جسٹس فائز عیسٰی نشانے پر ۔۔۔ محمد اشتیاق

جسٹس فائز عیسیٰ نے دھرنہ کیس میں افواج کے ملازمین کو ملوث قرار دیاتھا۔ اس فیصلے میں تینوں افواج کے سربراہان کوکہا گیا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ان ملازمین کی تفتیش کریں اوران کے خلاف ایکشن لیں تا کہ ان اداروں کا امیج بہتر ہو سکے۔ ان اداروں کو سیاسی سرگرمیوں سے بالاتر ہو کہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانی چاہییں۔

اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست جسٹس فائز عیسٰی اور ان کے ساتھی جج کے سامنے ہی پیش ہونی ہے۔ جس کی تاریخ کا فیصلہ چیف جسٹس نے کرنا ہے جس کا فیصلہ ابھی تک چیف جسٹس نے نہیں کیا۔

اس دوران ایک پیش رفت یہ سننے میں آ رہی ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف جوڈیشیل کونسل میں ایک ریفرنس دائر ہو گیا ہے۔ ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر یہ ریفرنس دائر ہوتا ہے تو شائد وہ اس نظر ثانی والی درخواست کو نہ سن سکیں۔ اس طرح بالا دست اداروں کے ان اہلکاروں کے خلاف کاروائی رک جائے گی جو سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی زیرو زبر میں ملوث ہیں۔

لگتا ہے کہ دفاعی اداروں کے سربراہان نے ان کی پوری بات نہیں سنی۔ انہوں نے جو ایکشن لینے کا کہا تھا وہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تھا نہ کہ سیاسی گرمیوں میں ملوث نہ ہونے والے ججوں کے خلاف۔ بات پوری نہ سنی جانے کی وجہ سے فائز عیسٰی خود زد میں آگئے ہیں کہ وہ بھی سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں آلہ کار بننے سے انکاری رہے ہیں۔ موجودہ دور میں جو دھرنہ ون (انگلی والا) سے شروع ہوا ہے یہ بات طے پا چکی ہے کہ آپ جج بن کے سیاسی ایجنڈے یا “انتظامی یا عسکری” ایجنڈا کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا کو آگے بڑھا کر “باعزت” ریٹائر ہو کہ کسی بیرون ملک کی شہریت بھی لے سکتے ہیں لیکن غیر جانبدار یا آئینی بنیادوں پہ حقیقی فیصلے کر کے اس ملک میں “باعزت ” نہیں رہ سکتے۔

جسٹس شوکت صدیقی نے اس سے زیادہ سنگین الزامات ایک حاضر سروس جنرل پہ لگائے لیکن ان کے الزامات پہ کمیشن بنانے کی بجائے ان کو جوڈیشل کونسل کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔ کیا ان کے الزامات کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے تھی؟ یہاں گائے کے پلاٹ میں گھسنے کی تحقیق کے لئے انکوائری کمیٹی بن جاتی ہے لیکن “گائے” کے قانون میں گھسنے پہ انکوائری کمیٹی نہیں بن سکتی۔ اس سے زیادہ اس ملک میں قانون اور آئین کی بے حرمتی کیا ہوگی؟

شائد جو لوگ اداروں کی سیاست میں مداخلت کو غلط کہتے ہیں وہ غلط ہیں۔ اداروں کو ہدایات دینا کہ وہ اپنے آپ کو سیاست سے پاک ہیں یہی غلطی ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا ادارے اپنے آپ کو سیاست سے پاک کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ان کو اس مداخلت سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کو چھوڑنا چاہتے ہیں؟ برسبیل تذکرہ ایک سابق چیف کے بارے خبر ہے کہ اس نے آسٹریلیا میں ایک جزیرہ خریدا ہے۔ ملک سے باہر اثاثوں میں پتہ نہیں اس کا شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ واللہ عالم بالصواب۔

اس سارے قصے میں سب سے دلچسپ کردار حکومت کا ہے بشرطیکہ آپ اس کو حکومت کہنا چاہیں۔ پالیسی اور کسی ویژن کے بغیر، ریاست کی آئینی پابندیوں کے ادراک کے بنا، خود پسندوں اور بدکردار افراد پہ مشتمل ایک کٹھ پتلی ٹولہ ہے جس کو حکومت کرنا آسان لگ رہا ہے۔ وہ حکومت جو اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ جس کے ملنے پہ عمر بن عبدالعزیز روتے ہوئے بستر میں گھس گئے تھے (معافی چاہتا ہوں اتنی بڑی شخصیت کا ذکر ان پست لوگوں کے ساتھ کرنے پر)۔ ان کو حکومت آسان لگ رہی ہے کیونکہ ان کو کچھ کرنا ہی نہیں صرف “انگلی ” کے اشارے پہ گیند اٹھا کہ لانی ہے۔ معیشت اور خزانہ آئی ایم ایف نے چلانا ہے اور باقی کام۔۔۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے اس دفعہ گیند اٹھانے کے لئے اشارہ جوڈیشیل کونسل کی طرف ہے۔ دیکھتے حکومت گیند اٹھانے کب پہنچتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے بہادر وزیر اعظم اس مملکت کے نصیب میں پہلے کبھی نہیں رہا، یہاں تک کہ جونیجو بھی نہیں اور ظفراللہ خان جمالی بھی نہیں۔

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply