سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب رئیسانی کا وہ مشہور اور معروف جملہ کہ “ڈگری ڈگری ہوتاہے چاہے اصلی ہو یا نقلی”، یہ جملہ مجھے حکومت گلگت بلتستان پر بھی صادق آتا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ۔۔۔یقیناًقارئین کا سوال ہوگا! لہذا راقم کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ مملکت پاکستان کے دستور اور تنازعہ کشمیر کو سامنے رکھ کرحال غم سنائے تاکہ کسی کو مذاق یا مبالغہ نہ لگے۔یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چار صوبے ہیں اور وفاق چاروں صوبوں کی اکائی ہے ،ساتھ ہی آزاد ریاست جموں کشمیر کی ریاستی شناخت اور قومی تشخص کی قانونی حیثیت بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے لیکن ایک ایسا خطہ جو رقبہ، جغرافیہ ، قدرتی وسائل ، عظیم گلیشرز،سیاحت اور دفاعی اعتبار سے دنیا کے چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے جسے گلگت بلتستان کہا جاتا ہے،اسے آپ 2009پیکج سے پہلے نادرن ایریا کے نام سے جانتے تھے لیکن پیپلز پارٹی نے اس خطے کے حوالے سے ماضی میں کچھ ایسے فیصلے بھی کیے جس کے سبب یہ خطہ اس وقت ایک چراگاہ بنا ہوا ہے لیکن اس پارٹی نے اپنے ہر دور میں یہاں کے غریب عوام کو ایمپاور کرنے اور اس خطے کو قومی دہارے میں لانے کے لئے کچھ حد تک مثبت کام بھی کیا ہے جس میں سب سے اہم فیصلہ اس خطے کی تابناک قومی شناخت جو تقسیم کشمیر کے بعد ختم ہوچُکی تھی جسے بحال کرکے گلگت بلتستان کا نام دیا۔ مذکورہ پیکج کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے پہلی بار اس خطے کو آزاد حیثیت دے کر یہاں الیکشن کروائے گئے لیکن یہ پیکج بھی اس خطے کی شناخت کے حوالے سے مکمل نہیں کیونکہ متنازعہ حیثیت کے سبب اس پیکج کی بنیاد پر دستور پاکستان میں بغیر کسی ترمیم کے صدارتی حکم نامے کے تحت اس خطے پرایک ایسا نظام نافذ کیا گیا جسے صوبائی طرز کا سیٹ اپ کہا گیا۔
گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جو دنیا کی تمام قوموں سے ہٹ کر یعنی دنیا میں قومیں الگ ہونے کے لئے جہدوجہد کرتی ہیں لیکن یہاں پچھلے ستر سالوں سے ضم ہونے کے لئےپُر امن تحریک چل رہی ہے ،لیکن سُننے والا کوئی نہیں لہذا یہ طرزی نظام بھی کسی حوالے سے یہاں کے عوام کو مطمئن نہ کرپائے۔ دستور پاکستان اور UNCIPریزولیشنز کی رو سے گلگت بلتستان آج بھی سابق ریاست جموں کشمیر کی ایک اہم اکائی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے جب بھی اس خطے کو قومی دہارے میں شامل کرنے کے لئے سیاسی نعرہ لگایا جاتا ہے، دنیا بھر میں مقیم کشمیری یک زبان ہو کر نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ لیکن گلگت بلتستان کے عوام کا اس حوالے سے نظریہ اور دلیل بالکل ہی مختلف ہے ،جس میں کچھ حقائق اور کچھ اس خطے کو محروم رکھنے کے لئے عوام کو گمراہ کرنے والی قوتوں کے نظریات اور نعرے بھی شامل ہیں۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تقسیم برصغیر کے بعد ریاست جموں کشمیر میں جو صورت حال پیدا ہو گئی تھی ،جس کے بعد مہاراجہ نے اس ریاست کابھارت کے ساتھ الحاق کیا لیکن اُس الحاق کے مندرجات کیا تھے ہمیں اس سے کوئی سرروکار نہیں لیکن آج بھارت اُسی الحاق کی بنیاد پر گلگت بلتستان لداخ اور جموں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں، اُس الحاق کے نتیجے میں ریاستی فوج نے بغاوت کا علم بلند کرکے الحاق بھارت سے انکار کرتے ہوئے مسلح جدوجہد کے ذریعے یکم نومبر 1947کو جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی۔
یکم نومبر کی آزادی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچُکا ہے لیکن اگر قانونی حوالے سے مختصراً ذکر کریں تو دنیا کے اندر کسی بھی قسم کی لین دین ،ٹیبل ٹاک، معاہدات ،قانو نی دستاویزات کے ذریعے کی جاتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ جب ہم گلگت بلتستان کے الحاق کی بات کرتے ہیں تو ایسا کچھ نظر نہیں آتا بلکہ تاریخ کے سیاہ باب میں خط جری سے یہ لکھا ہوا ہے کہ ایک ملک کے صدر نے صدارتی عہدے کو سرینڈر کرکے راشن ڈپو کے انچارج کے طور پر عہد ہ قبول کیا اورایک غیر مقامی تحصیلدار نے یہاں آکر پورا نظام سنبھالا اور یہاں FCR جیسا کالا قانون نافذ کیا اور الحاق کا نعرہ لگایااور اُس وقت کے عوام نے اسے سچ سمجھ کر خاموشی اختیار کی۔ اب یہاں اگر ہم الحاق کی بات کرتے ہیں جیسے کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ایسا ہوا تھا لیکن ستم ظریفی دیکھیں اُس الحاق کے کچھ ہی عرصے بعد 28اپریل 1949کو کشمیری قیادت اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے جس میں گلگت بلتستان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی اور ہوتا بھی کیسے کیونکہ یہاں تو ایف سی آر کے بعد شخصی حکومت قائم تھی جسے عوام نے جمہوریت سمجھ رکھا تھا ،بحرحال اُس معاہدے کے مطابق گلگت اور لداخ یعنی آج کے بلتستان کو بطور ریاستی حصہ مسئلہ کشمیر کے حل تک کے لئے وفاق کے زیر انتظام دیا گیالیکن یہاں پر بھی اُس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ اگر الحاق ہوگیا ہوتا تو مشتاق گورمانی جو اس کھیل کے اصل ذمہ دار تھے ،اُنہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ جناب اس خطے کا تو 16نومبر 1947اور 14اگست 1948کو الگ الگ حیثیت میں پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا ہے۔ یوں اس خطے کو متازعہ بنانے کے لئے جو سازش انگریز اور دیگر قوتوں نے تیار کی تھی اُنہیں اس میں کامیابی ملی اور گلگت بلتستان کے عوام نہ تین میں شامل ہوئے اور نہ تیرہ میں رہے۔
ان وجوہات کی بناء پر یہ خطے ترقی اور تعلیم کے میدان میں تمام تر قدرتی وسائل ہونے کے باوجود ایک گمنام علاقے کی حیثیت سے اپنی بقاء کی بھیگ مانگتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا تو اُنہوں نے اس علاقے کے کونے کونے کا دورہ کیااور یہ خطہ جو ڈوگروں سے آزادی کے بعد مقامی راجاؤں کی غلامی میں چلا گیا تھا اُن سے آزادی دلا کر گلگت بلتستان سے FCRکا خاتمہ کرنے کے ساتھ سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بھی خلاف ورزی کی جس کے سبب یہ خطہ ایک طرح سے پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہوگیا اور یہاں کی ثقافت، جغرافیہ اور تہذیب و تمدن کو زور دار قسم کا جھٹکا لگا جسے آج ہم دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔ بھٹو دور میں اس خطے کے اندر سیاسی نظام کی تشکیل کا آغاز ہوا اور اسی دور میں یہاں ترقی کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہوئے لیکن اس قوم کو شناخت دینے میں یا تو بھٹو کو فرصت نہیں ملی یا ناکام رہے۔
مضمون کی وسعت اشاعت کے پیش نظر اگر ہم ماضی کے قصوں کو عہد حاضر کے جوانوں کی زبانی سُنیں تو آج کا جوان سوال اٹھاتا ہے کہ میں پاکستان کی حفاظت کرتے سرحدوں پر مر تو سکتا ہوں لیکن ہم کسی پاکستانی صدر اور وزیر اعظم کو ووٹ دینے کا حق نہیں رکھتے۔ اس مایوسی کا اصل سبب وہ طرزی نظام ہے جو بغیر اختیارات کے یہاں نافذ کیے جاتے ہیں اس طرز نظام کی وجہ سے گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کے باوجود آج ترقی اور تعمیر کے حوالے سے دنیا کی آخری کالونی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں عوامی حقوق کی بات کرنا ایک طرح سے جرم تصور کیا جاتا ہے جس کے سبب شیڈول اور نیشنل ایکشن پلان کو غیر قانونی طور پر قومی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں پر لاگو کیا جاتا ہے لیکن کو ئی پوچھنے والا نہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ سی پیک سے دنیا کی ایک ارب آبادی کو فائدہ ہوگا اور اب تو بھارت نے بھی اس پروجیکٹ میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جب بھی اس پراجیکٹ کے حوالے سے کوئی اہم میٹنگ ہو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو کہیں سیر سپاٹے پر روانہ کرکے چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ معاہدوں پر دستخط کرتے نظر آتے ہیں ، اس کی اصل وجہ اس خطے کی متازعہ حیثیت اور یہاں پر صوبائی طرز پر بے اختیار اور بے آئین نظام کا ہونا ہے۔ ایسے میں ہمارا مقدمہ کیا ہے کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات تو طے ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک آئین میں ترمیم کرکے اس خطے کو قومی دھارے میں شامل کرنے سے پاکستان کو عالمی سطح پربہت زیادہ مسائل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے اور وہ لوگ جو استور اور بلتستان کو متازعہ حیثیت دے کر باقی علاقوں کو پختونخوا میں شامل کرکے قانونی بنانے کی تجاویز دیتے ہیں وہ دراصل پاکستان کو ایک نئی مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو بلتستان ریجن بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔لہذا گلگت بلتستان سے اس طرزی نظام کا خاتمہ کرکے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اس خطے کو وہ حقوق دیں جو اس خطے کا قانونی حق ہے۔ کیونکہ یہ طرزی نظام کسی بھی حوالے سے اس خطے کے مسائل کا حل نہیں ۔ بنیادی انسانی حقوق تعلیم اور ترقی کے میدان میں قدم رکھنا اس خطے کے عوام کا قانونی حق ہے لیکن اس طرزی نظام کے تحت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ اس نظام میں جن کے پاس محدود اختیارات ہیں اُنہیں کرپشن ،اقرباء پروری اور لوٹ کھسوٹ سے فرصت نہیں۔ لہذا پاکستان کی خارجہ پالیسی اور کشمیر کاز پر آنچ آنے دیئے بغیر گلگت بلتستان کو طرزی نظام سے نکال کر سی پیک میں ایک اہم فریق کے طور پر قبول کرنے اور اس خطے کی قانونی شناخت کو یقینی بنانا ہوگا ۔ کیونکہ اس وقت اس خطے میں اگر بااختیار عہدے ہیں تو چیف سیکرٹری وغیرہ جو اسلام آباد سے امپورٹ کئے جاتے ہیں وہی لوگ دراصل اس خطے کے حاکم ہیں باقی جن افراد کے پاس جو بھی سیاسی عہدے ہیں وہ اختیارات سے خالی ایک ظرف کا نام ہے جن کا کام صرف ڈگ ڈگی بجا کو جمہور کو خواب غفلت کی نیند سلائے رکھنا ہے۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ تمام تر وعدوں اور محبتوں کے باوجود اس خطے کو آئینی صوبہ نہیں بنایا جاسکتا ہے، لہذا طرزی نظام کے تحت ٹرخانے کے بجائے اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق اس خطے کو بنیادی حقوق اور قومی شناخت دینا وقت کی ضرورت اور ہمارا مطالبہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں