منو کا پاپا۔۔۔۔سلیم مرزا

جب ہم عیادت کو پہنچے تب آدھا پیٹ لال ہوچکا تھا ۔ بس وہ گیرائی سفید تھی جسے “تنی “کہتے ہیں ۔پیٹ پہ ٹھنڈی استری رگڑی جارہی تھی ۔ننھی مناہل کے ہاتھ میں پیچ کس اور سات سالہ مائرہ کے پاس ہتھوڑی تھی، شازی کاؤچ پہ ننگے پیٹ لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔ناانصافی کی حد تھی، کہ کوئی اسے چوم کر منا بھی نہیں رہا تھا۔
ہم نے قریبی صوفے پہ بیٹھ کر مشہور زمانہ فقرہ کہا۔۔۔
ہوا کیا تھا؟ ۔۔۔
میرے بھانجے نے مجھے بے یقینی سے دیکھا، جیسے پوچھ رہا ہو کہ ماما، پتہ نہیں تھا تو چھ کلومیٹر دور سے آیا کیوں ہے ؟
“بھونڈ لڑگیا ہے ” شازی کی بیوی نے ہنستے ہوئے بتایا،
“کیسے “؟
“موٹر سائیکل پہ آرہے تھے، راستے میں ۔۔۔”
میری بیوی نے تفہیمی انداز میں بڑے تربوز جیسا سر ہلایا مگر میرے پلے کچھ نہ پڑا ،بھونڈ ناف تک پہنچا کیسے ۔؟
لڑکے اگلا پہیہ اٹھا کر موٹر سائکل چلاتے ہیں ۔یہ پیٹ سے قمیض اٹھا کر موٹر سائکل چلا رہا تھا ۔۔؟
تم نے شرٹ نہیں پہنی تھی؟ میں نے استسفار کیا۔۔
شازی نے استری وہاں رکھی، جہاں مائرہ کا ہتھوڑا پڑا تھا ۔
شاید اسی سے ناہنجار بھونٍڈ کو مارا گیا  ہوگا ۔
پھر مجھے تفصیل سے بتایا گیا کہ موٹر سائیکل پہ آتے ہوئے بھونڈ پہلے کالر سے ٹکرایا، اور بیہوش ہوگیا، شاید روزے سے تھا، پھر نیم بیہوشی میں گریبان کے اندر چلا گیا، شمیض سے ہوتا ہوا، ناڑے تک جاپہنچا، مضروب کے پاس ناف سے آگے جانے کا راستہ نہیں تھا ۔چنانچہ اس نے پیٹ پہ ہی  پر انجکشن لگا ئے جہاں کتا کاٹے تو لگاتے ہیں ۔
سرسراہٹوں کو تو شازی نظر انداز کرتا رہا مگر جب کاٹا تو رکنا پڑا، پھر سڑک کنارے دھمال ڈال کر بھونڈ کو قتل کر دیا ۔
جلن بہت زیادہ تھی، عوامی دباؤ پہ ابتدائی طبی امداد کے طور پہ موٹر سائیکل کو ہی متعلقہ جگہ پہ رگڑنے کی کوشش کی گئی ۔
پاس سے گزرتے دو مفتیان نے فتوی بھی دیدیا کہ بھونڈ لڑے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔لہذا چاہے تو کوک پی سکتا ہے ۔
شازی کو افسوس ہے کہ مرنے والا بھونڈ پیاسا مرا۔۔
خیر اب جب عیادت کو آئے ہی ہیں تو میں نے اظہار ہمدردی کے طور پہ اپنی بیگم کو بتایا کہ۔۔۔شازی کے ساتھ بچپن سے ہی ایسا ہورہا ہے۔
محیرالعقول واقعات ہمیشہ اسی کے ساتھ ہوتے ہیں، جیسے میں اس کا ماموں ہوں۔۔
دس بارہ سال کی عمر میں اپنے پاپا کے ساتھ لاہور جا رہا تھا، ویگن کی آخری سیٹ اور ونڈو سائیڈ ۔شازی کے پاپا نے اسے گود میں بٹھا رکھا تھا،گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر میں ڈرائیور نے جو سگریٹ پی کے پھینکا تو سیدھا شازی کے گریبان میں اور پھر وہاں سے ہوتا ہوا پینٹ کی بیلٹ پہ آکر اٹک گیا۔
شازی تین بندوں میں پھنسے پاپا کی گود میں تلملایا ۔
ان کو سمجھ نہ آئی کہ اچھا بھلا سکون سے بیٹھا ڈانس کیوں کرنے لگا ہے ؟۔
ایک آدھ دھول بھی جمائی ۔تب تک خیر سگریٹ شرٹ اور پیٹ جلا کر نکل گیا ۔اور اب اس کمینے بھونڈ نے ٹھیک اسی جگہ حملہ کیاہے ۔
مقام شکر ہے کہ بھونڈ یا سگرٹ اس سے آگے نہیں جا پائے ۔
لو ایک اور سن لو ۔
بیچارے کو ایسے واقعات ڈھونڈ کر ملتے ہیں ۔۔۔
لاہور سے واپسی پہ جب یہ تقریباً  14 سال کا تھا ۔ہم کوسٹر میں سوار ہوئے ،جب وہ مین جی ٹی روڈ پہ پہنچی تو شازی کے پاؤں کو اندھیرے  میں کچھ لگا ۔ اس نے جھک کر ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا ۔
کم روشنی میں نظر کے مقابل لاکر دیکھا تو کو ئی آدھا  کلو کا چوہا ہوگا ۔گھبرا کر اگلی سیٹ والوں پہ پھینک دیا،ان کی تو چیخیں نکل گئیں ،تراہ گر گئے۔۔
پھر اس کے بعد مائیکرو بس کی صورتحال ایسی تھی کہ بس میں چوہا آگے جاتا تو لوگ ششکار کر پیچھے بھیج دیتے ۔اور پیچھے والے ٹانگیں سیٹ پہ رکھے آگے سروس کر وا دیتے ۔عجیب چوہا  ٹینس ہو رہی تھی گوجرانوالہ تک ساٹھ کلومیٹر کا سفر چوھے نے ڈیڑھ سو کلومیٹر میں طے کیا،اس دوران ساری بس سیٹوں پہ ایسی بیٹھی رہی جیسے میں پہلی بار کموڈ پہ بیٹھا تھا ۔
شازی نے صبر کے ساتھ اپنی آپ بیتیاں سنیں ،اپنے ریڈ اینڈ وائیٹ پیٹ پہ شرٹ پہنی اور کہنے لگا ۔۔۔اتنا درد تو، بھونڈ کاٹنے سے نہیں ہوا جتنا آپ کی عیادت سے ہوا ہے ۔اٹھ کر باہر نکل گیا ۔
بھلے کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ۔
بس ایک مناہل ہے جو میری بات کو توجہ سے سنتی ہے، اور مجھے سمجھتی ہے۔دیکھیں تو، سہی کتنی توجہ سے مجھے سنتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply