چونکہ ماہ رمضان کی آمد آمد ہے تو میں نے بھی اکثر ‘موسمی’ مسلمانوں کی طرح دیگر کئی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنے حلقہ احباب پر بھی نظر ثانی کی ہے۔
اسی ضمن میں کافی عرصے بعد کل ایک مفتی صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔مفتی صاحب جو کہ میرے پرانے واقف کار ہیں،عملی و مذہبی زندگی میں میری کاکردگی پر نالاں نظر آئے اور کہنے لگے کہ رانا صاحب آپ جیسا جگاڈی مسلمان میں نے نہیں دیکھا۔
میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو خود ہی میرے تجسس کو دور کرتے ہوئے بولے کہ آپ بالکل ان لوگوں کی طرح ہیں جو سارا سال ٹیکس چوری کرتے ہیں،اس امید پر کہ جب ٹیکس امینسٹی سکیم آئے گی تو اسکا فائدہ اٹھا کر دوبارہ پاک صاف ہو جائیں گے۔
غالبا ً ان کا اشارہ عام دنوں میں میری سُستی اور ماہ رمضان میں میری غیر معمولی پھرتیوں کی طرف تھا۔
میں نےگفتگو کا رخ کسی اور طرف موڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے لب کشائی کی کہ جو کام ایک مہینے میں ہو سکتا ہے اس کے لئے پورا سال قدغنیں بھلا کون برداشت کرے؟
مفتی صاحب تو جیسے تاک میں بیٹھے ہوئے تھے،میرا سوال ختم ہونے سے پہلے اپنا سوال داغ ڈالا کہ برخوردار کیا گارنٹی ہے کہ یہ مہینہ ہر سال ہر کسی کو نصیب ہوگا؟ میں اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔
پھر اس یکطرفہ گفتکو کو کہ جس میں میری کوئی دلچسپی نہ تھی،خود ہی طول دیتے ہوئے بولے کہ فجر آپ پڑھتے نہیں اور ظہر کی دس رکعتوں میں سے چار فرض پڑھ کر گلو خلاصی کرلیتے ہیں،بقیہ نمازیں بھی تب ہی پڑھتے ہیں جب کوئی اور کام نہ ہو،گویا خدا آپکی ترجیحات کی فہرست میں سب سے آخری مقام حاصل کرسکا۔
مفتی صاحب نے سانس لی اور گویا ہوئے کہ اگر گناہ کو گناہ سمجھ کر کیا جائے تو آدھی اصلاح اسی میں ممکن ہے۔
وہ تو شکر ہے کہ مفتی صاحب نے اپنے اعتراضات محض میری ذات کی حد تک محدود رکھے،ورنہ غصے میں وہ اکثر ادھر اُدھر بھی نکل جاتے ہیں۔
اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا تھا کیونکہ میں کبھی بھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اتنی دیر محو ِ گفتگو نہیں رہا تھا۔
جانتے ہیں یہ مفتی صاحب کون ہیں؟ یہ مفتی ہے میرا “ضمیر”۔ ۔ جی میرا ماننا ہے کہ سب سے بڑا مفتی انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے۔آپ جب کبھی زندگی میں خود احتسابی کرنا چاہتے ہوں یا “صحیح ، غلط” اور”جائز و،ناجائز” میں تذبذب یا الجھن کا شکار ہوں تو اپنے اس “مفتی اعظم” کے ہاں ضرور تشریف لے جائیے گا،انشاء اللہ بہترین فتویٰ ہاتھ لگے گا۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں