کشمیر ۔ انڈین کشمیر (30)۔۔وہاراامباکر

انڈیا کے کشمیریوں کے بارے میں بھروسہ نہ ہونے کی وجہ یہ رہی ہے کہ واضح طور پر بہت سے کشمیری 1947 میں پاکستان سے الحاق کے حق میں تھے۔ وادی میں 1988 میں چھڑنے والی بغاوت بھی واضح کرتی ہے کہ کشمیری انڈیا سے خوش نہیں رہے۔ کئی پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں۔ کئی آزاد ریاست چاہتے ہیں۔
شیخ عبداللہ آزاد ریاست اور انڈیا سے الحاق کے درمیان اپنا موقف بدلتے رہے۔ انہوں نے نومبر 1951 میں کشمیر اسمبلی میں آزادی کے آپشن کا آئیڈیا پیش کیا کہ اس کو پاکستان اور انڈیا کے بیچ سوئٹزرلینڈ جیسا یونٹ ہونا چاہیے۔ نہرو سے بھی آزادی کی بات کی۔ نہرو کا موقف یہ تھا کہ اس پر بات کی جا سکتی ہے کہ کتنی خودمختاری دی جائے لیکن مکمل آزادی ناقابلِ قبول ہے۔ کشمیر پاکستان کو پلیٹ پر رکھ کر پیش کر دینا بھی اس سے بہتر آپشن ہو گی۔
انڈیا نے کشمیر میں وہ حربہ بھی استعمال کیا جو دوسرے ممالک بھی پسماندہ علاقوں میں کرتے رہے ہیں۔ یعنی علاقے کو فیاضی سے فنڈز دینا۔ اور یہاں پر بھی وہی ہوا جو دوسرے ممالک میں ہوتا رہا ہے۔ یہ فنڈ مقامی بااثر لوگوں کی کرپشن اور نااہلی کی نذر ہوتے رہے جو “حقوق” کے نام پر مزید اور مزید کا تضاضا کرتے رہے۔ اس طریقے سے خاطرخواہ حمایت نہیں حاصل کی جا سکی۔
اپنے ساتھ رکھنا انڈیا کی اولین ترجیح تھی۔ اس کے لئے مداخلت کی جاتی رہی۔ مقامی سیاستدانوں کو کنٹرول کرنے اور آواز دبانے کے طریقے استعمال ہوتے رہے۔ پروانڈیا سیاستدانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ فوج کی بھاری تعداد اس وادی میں ابتدا سے ہی رہی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی تین جنگوں میں کشمیری یہ دیکھ چکے تھے کہ انڈیا کی آرمی علاقے کا دفاع بآسانی کر سکتی ہے۔ 1988 سے جاری بے چینی سے بھی واضح ہو چکا ہے کہ باوجود بھرپور کوشش کے، انڈیا کا علاقے پر کنٹرول مکمل ہے۔
آزادی کے وقت اس علاقے میں کوئی جمہوری روایت نہیں تھی، اظہارِ رائے کی آزادی نہیں تھی۔ مہاراجہ سے اختلاف کا مطلب جیل تھا۔ مہاراجہ کے بعد جمہوری روایات یہاں پر آسانی سے نہیں آ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست میں کشمیر حاوی رہا۔ جموں میں یہ تاثر بننے لگا کہ ان کے خلاف تعصب برتا جا رہا ہے۔ ایک اور خوف تھا کہ استصوابِ رائے نہ ہو۔ جموں میں مارچ 1949 میں پرجا پریشاد کے نام سے پارٹی بنی جس کا مطالبہ تھا کہ جموں کو استصواب کا حق الگ دیا جائے۔ پرجا پریشاد کا دوسرا مسئلہ نیشنل کانفرنس کی زرعی اصلاحات سے تھا جو کشمیری حکومت نے موروثی جاگیرداری کے نظام کے خلاف کی تھیں۔ جموں کو ریاست سے الگ کرنے کے حق میں تحریک 1953 میں شروع ہوئی، جس کو سرینگر حکومت نے سختی سے کچل دیا۔ تحریک کے سربراہ شیاما مکھرجی سرینگر جیل میں زیرِ حراست موت نے جموں میں اینٹی عبداللہ تحریک کو ہوا دی۔ اس کے نتیجے میں ریاست کے گورنر کرن سنگھ نے اگست 1953 میں عبداللہ کو برطرف کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لداخ کشمیر کے حاوی ہونے سے خود نہیں رہا۔ کشمیری اسمبلی کے 87 ممبران کے ایوان میں اس کے پاس صرف دو نشتیں تھیں جن کو 1998 میں بڑھا کر چار کر دیا گیا۔ لداخیوں نے نہرو کو 1949 میں باقاعدہ درخواست کی کہ انہیں کشمیریوں سے آزادی دلوائی جائے اور اس علاقے کو پنجاب میں شامل کر دیا جائے۔ لداخ کی دو تحصیلیں لداخ اور کارگل تھیں۔ لداخ میں بدھ اکثریت تھی جبکہ کارگل میں شیعہ مسلمان اکثریت میں تھے۔ اس علاقے کا زیادہ رابطہ گلگت بلتستان سے رہا تھا۔ کشمیر اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے اور نہ ہی دہلی اور نہ ہی سرینگر حکومت سے کوئی باقاعدہ رابطہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ انتہائی پسماندہ رہ گیا۔ لداخ میں 1995 جبکہ کارگل میں 2003 میں میونسپل حکومت قائم کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیریوں کے اس علاقے کی سیاست پر حاوی ہونے کی وجہ نہرو کی پالیسیاں تھیں کیونکہ ان کا تعلق اس علاقے سے تھا اور گہری جذباتی وابستگی تھی۔ شیخ عبداللہ کے ساتھ ان کی دوستی کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان دونوں کو مہاراجہ ہری سنگھ اور پاکستان پسند نہیں تھے۔ نہرو نے ذاتی طور پر مہاراجہ پر دباوٗ ڈال کر عبداللہ کو جیل سے رہائی دلوائی تھی اور وزیرِ اعظم بنوایا تھا۔ یہ دوستی 1953 تک رہی جب شیخ عبداللہ برطرف کر دئے گئے۔ اس کے بعد شیخ عبداللہ جیل کے اندر اور باہر آتے جاتے رہے۔
فروری 1954 میں انڈین جموں و کشمیر اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعے ریاست کے انڈیا سے الحاق کی توثیق کر دی اور بھارتی حکومت سے قریبی تعلقات بنانے کی درخواست کی۔ اسی سال بھارتی آئین کا اس ریاست پر باقاعدہ اطلاق کر دیا گیا۔ 1957 میں نئی کشمیر اسمبلی نے متفقہ طور پر جموں و کشمیر آئین منظور کیا۔ اس کے ابتدائیہ میں اس ریاست کو بھارت کا لازمی حصہ قرار دیا گیا تھا۔ مئی 1958 میں انڈین پولیس اور انڈین بیورکریسی کا دائرہ کار اس ریاست تک وسیع کر دیا گیا۔ 1959 میں آئینی ترمیم کے ذریعے انڈین الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں بھی ریاستِ جموں و کشمیر شامل ہو گئی۔ 1959 میں ہی غیرکشمیریوں کے لئے پرمٹ سسٹم کا خاتمہ ہوا۔ 1961 میں غیرکشمیریوں کے لئے کمرشل مقصد کے لئے زمین حاصل کرنے کی اجازت مل گئی اور انڈین سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی۔ 1954 سے 1974 تک کل 138 قوانین منظور ہوئے جن کا تعلق بھارتی ریاست کے ساتھ انٹیگریشن سے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر 1951 سے 1989 تک آٹھ انتخابات ہوئے۔ دو انتخابات (1977 اور 1983) کو آزادانہ اور منصفانہ سمجھا جاتا ہے۔ باقی میں دھاندلی یا بددیانتی کے الزامات لگتے رہے۔
تیسری پاک بھارت جنگ کے بعد لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف تسلیم کر لیا گیا تھا کہ پاکستان کسی بھی طرح کے ملٹری حل کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور اس کے بعد کشمیری سیاستدانوں کی انڈیا کے بارے میں پوزیشن خاصی تبدیل ہو گئی۔
نومبر 1974 کو اندرا گاندھی حکومت کے ساتھ ہونے والے اہم معاہدہ کشمیر پر اتفاق کر لیا گیا۔ جموں و کشمیر کے سربراہ کے عہدے کا نام وزیرِ اعظم سے بدل کر وزیرِ اعلیٰ کر دیا گیا۔ انڈیا کے تمام ایکشنز کو قانونی تحفظ دے دیا گیا۔ اگلے آٹھ سال کشمیر میں سیاسی استحکام اور امن رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستمبر 1982 کو شیخ عبداللہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد اس علاقے میں سیاسی خلا پیدا ہو گیا۔
شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ نے راجیو گاندھی سے اتحاد کر لیا۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے ملکر مارچ 1987 کا انتخاب لڑا۔ اس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزام لگے۔ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ دس سے زیادہ سیٹوں کی توقع کر رہی تھی، اسے صرف پانچ سیٹیں ملیں۔
یہی وقت انڈیا میں معاشی کساد بازاری کا تھا۔ بڑے پیمانے پر پڑھی لکھی آبادی میں بیروزگاری اور پھر دھاندلی۔۔۔ کشمیر میں بغاوت نے جنم لیا۔ بہت تیزی سے امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی۔ جمہوریت کو معطل کر دیا گیا۔ گورنر راج کا نفاذ ہو گیا۔ گورنر جگموہن کے جابرانہ اور سخت اقدامات سخت ناپسند کئے گئے۔ اگلے کئی برس تک وادی میں گڑبڑ رہی۔
اس کو 1988 کی بغاوت کہا جاتا ہے جو 1989 میں پرتشدد ہو گئی۔ انڈیا نے پیراملٹری فورسز کی بھاری تعداد کشمیر بھیج دی۔ تین لاکھ فوجیوں نے بالآخر حالات پر قابو پا لیا۔ لیکن انڈیا کو سخت مسائل کا سامنا رہا۔ 1993 میں چھبیس گروپس نے ملکر آل پارٹی حریت کانفرنس تشکیل دی۔ اس میں وہ بھی تھے جو کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرتے تھے اور وہ بھی جو پاکستان کے ساتھ الحاق کا۔ پاکستان نے پروپاکستان گروپس کو سپورٹ کیا (پاکستان کے مطابق اخلاقی اور سفارتی طور پر، انڈیا کے مطابق اسلحے اور دوسری امداد سے بھی)۔ اس بغاوت میں پچاس ہزار لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کشمیریوں کی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہوئی۔ 1999 کے قریب تک “جنگ کی تھکن” آ چکی تھی۔ بڑی حد تک وادی نارمل ہو گئی تھی۔ 1996 کے انتخابات میں صرف دس فیصد آبادی نے شرکت کی تھی لیکن 2002 میں ٹرن آوٹ چوالیس فیصد تھا۔ ان انتخابات کو بڑی حد تک منصفانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ان انتخابات میں ملکر حکومت بنائی۔ 2008 میں شیخ عبداللہ کے پاتے عمر عبداللہ وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا کی آمد نے کمسن اور نوجوان آبادی کو پھر متحرک کیا۔ 2010 کے بعد کشمیر میں اینٹی انڈیا احتجاج زور پکڑنے لگے۔
انڈین حکومت نے بڑی تبدیلی 2018 میں کی جب کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ کر کے 1952 سے اس ریاست کو دیا گیا سپیشل سٹیٹس ختم کر دیا اور پھر 2019 میں اس کو سٹیٹ کا درجہ ختم کر کے Union territory بنا دیا۔ (انڈیا میں ایسے چھ مزید علاقے ہیں جن میں دہلی، ہماچل پردیش، منی پور، تری پورہ، لکشدویپ اور جزائرِ انڈیمان ہیں)۔
جنوبی ایشیا میں “اقلیت” ایک مسئلہ رہا ہے اور اس کا تعلق کمیونیٹی سے ہے۔ مسلمان انڈیا میں اقلیت ہیں لیکن کشمیری مسلمان اس ریاست میں حاوی رہے۔ پنڈت کشمیر میں اقلیت تھے۔ ریاست میں جموں اور لداخ والے بھی اقلیت تھے۔ اس خطے کا ایک چیلنج یہ رہا ہے کہ اقلیت کا اعتماد کیسے حاصل کیا جائے۔ یہ مسئلہ اس خطے کی ہر حکومت کا ہے جس میں جموں و کشمیر کی حکومت بھی تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر حکومت کو ہی زیادہ سے زیادہ بھی اس میں جزوی کامیابی ہی حاصل ہوئی ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف انڈیا اور پاکستان نہیں بلکہ ہر علاقے اور کمیونیٹی کا ہے۔ کسی ایک کمیونیٹی میں “پسا ہوا طبقہ” کسی اور کمیونیٹی میں اکثریت میں ہوتا ہے تو وہاں “پیسنے والا” کردار اختیار کر لیتا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply