سرجری کا شرعی حکم اور اس کے جواز کی شرائط۔۔ڈاکٹر محمد عادل

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ انسانی جسم اللہ تعالی کی عطا ہے اور اس کو زخمی کرنا قابل سزا جرم ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ[i]( سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے)۔اسی طرح خود اپنے جسم  میں کسی قسم کا تصرف کرنا شرعاً حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسم گودنے اور گدوانے والے پر لعنت کی گئی۔  سرجری میں چونکہ انسانی جسم کو درد و تکلیف سے نجات دینے کے لئے مزید درد و تکلیف سے گزارا جاتا ہے،اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سرجری کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور کن حالات میں شریعت اس کی اجازت دیتی  ہے؟ زیر نظر  مضمون میں  انہی  سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سرجری کیا ہے؟

سرجری کے لئے عربی میں الجراحۃ کا لفظ  استعمال ہوتا  ہے۔یہ باب فتح سے ہے،جواسلحہ سے لگنے والے زخم کو کہتے ہیں ۔اس کی جمع جراحات اور جرح آتی ہے[ii]۔

اصطلاح میں الجراحۃ   (Surgery)کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

“Surgery is the specialty of medicine that treats diseases and disorders by cutting, removing or changing the body with an operative procedure. [iii]

سرجری کا شرعی حکم

فقہاء کرام نے انسانی فائدے اور الضرر  یزال (ضرر کو زائل کیا جائے گا)کے قاعدے کو مدنظر رکھ کر سرجری کو  نہ تو مطلقاً جائز کہا ہے اور نہ مطلقاًحرام قرار دیا،بلکہ بعض شرائط کے ساتھ اس کو جائز کہا ہے۔

سرجری کے جواز کے دلائل

شرط نمبر ۱: اس بیماری کا آپریشن سے کم کوئی علاج نہ ہو اور آپریشن کرنا ناگزیر ہو۔ اگر آپریشن کے بغیر علاج ممکن ہو تو فقہی قاعدےالضرر لا یزال بمثله(کسی ضرر کا ازالہ اس کے مثل ضرر سے نہیں کیا جائے گا)سے ایسا علاج و آپریشن نا جائز ہوگا۔اس قاعدے سے مراد یہ ہے کہ  بڑی  مصیبت و تکلیف کو اس سے کم  کے ذریعے دفع کیا جا ئے گا[iv]۔۔جیسے بچے کی ولادت کی صورت میں آج کل باوجود اس کے کہ بغیر آپریشن ولادت ممکن ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر فیس کے حصول یا عورت جسمانی ساخت بچانے  کی غرض سے سرجری (C-Section) کا راستہ اختیار کرتی ہے،جس کی شرعاً  گنجائش نہیں۔

 شرط نمبر  ۲: ڈاکٹر کو سرجری کی کامیابی کا گمان غالب ہو، یعنی عام طور پر ایسے آپریشن کامیاب ہوتے ہوں۔ جیسے فتاویٰ قاضی خان  میں ہے: إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل لأنه تعريض النفس للهلاكو إن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك[v]

ترجمہ: اگر اس جیسے قطع سے  جان خطرے میں آجاتی ہو تو  ایسا کرنا جائز نہیں  کیونکہ یہ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے اور اگر غالب گمان صحت کا ہو ،تو اس کے لئے اس میں گنجائش ہے۔

اسی طرح فتاویٰ عالمگیری میں ہے:ان قيل قد ينجو وقد يموت أو ينجو ولا يموت يعالج وإن قيل لا ينجو أصلا لا يداوى بل يترك كذا

ترجمہ: اگر کہا گیا کہ  ممکن ہے بچ جائے یا کہا جائےکہ   مرے گا نہیں بلکہ نجات پائے گا،تو علاج کیا جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ،تو علاج  نہیں کیا جائے گا۔

یعنی عام حالات میں بچنا یقینی ہو یا غالب گمان بچنے کا  ہو توعلاج کیا جائے گا اور اگر آپریشن کی کامیابی کے حوالے سے ڈاکٹر کو کوئی امید نہ ہو تو اس صورت میں آپریشن کرنا جائز نہ ہوگا۔

شرط نمبر۳: آپریشن درپیش مرض کے لئے ہو اور مریض کو اس کی اشد ضرورت ہو۔اگر ایسا نہ ہو تو سرجری جائز نہ ہوگی جیسے اپنڈکس کا آپریشن حفظ ما تقدم کے طور پر کیا جائے جبکہ کوئی تکلیف نہ ہو۔اس کی وجہ یہ  ہے کہ صحت یقینی ہے اور اپنڈکس سے تکلیف کا محض خدشہ موجود ہے اور فقہی قاعدہ ہے: اليقين لا يزول بالشك[vi](یقین کو شک کے ذریعے زائل نہیں کیا جا سکتا)،لیکن جب  فی الحال تکلیف  تو نہ ہو مگر عام طور  مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ مستقبل میں  درد و الم کا سبب بن سکتا ہو ،جیسے ناک میں گوشت کا ہونا (Turbinates) کہ جو وقت کے ساتھ بڑھ کر تکلیف و ضرر  کا موجب ہوتا ہے یا آنکھ پر پردے کا آنا (Pterygium)جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہےاور اس کی وجہ سے بتدریج نظر میں کمی واقع ہوتی ہے،تو  پھر آپریشن کرنا جائز ہے۔

شرط نمبر ۴: سرجن میں یہ اہلیت موجود ہو کہ آپریشن صحیح طریقے سے کر سکے  ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :من تطبب، ولا يعلم منه طب، فهو ضامن[vii]

ترجمہ: معروف طبیب کے علاوہ  ،جس کسی نے کسی کا علاج کیا  ،تو (نقصان کی صورت میں)وہ ضامن ہوگا۔

سیدنا عمرؓ  نے فرمایا :من وضع يَده من المتطببين فِي علاج أحد فَهُوَ ضَامِن إِلَّا أَن يكون طَبِيبا مَعْرُوفا[viii]

ترجمہ:طبیب معروف کے علاوہ جو کوئی کسی کا علاج کرے گا ،تو (نقصان کی صورت میں) وہ ضامن ہوگا۔

جب کہ بدایۃ المجتہد  میں  فن سے ناواقف طبیب کے متعلق کہا گیا ہے:وإن لم يكن من أهل المعرفة فعليه الضرب، والسجن، والدية[ix]

ترجمہ: اگر طبیب فن طب سے واقف نہ ہو تو سرزنش ہوگی  اور قید کی سزا اور دیت واجب ہوگی)۔

ان تمام دلائل   ثابت ہوتا ہے کہ سرجن  میں  آپریشن کے لئے مطلوبہ اہلیت  کا ہونا ضروری ہے،ورنہ شرعاً ایسے ڈاکٹر سے آپریشن کرانا  اور خود اس کے لئے لوگوں کا آپریشن کرنا جائز نہیں ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ آپریشن تھیٹر  اور ہسپتال میں ان سہولیات کا ہونا  بھی  لازمی ہے ، جو آپریشن کے وقت درکار ہوں، اگر سہولیات نہ ہوں تو اس صورت میں آپریشن کرنا جائز نہ ہوگا۔

شرط نمبر۵: آپریشن جائز مقصد کے لئے ہو اور ناگزیر ہو یعنی شارع کی جانب سے اس  کی اجازت ہو کیو نکہ جسمِ انسانی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس میں تصرف صرف اس کی اجازت سے جائز ہے۔اگر کسی حرام مقصد کے لئے  آپریشن ہو،جیسے حسن میں اضافہ کے لئے پلاسٹک سرجری ،تو ایسی سرجری کرنا اور کروانا دونوں جائز نہیں ہے۔

پلاسٹک سرجری  تین طرح کے عیوب کے لئے کی جاتی ہے: ایک پیدائشی طور پر  عیب موجود ہو ،جیسے  انگلیاں آپس میں مل جانا یا  انگلی کا زائد ہونا(polydactylism) ،ہونٹوں کا کٹا ہوا ہونا (Cleft lip)وغیرہ ۔دوسرا یہ کہ کسی حادثے کی وجہ سے عیب پیدا ہو گیا ہو ،جیسے آگ سے جلنے  سے انگلیاں  آپس میں مل جائیں یا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے چہرے کی ساخت بگڑ جائے وغیرہ ،تو  ان  دونوں اقسام کے عیوب میں اگر  تکلیف نہ بھی ہو ،مگر  یہ حسی و معنوی ضرر ہے اس  لئے حاجت کے درجے میں ہے اور حاجت کبھی ضرورت کے درجے میں ہوتی ہے الحاجة تنزل منزلة الضرورة[x]،اس لئے ان  صورتوں میں آپریشن کرنا جائز ہے۔ لیکن بڑھاپے کےآثار چھپانے  یامحض حسن میں زیادتی کے لئے  سرجری کرنا جائز نہ ہوگا۔

شرط نمبر 6: مریض  آپریشن کی  اجازت دیں اور اگر مریض اس قابل نہ ہو ،تو اس کا ولی اجازت دیں،جیسے فتاویٰ قاضی خان  میں ہے:و لو فعل ذلك غير الأب و الأم فهلك كان ضامنا لعدم الولاية[xi]

ترجمہ:اگر یہ کام باپ یا ماں کے علاوہ کسی نے کیا ،تو ولایت نہ ہونے کی وجہ سے ضامن ہوگا)، اسی طرح علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں: وإن ختن صبيًا بغير إذن وليه، أو قطع سلعة من إنسان بغير إذن أو من صبي بغير إذن وليه فسرت جنايته ضمن[xii]

ترجمہ: اگر بچے کا ختنہ  اس کے ولی کی اجازت کے بغیر کیا  یا کسی انسان سے  ،اس کی اجازت کے بغیر ٹکڑا کاٹا،تو نقصان کی صورت میں ضامن ہوگا)،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کی اجازت شرط ہے کیونکہ  بغیر اجازت آپریشن کرنے والا سرجن ہلاکت کی صورت میں جنایت کرنے والا ہوگا۔

نتائج

اگر مندرجہ بالا شرائط موجود ہوں ،تو آپریشن کرنا شرعا جائز ہوگا اور اگر یہ شرائط موجود نہ ہو تو  کسی صورت آپریشن نہ کیا جائے۔ بلکہ موجودہ دور میں تو ایک ڈاکٹر کے چیک اپ پر اکتفاء بھی نہ کیا جائے کہ خصوصاً اس طبقے میں خوف خدا اور تکریم انسانیت تقریباً مفقود ہیں،لہذا ایک ڈاکٹر آپریشن تجویز کریں تو احتیاطا ًدوسرے ڈاکٹر سے چیک اپ کروائیں۔ اور اس صورت میں سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر سے مشورہ زیادہ مفید ہوگا کیونکہ اسے سرجری سے براہ راست کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

[i]               المائدۃ،۵ : ۳۲

[ii]              تہذیب اللغۃ،۴ : ۸۶

[iii]             about.com

[iv]              الوجيز،۱ : ۲۵۹

[v]              فتاویٰ قاضی  خان ،۳ : ۴۱۰

[vi]              الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ  الكلیۃ،۱ : ۳۶۶

[vii]             سنن ابی داؤد،کتاب الدیات، باب من تطبب بغیر علم فاعتنت،حدیث: ۴۵۸۶

[viii]            العلاج  بالاغذیۃ  والأشعاب، ۱ : ۳۰

[ix]              بدایۃ المجتہد ،۴ : ۱۸

[x]           غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر ،۱ : ۲۹۳

[xi]              فتاویٰ قاضی خان،۳ : ۴۱۰

Advertisements
julia rana solicitors

[xii]             المغنی لا بن قدامۃ ،۵ : ۳۹۸

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سرجری کا شرعی حکم اور اس کے جواز کی شرائط۔۔ڈاکٹر محمد عادل

  1. انتہائی تھرڈ کلاس پوسٹ ہے۔ لوگوں کو دین اسلام سے دور کرنے کے علاؤہ کوئی مقصد نہیں ہے۔

Leave a Reply