”

اسی طرح سورہ مجادلہ کی آیت ١٢ میں لوگوں کو حضورﷺ کے ساتھ خواہ مخواہ سرگوشی کرنے سے روکنے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آئندہ جو کوئی بھی حضور سے سرگوشی کرے، وہ حتّی المقدور صدقہ بھی دے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ مجادلہ کی آیت ١٢: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْہَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِانَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم۔ “ایمان والو! جب بھی رسول کے کان میں کوئی راز کی بات کرو تو پہلے صدقہ نکال دو کہ یہی تمہارے حق میں بہتری اور پاکیزگی کی بات ہے پھر اگر صدقہ ممکن نہ ہو تو خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

خلاصہ
ہمارے پاس معرفت کا سب سے اہم منبع قرآن مجید ہے۔ توحید و نبوت، مبدا و معاد، میزان و صراط، حیات و کائنات اور ملکوت و موجودات کی صحیح شناخت صرف اور صرف قرآن مجید سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید اس لئے مہجور نہیں ہے کہ لوگ اس کی تلاوت نہیں کرتے بلکہ عالمی سچائی یہ ہے کہ دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کی ہی کی جاتی ہے۔ قرآن مجید اس لئے مہجور ہے کہ ہم حقائق و عقائد کے بارے میں قرآن مجید سے معرفت حاصل نہیں کرتے اور ہمارے اس تساہل کا سایہ بانی اسلامﷺ کی معرفت پر بھی پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں پیغمبرِ اسلام کی معرفت اور شناخت بھی قرآن مجید کے بجائے دیگر منابع سے بیان کرنے کا رواج زیادہ ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے پیغمبر کی شناخت اور معرفت کو قرآن مجید سے حاصل کریں، چونکہ ہمارے پیغمبرﷺ کی معرفت کا سب سے اہم منبع قرآن مجید ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہمیں اپنے نبی اکرمﷺ کی صحیح معرفت نصیب ہوگی تو پھر ہمارے اعمال بھی اس معرفت کے مطابق درست ہوتے جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply