افغان کون تھا۔۔۔۔ہارون وزیر۔۔دوسرا/آخری حصہ

حقیقت یہ ہے کہ۔۔۔بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کا ایک بڑی تعداد میں افغانستان آنا اور پھر قیس عبدالرشید کا مدینے جا کر مشرف بہ اسلام ہو کر کسی جنگ میں داد شجاعت دینے تک کی تاریخ کے اس سلسلے کا ایک بھی واقعہ صحت کے ساتھ درج نہیں۔ نہ ہی تواتر و ربط کے کسی قسم کے آثار نظر آتے ہیں۔ پشتونوں کا یہ سلسلہ انساب مفروضوں اور قیاسات پر مبنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ نویسی ایک بہت ہی نازک امر ہے۔ تاریخ دان کا کسی طرف جھکاؤ اور ذاتی پسند نا پسند پوری تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پشتونوں نے قلم کی بجائے ہمیشہ تلوار سے محبت کی ہے۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو پشتونوں نے جرگہ جیسی Rich Tradition کو بھی قرطاس پر نہیں اتارا۔ یہ تمام علم محض سینہ بہ سینہ چلا آ رہا ہے۔ یہی مثال ان کی اپنی تاریخ کا بھی ہے۔ پشتون تاریخ کبھی بھی عوامی سطح پر نہیں لکھی گئی۔ جتنی بھی تاریخ لکھی گئی ہے وہ درباروں کے کاتبین نے لکھی ہے۔ افغان تاریخ کی پہلی جامع کتاب “مخزن افغانی” جہانگیر کے دربار میں لکھی گئی تھی۔ جس پر یہ خدشہ یقیناً جائز ہے کہ اس میں بہت سے تاریخی حوالے دربار کی طبیعت کے تابع ہوں گے۔
پشتون کیلئے دنیا میں سب سے زیادہ مستعمل لفظ پٹھان ہے۔ جیسا کہ ہندوستان، عرب، یورپ، امریکہ حتیٰ کہ پاکستان کے بھی باقی تینوں صوبوں میں اسے اسی پٹھان نام سے پکارا جاتا ہے۔ آٹے میں نمک برابر لوگ اسے افغان بھی کہتے ہیں۔ لیکن یہ کبھی بھی پشتون کے اصل نام نہیں ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک چھوٹے قد کا جاوید نامی شخص اپنے شہر سے دور کسی دوسرے شہر مزدوری کے سلسلے میں جاتا ہے وہاں اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے وہ جاوید کی بجائے چھوٹا یا چھوٹے کی عرفیت سے مشہور ہو جاتا ہے۔ اسی عرفیت سے بار بار بلائے جانے پر وہ رسپانڈ تو کرے گا بالآخر تسلیم بھی کر لے گا کہ میر ایک نام چھوٹا بھی ہے کیونکہ بہت سارے لوگ مجھے اس نام سے پکارتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کا اصل نام چھوٹا ہے۔ اس کا اصل نام جاوید ہی رہے گا جو اس کے ماں باپ نے رکھا تھا۔
بالکل یہی حادثہ پشتون کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ کہ اس کا اصل تو پشتون ہی ہے لیکن لوگ ایک لمبے عرصے سے پٹھان یا افغان کہہ کر بلاتے ہیں۔ اس لئے پشتون ،پٹھان یا افغان پر بھی سر ہلا لیتا ہے۔ یہ نام اب پشتون کی مجبوری بن گئے ہیں ورنہ پشتون کبھی بھی نہیں چاہتا کہ کوئی اسے پٹھان یا افغان کہہ کر پکارے۔ وہ خود کو پشتون کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں۔ اسی نام کو ہی باعثِ عز و شرف گردانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان کی شاعری پشتون یا پختون کے الفاظ سے بھری پڑی ہے۔ ذیل کے کچھ اشعار کیلئے محمد ارشد خان صاحب کی تحریر سے استفادہ کیا ہے۔
خوشال بابا کے اشعار
ع- د شیر شاه او د بهلول خبرې اورم
خلک واۍ چې په هند به پښتانه وو بادشاهان!
(شیر شاہ سوری اور بہلول لودھی کا ذکر سنتا ہوں–لوگ کہتے ہیں کہ ہند پر پشتون بادشاہ ہوتے تھے)
زه خوشحال توره به لاس کفن په غاړه به راپاسم
که خبر شوم چه پختون د چا غلام شو
(میں خوشال تلوار سونت کفن اوڑھے کر اٹھ جاؤنگا–اگر مجھے خبر ہوئی کہ پختون کسی کا غلام ہوا ہے-
جس احمد شاہ ابدالی پر افغانی چیسٹ تھمپنگ کرتے ہیں ذرا انکی بھی سنیں۔ وہ اپنے آبائی وطن کو پختونخوا کہتے ہیں اور شیر شاہ سوری اور حمید لودھی جیسے “پشتون” مشاہیر پر فخر کرتا ہے کسی “افغانی” پر نہیں:
ده دیلي تخت هیرومه چې رایاد کړم
ځما ده ښکلي پښتونخوا ده غره سرونه
ده حمید او ده فرید دور به بیا شي
چې په توره پښتانه کړي ګوزارونہ
پشتون کی بات ہو رہی ہو اور اس میں پشتون ولی کا ذکر نہ ہو،یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پشتون تاریخ پشتون ولی کے بغیر ادھوری ہے۔ افغان چاہے لاکھ کتابیں لکھ کر لفظ افغان کو مقدم ثابت کر بھی دے لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ پشتون ولی اور زبان کے لئے لفظ پشتو کا محتاج رہے گا۔ جبکہ پشتون ایسی کسی بھی مجبوری سے مبرا ہے۔
ایک اور پتے کی بات بتاؤں؟
افغانستان نے ہمارے قوم پرستوں کو لوئی پشتونستان کا ایک مسحور کن خواب دکھا رکھا ہے۔ جس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بہت سوں کی ہڈیاں بھی مٹی ہوچکی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر افغان ہی اصلی اور نسلی نام ہے تو لوئی پشتونستان کی بجائے انہوں نے لوئی افغانستان کا دام کیوں نہیں پھینکا۔
وہ اس لئے کہ پشتون، پشتون تھا، پشتون ہے، پشتون رہے گا اور اسے صرف پشتون کے نام پر ہی گھیرا جا سکتا ہے۔ لفظ افغان اور پٹھان وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے اس لئے انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے افغانیوں نے نیچے والے پشتونوں کو ہمیشہ پشتونستان کا دانہ ڈالا ہے کہ یہی ایک دانہ ہے جسے پشتون چگ سکتے ہیں افغان کا دانہ تو چگنے سے رہے۔
اگرچہ یہ بحث لا ینحل ہے۔ آج تک اس پر اتفاق نہیں ہو سکا اور نہ شاید کبھی ہو سکے۔ لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ضرور نکلے گا کہ علم دوست حضرات جب اس اس پر بحث کریں گے تو بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔
میں ذاتی طور پر باچا خان کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر سے کلی متفق ہوں کہ
ہند والے ہمیں پٹھان کہتے ہیں اور فارس والے ہمیں افغان کہتے ہیں لیکن یاد رکھنا ہم پٹھان یا افغان نہیں ہیں بلکہ ہمارا اصلی نام پختون ہے۔
واللہ اعلم

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply