میڈیا ڈاکٹرزکی دانش اور تجزیے۔۔عمار کاظمی

قیامت پر سب مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ علمائے اکرام نےآیات، روایات اور احادیث مبارکہ کا سہارا لیکر قیامت  اور روز محشر کی نشانیاں بیان کی ہیں ۔مگر کڑیاں ملا کر جدیدسائنسی  اندازمیں بطور تجزیہ نگارقیامت کی ڈیڈ لائن دینے کی کوشش  جیسے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کی ہے وہ شاید کسی اور نے کبھی نہ کی ہوگی۔
بڑی بہن اور بہنوئی (جو ریٹائرڈ ائیر فورس آفیسر ہیں) کو ملنے اسلام آباد گیا تو بھائی صاحب بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی ہر پیش گوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب ہی آجکل میرے  سب سے زیادہ پسندیدہ تجزیہ نگار ہیں۔ پوچھا بھائی انھوں نے اپنے تجزیہ میں کیا فرمایا؟  تو بولےرات ڈاکٹرصاحب اپنے پروگرام میں بتا رہے تھے کہ ’’شہباز کو سعودیہ نے خونریزی رکوانے لیے بلوایا‘‘۔ پاکستان میں خونریزی کے امکانات موجود تھے اور ہیں، سو اس حوالے سے تو (خدانخواستہ)کوئی بھی پیش گوئی درست ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر وہ سعودیہ پاکستان میں بریلویوں کا قتل رکوانے کی کوشش کیوں کرنے لگا جس نے دس ہزار پاکستانیوں کو محض اس لیے  بلیک لسٹ کر کےڈی پورٹ کر دیا  کہ وہ میلاد کا جلوس نکالنے کی کوشش کر رہے تھے؟ ستر ہزار پاکستانی تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے مگر سعودیہ کیطرف سے کبھی رسمی مذمت بھی سامنے نہ آئی( جو ہندوستان بھی کر لیتا ہے)۔ یقیناً ایسے ہی ڈاکٹر  ہوتے ہیں جو ایک کامیاب آپریشن کے بعد قینچی پیٹ میں بھول جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے تجزئیے کب حقائق سے افسانہ نگاری کیطرف نکل جائیں کوئی نہیں جانتا۔ سعودیہ کی ستر پوشی کی خاطر انھوں نے حقائق پر مبنی اندیشوں کو بلاوجہ قربان کر دیا۔ یعنی آپ سعودیہ سے یہ توقعہ تو کر سکتے ہیں کہ وہ یہاں بڑھتے ہوئے بریلوی اثر کوختم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کر رہا ہوگا ،مگر یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ وہ یہاں انکی قتل و غارت روکنے کے لیے لیگی قیادت کواپنے پاس بلائے گا۔ خادم رضوی کی کامیابی کے بعد  طاہر القادری کی کامیابی انھیں کسی صورت قبول نہیں ہو سکتی۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ جس ریاست سے وہ کئی دھائیوں سے اپنے چھوٹے کا کام لے کر اپنا نظریہ اور فکر پروموٹ کرتے رہے ہیں، وہاں کسی اور کے کنٹرول  کے نتیجے میں وہ آوٹ ہو جائیں۔ برسوں کی  سرمایہ کاری اور محنت کے ضائع ہونے کی کس کو فکر نہیں ہوگی؟  چنانچہ،  ناچیزکے اس ڈویلوپمنٹ میں  کسی ممکنہ این آر او کے علاوہ بھی کچھ زیادہ خطرناک اندیشے ہیں۔ ممکن ہےمیرے اندیشے اور میرا تجزیہ غلط ہو(خدا کرے کہ غلط ہی ہو) مگر ماضی حال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب سوچنا کوئی گناہ نہیں کہ لیگی قیادت کا سعودیہ جانا کوئی خیر کی خبر لاتا دکھائی نہیں دیتا۔   اگر سمجھا جائےکہ مذہبی فکر کہیں بھی سرمایہ داری نظریات  یا مادی مفادات کے بغیر اسوقت موجود ہے تو غلط ہوگا۔ صبح ہارون رشید صاحب کی ٹویٹ پڑھی کہ ’’ میر شکیل الرحمان اور نواز شریف میں پانچ گھنٹے کی ملاقات ۔اسی قماش کے کچھ اور لوگ بھی نون لیگ کے دست و بازو ہیں۔ سرحد پارسے بھی‘‘۔ٹویٹ کے آخری دو جملوں سے مجھے کوئی سروکار نہیں مگر جو انھوں نے میر شکیل اور نواز کی ملاقات کی خبر دی وہ میرے لیے کچھ اس طرح اہم ہے کہ اس سے میرے اس تصورکو تقویت کہ ’’اسٹیبلشمنٹ محض سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوتی، ایک سولین اسٹیبلشمنٹ بھی ہوتی ہے‘‘۔امریکہ اور سعودیہ کے ڈالر اور ریال جہاد سے لیکرآج تک کے گٹھ جوڑ تک اب یہ وہ مثالی حوالہ ہے، جہاں دونوں نہ صرف  سولین اسٹیبلشمنٹ واضع ہوتی نظر آتی ہے بلکہ اس میں سرمایہ داری نظام کا کردار بھی بخوی دیکھا جا سکتا ہے۔  یہ مذہبی نظریات کیساتھ سرمایہ داری نظام ہی ہے جو دو ہزار چودہ میں جمہوریت بچانے والا زرداری دو ہزار اٹھارہ سےدو دن پہلے دفعہ تین سو دو لگانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انتہائی ادب و احترم کیساتھ جیالوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے سر زرداری کا صابن سلو ہے کیا؟ یعنی جب شہدائے ماڈل ٹاون کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی تو آپ   منہاج القرآن اور شہدا کے گھروں کو چھوڑ کرجاتی عمرہ جا پہنچے تھے۔اور اب تین چار سال بعد آپکو لواحقین سے تعزیت یاد آنے لگی۔ بہر حال یہ الگ سیاسی بحث ہے مگر جس کمال فہم سے ڈاکٹر صاحب نے  شریفین کے سعودیہ بلاوے پر آپریشن نما تجزئیے کے بعد نتیجہ نکالا وہ بھی چیخ چیخ کر  ہی کہہ رہا ہے ،مجھے کیوں نکالا؟
نیوز میڈیا کے دوسرے معروف ڈاکٹر ڈاکٹر دانش صاحب ہیں۔ کالج کے زمانے کا ایک دوست جس کا نام دانشمند تھا، وہ اسلام آباد کے ایک کالج میں داخلے کے لیے گیا اور سیدھا پرنسپل آفس میں داخل ہو کر اپنا تعارف کچھ یوں کروایا’’سر میں دانشمند ہوں‘‘ پرنسپل صاحب لا پرواہی سے بولے معاف کرویہاں دانش نہیں ملتی کہیں اور جا کر مانگو‘‘۔ سو ڈاکٹر دانش بھی کچھ ایسے ہی دانشمند ہیں جو دانش کے حوالے سے ضرورت مند زیادہ دِکھتے ہیں ۔چند روز پہلے ڈاکٹر صاحب ٹوٹر پرسوال اُٹھا رہے تھے کہ ’’ کیا آرمی چیف کا لیول ہے کہ وہ سینٹ میں جائیں‘‘۔یعنی ڈاکٹر صاحب کوشاید یہ بھی معلوم نہیں کہ جب صدر ملک میں موجود نہ ہو تو چئیرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر ہوتا ہے۔ تھوڑا نظام کو سمجھ کر بات کی جائے تو درحقیقت یہ عہدہ آئینی اور دستوری لحاظ صدر سے بھی زیادہ مضبوط اور بڑاہے۔صدر قانون سازی پر اثرانداز نہیں ہو سکتا جبکہ چئیرمین سینیٹ  اگر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا چاہے تو چیف جسٹس آف پاکستان کیطرح اسکا اختیار بھی لا محدود ہی سمجھا جائے گا۔مہذب  جمہوری معاشروں میں جو مقام چئیرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور چیف جسٹس آف پاکستان کا ہوتا ہے وہ صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کا بھی نہیں ہوتا (معاف کیجیے گا آرمی چیف کا نام پاکستانی ہونے کے ناطے مجبوراً لکھ رہا ہوں ورنہ جمہوری ریاستوں میں انکا تقابل ان میں سے کسی بھی عہدے سے نہیں کیا جا سکتا)۔  یقین جانیں دونوں ڈاکٹر حضرات  کے دانشمند تجزئیےمجھے اسقدر پسند ہیں کہ انکے علاوہ اب کسی ڈاکٹر کا حالاتِ حاضرہ پر بولنا پسند نہیں رہا۔ سب سے یہی کہتا ہوں بھائی اپنے پروفیشن پر توجہ دیا کرو ہم سے پہلے والے دو ہی نہیں سنبھالے جا رہے!

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply