موت کے سوداگروں کے خلاف جنگ۔۔عزیز اللہ خان

تھانہ سہجہ خا ن پور سے 13کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔یہ تھانہ صدر خانپور اور اسلام گڑھ کے کچھ چکوک اور مواضعات کو ملا کر نیا بنایا گیا تھا۔علاقہ تھانہ کافی تعداد میں جرائم پیشہ افراد رہائش پذیر تھے جن کاذریعہ معاش مویشیوں کی چوری چکاری ہوتا تھا۔اس تھانہ کی بھی اسلام گڑھ تھانہ کی طرح کوئی سرکاری عمارت نہ تھی بلکہ کچھ دوکانیں کرایہ پر لے کر اس میں تھانہ بنایا گیا تھا مگر یہ تھانہ اسلام گڑھ کی نسبت بہتر تھا۔
میں نے اپنی رہائش خان پور میں ہی رکھی روزانہ صبح خان پور سے سہجہ چلا جایا کرتا تھا اور رات کو گشت کرتے ہوئے واپس آجایا کرتا تھا۔تھانہ پر کچھ زیادہ کام نہیں ہوتا تھا تو میں نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے اپنے علاقہ تھانہ کے علاوہ دیگر تھانوں میں منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی شروع کردی۔ میرا طریقہ کار کچھ اس طرح تھا کہ منشیات فروشوں سے پہلے تھوڑی مقدار میں منشیات،چرس،افیون یا ہیروئن خرید کروا لیتا اور تھانہ کے مال خانہ میں رکھ دی جاتی بعد میں تھوڑی سی زیادہ مقدار کی خریداری کرلی جاتی اور پھر بھاری مقدار منشیات کا سودا کیا جاتا اس طرح منشیات فروش کو پورا یقین ہو جاتا تھا کہ خریدنے والا مجھے پولیس کے ذریعے گرفتار نہیں کروائے گا۔جونہی بھاری مقدار منشیات دینے کے لیے وہ آتا تو اسے منشیات سمیت گرفتار کر لیا جاتا۔لیکن میری ہر خریداری کا علم میرے حلقہ افسر کو ضرور ہوتا تھا۔
منشیات کے کئی ریڈ میں نے تھانہ سٹی خان پور،صدرخان پور میں کیئے۔جہاں سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی گئیں میری منشیات کی برامدگی اور کارگزاری پر کرائم میٹنگ میں مجھے DIGبہاولپور رینج اور SSPکی طرف سے ہمیشہ نقد انعام اور تعریفی اسناد ملا کرتی تھیں۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں جو تحفہ پاکستانی عوام کو ملا اس میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر بھی قابل ذکر ہے۔اس سے پہلے ہیروئن جیسے موذی نشہ کانام بھی نہ سنا گیا تھا مگر اب آہستہ آہستہ ہیروئن بھی عام ہو رہی تھی میاں طارق نے مجھے سٹی خان پور سے ایک منشیات فروش کو گرفتار کرایا جس کے قبضہ سے ہیروئن برآمد ہوئی۔یہ شخص ہیروئن پیتا بھی تھا اور بیچتا بھی تھا دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ یہ ہیروئن بہاولپور شاہد قریشی اور زاہد قریشی نامی دوبھائیوں سے لے کر آتا ہے۔میں نے اسے اس بات کی لالچ دی کہ اگر وہ مجھے زیادہ مقدارمیں ہیروئن برآمد کروادے تو اس سے رعایت کی جائے گی اور اس کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی ۔اس وعدہ پر وہ تیار ہو گیا۔

حسین کرار خواجہ نئے SSPتعینات ہوچکے تھے۔خواجہ صاحب انتہائی سمجھدار اورماتحت پرور آفیسر تھے اُن میں پی ایس پی کلاس والی فرعونیت بلکُل نہیں تھی اوراچھے کام کی وجہ سے میری عزت کرتے تھے۔DSPخانپور مجید باجوہ کا بھی تبادلہ ہو کیا تھا اور ان کی جکہ اسلم شہاب نئے DSPتعینات ہو گئے تھے۔میں نے انھیں ساری بات بتائی تو انھوں نے SSPسے بات کی اور اس بات کی اجازت حاصل کی کہ میں بہاولپور ریڈکرنے کے لیے جاسکوں۔
اگلے روز صبح سویرے میں کچھ ملازمین کو لے کر بہاولپور کے لے روانہ ہوگیا۔روانہ ہوتے وقت مجھے SSPحسین کرار خواجہ کا ٹیلی فون آیا کہ SSPبہاولپور رخصت پر ہیں میں نے DSPصدربہاول پور محمود اشرف گیلانی کوکہہ دیا ہے اگرکوئی مسئلہ ہو تو ان سے مل لینا۔میرے ساتھ حاجی رمضان ASI اورنگ زیب کانسٹٰیبل اور غلام قاسم کا نسٹیبل بھی دیگر ملازمین کے ساتھ تھے۔تقرئباََ دس بجے ہم بہاولپور پہنچ گئے سرکاری گاڑی بھی ہمراہ تھی جبکہ کچھ ملازمین سفید پارچات میں میرے ساتھ کار میں تھے۔اورنگ زیب اور میاں طارق کوملزم انور کیساتھ روانہ کیا اسے تیس ہزار روپے خریداری منشیات کے لیے بھی دیئے اور اسے ہدایت کی کے ملزم انور پر نظر رکھے کہیں یہ فرار نہ ہو جائے۔دونوں SSPبہاولپور کی رہائش گاہ کے سامنے والی گلی میں چلے گئے۔ایک گھنٹہ گزرگیا مگر واپس نہ آئے تو تشویش ہوئی مگر اس بات کو سوچ کر کہ کہیں شاہد قریشی وغیرہ ہوشیار نہ ہوجائیں انتظار کرتے رہے۔ ایک گھنٹہ بعد دونوں واپس آئے میں نے اپنی پرائیوٹ کار چوک فوارہ کیساتھ چھپا کر کھڑی کی ہوئی تھی اورنگ زیب نے ایک کلوہیروئن کا پیکٹ میرے حوالے کیا میں نے دیر کی وجہ پوچھی تو بتا کہ شاہد قریشی گھر پر نہ تھا بلکہ کہیں گیا ہوا تھا اُس کے واپس آنے پر ہیروئن ملی اس لیے دیر ہوگئی۔میں نے باوردی ملازمین کو ہمراہ لیا اور فوری طور پر شاہد قریشی کے گھر ریڈ کردیا۔شاہد قریشی اور حامد دونوں ہی گھر پہ موجود تھے۔جن کو گرفتار کر کے گھر کی تلاشی لینے پر ایک کلو ہیروئن مزید بھی برآمد ہوئی اور دی گئی رقم تیس ہزار بھی ملزمان کے قبضہ سے مل گئی
بہالپور پہنچنے پر میں نے DSP محمود اشرف گیلانی کوٹیلی فون کر کے یہ بتایا کہ میں نے ریڈ کرنا ہے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ منشیات فروش پر کرنا ہے۔ہیروئن برآمدگی کے بعد میں نے جب انھیں بتایا کہ ان کے علاقہ سے میں نے دوکلو ہیروئن برآمد کرلی ہے تو موصوف پریشان ہوگئے مجھے کہنے لگے کہ یوں سمجھیں آپنے مجھے بتایا ہی نہیں۔کسی بھی پولیس آفیسر کے لیے یہ بڑی بے عزتی کی بات ہوتی ہے کہ اس کے علاقہ سے کوئی دوسرا آفیسر اتنی بڑی مقدارمیں منشیات برآمد کر کے لے جائے۔انٹروگیشن
پر شاہد قریشی نے بتایا کہ وہ یہ ہیروئن اپنے قریبی رشتہ دار جوکہ کہڑوڑ پکا رہتا ہے سے لے کر آتا ہے۔یہ دوکلو ہیروئن بھی آج صبح لے کر آیا تھا اس کے پاس کافی مقدار میں ہیرو ئن تھی میں نے شاہد قریشی کو بھی وہی بات کی اور اعتماد دلایا کہ اگر وہ اپنے رشتہ دار غوث محمد قریشی کو پکڑوا کر ہیروئن برآمد کروا دے تو اس سے رعایت ہوسکتی ہے۔حامد اور شاہد دونوں ایسا کرنے پر راضی ہوگئے۔میں نے ٹیلی فون پر SSPحسین کرار خواجہ کو ساری صورت حال بتائی انھوں نے مجھے انتظار کرنے کا کہاتھوڑی دیر بعد ان کا ٹیلی فون آگیا انھوں نے کہا کہ تحصیل لودھراں میں ASPکیپٹن عارف نواز (جوIGپنجاب بھی رہے ہیں)تعینات ہیں آپ ان سے جاکر مل لیں اگر کوئی مشکل ہوئی تو وہ دیکھ لیں گے (اُن دنوں لودھراں ضلع نہ بنا تھا )
بہاولپور سے لودھراں تقریباََ15کلومیٹر دور ہے اور بہاولپور ملتان روڈپر واقع ہے۔لودھراں سے پھر سنگل سڑک کہڑوڑ پکا کی طر ف جاتی تھی۔جو تقریباََ 25کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ہم تقریباََ تین بجے کہڑوڑ پکا پہنچ گئے۔کہڑوڑپکامیں محلہ قریشیاں میں غوث محمد قریشی کا گھر تھا۔اورنگ ذیب اور میاں طارق کو دوبارہ شاہد قریشی کیساتھ بھیجاکے وہاں سے ایک کلو ہیروئن خرید کرے اسے مبلغ تیس ہزار روپے بھی دیے اور خود قریب ہی ایک مسجد کی اوٹ میں کھڑے ہوگئے جبکہ سرکاری گاڑی کو وہاں سے آدھا کلومیٹر دور کھڑا کیا گیا تھا۔ میرے پاس چھوٹا وائرلیس سیٹ بھی تھا کیونکہ ان دنوں موبائل سروس نہیں ہوا کرتی تھی۔اورنگ زیب وغیرہ کو گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ غوث محمد کے گھر کی جانب سے شور اٹھا میں نے دیکھا کہ اورنگ زیب بھگتا ہوا آرہا ہے اور اسکے پیچھے تین چار افراد نے ڈنڈے اٹھائے ہوئے ہیں۔میں نے صورت حال بھانپتے ہوئے فوری طور پر وائرلیس پر سرکاری گاڑی کو کال کی مگر میرے وائرلیس سیٹ کی بیٹری کمزور ہونے کی وجہ سے سرکاری گاڑی میری آواز شاید نہیں سُن پا رہی تھی

Advertisements
julia rana solicitors london

اتنی دیر میں ان لوگوں اور اہل محلہ نے ہمارا گھیراو کرلیااوران کی عورتوں اور بچوں نے چھتوں سے ہم پر پتھراؤ شروع کردیا۔ خدا کو شکر ہے کہ سرکاری گاڑی نے وائرلیس سیٹ پر میری آوازسن لی تھی جیسے ہی سرکاری گاڑی پہنچی تو ان افراد نے اورنگ زیب کو چھوڑ دیا اسی ہنگامہ آرائی میں شاہد قریشی بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا۔سرکاری گاڑی اور ملازمین کے آنے پر میں نے اپنا تعارف کروایا اور محلہ کے ایک معزز شخص کو بتایا کہ ملازمان شاہد اور حامد نے ہمیں یہ ریڈ کروایا ہے اور ان کے قبضہ سے دوکلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے ہیروئن دیکھنے کے بعد لوگوں کا اشتعال کچھ کم ہوا اب اگلا مرحلہ غوث محمد کے گھر کی تلاشی کا تھا۔
میں نے کچھ ملازمین اور معززین کیساتھ گھر کی تلاشی لینا شروع کی گھر میں سوائے عورتوں اور بچوں کے کوئی مرد نہ تھا غوث محمد بھی شاہد قریشی کیساتھ فرار ہوگیا تھا۔پورے گھر کی تلاشی لینے پر کچھ بھی برآمد نہ ہوا میں پریشان ہوگیاایک تو دوسرا ضلع اور پھر میں نے تھانہ پر اطلاع بھی نہیں دی تھی۔ایک کمرہ میں ایک لڑکی لیٹی ہوئی تھی جس نے اپنی ٹانگوں پر رضائی ڈالی ہوئی تھی ساتھ ایک بزرگ خاتون بیٹھی تھی پوچھنے پر بتایا کہ یہ غوث محمد کی بیٹی ہے اسکو بچہ ہونے والا ہے۔میں نے جب لڑکی کو غور سے دیکھا تو مجھے چہرے سے وہ نہ تو حاملہ نظر آئی اور نہ ہی تکلیف کے کچھ آثار نظر آئے۔جوں ہی میں چارپائی کے قریب پہنچا تو لڑکی اور عورت نے شور مچانا شروع کردیا ایک لمحہ کے لیے میں بھی گھبرا گیا مگر نہ جانے کیوں میری چھٹی حس مجھے یہ بتا رہی تھی کہ ضرور کچھ ہے جسے چھپایا جا رہا ہے۔میں تیزی سے آگے بڑھا اور رضائی کو لڑکی کے اوپر سے ہٹا دیا میں اور میرے ساتھ آنے والے افراد کے منہ حیرت سے کھل گئے جب لڑکی نے اپنی ٹانگوں کے درمیان ایک بیگ چھپایا ہوا تھا۔میں نے فوری طور پر بیگ اٹھا لیا کھولا تو اس میں سے سات کلو ہیروئن کے پیکٹ برآمد ہوئے۔اب محلہ کے تما م افراد خاموش تھے کیونکہ ملزم غوث اور شاہد قریشی فرار ہوچکے تھے۔مغرب ہوچکی تھی میں فوری طور پر تھانہ کہڑوڑ پکا پہنچا ایس ایچ او موجود تھا میں نے اُسے ریڈ کا بتایا تو وہ پریشان ہو گیا تھانہ سے SSPحسین کرار خواجہ کو ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہوسکا ساتھ ہی ٹیلی فون ایکسچینج تھی وہاں جا کر خواجہ صاحب کوساری صورت حال سے آگاہ کیا جنھوں نے مجھے شاباش دی اور کہا کہ مقدمہ رحیم یار خان میں درج کرنا۔SHOتھانہ کہڑوڑ پکا پریشان تھا کہ کہیں میں مقدمہ اس کے علاقہ میں درج نہ کروں مگر میری یقین دہانی پر کہ اُس کے علاقہ میں مقدمہ درج نہیں کرنا اس کی جان میں جان آئی۔میں نے ٹیلی فون پر عارف نواز صاحب Asp کو بھی ساری صورت حال بتائی اور اُن کا شکریہ ادا کیا
میں نے اورنگ زیب سے پوچھا شاہد قریشی کیسے فرار ہوگیا تو اس نے بتایا کہ جوں ہی ہم غوث محمد سے ملے تو شاہد قریشی نے شور مچا دیا کہ یہ پولیس والا ہے اور تمہیں پکڑنے لے لیے پولیس آئی ہوئی ہے۔اب غوث محمد اور شاہد قریشی کی گرفتاری بقایا تھی کیونکہ شاہد قریشی نے وعدہ خلا فی کرتے ہوئے میرے لیے مشکلات پیدا کئیں چنانچہ میں نے دوکلو کا مقدمہ شاہد اور حامد قریشی کیخلاف تھانہ کوتوالی میں درج کروایا جبکہ سات کلو کا مقدمہ غوث محمد قریشی پر تھانہ سہجہ میں درج کیا ملزم حامد قریشی کو تھانہ کوتوالی بہاول پور پولیس نے چالان کیا محود اشرف گیلانی اکثر مجھ سے اس بات کا گلہ کرتے تھے
کچھ عرصہ بعد میں نے شاہد اور غوث محمدکو بھی گرفتار کرلیا جو چالان ہوئے اگلی میٹنگ میں DIG بہاول پور نے مجھے دس ہزار اور سرٹیفکیٹ انعام دیا آج جب میں یہ واقعات یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کیا میں صیح کرتا تھا اپنے ضلع سے دوسرے ضلع میں جا کر اس طرح ریڈ کرنا کیا درست عمل ہوتا تھا؟ اگر وہاں کوئی ایسا وقوعہ ہوجاتا یا کوئی بندہ مر جاتا تو کیا ہوتا؟
پولیس میں کام کرنے کا جزبہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف جنگ کرنے اور اُنہیں ختم کرنے کا عزم ہر مشکل پر غالب آجاتا تھا اور سب سے بڑی بات اُس وقت کے افسران بُردبار ہوتے تھے اور اپنے ماتحت ملازمین پر بھروسہ کرتے تھےاور ملازمین بھی اپنے افسران کو دھوکا نہیں دیتے تھے ظاہر ہے تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply