میلا مائن۔۔۔۔۔۔۔سلیم مرزا

میں اور تربوز دونوں لازم و ملزوم ہیں، مجھے تربوز سے عشق ہے، جب بھی آئینے کا سامنا ہوا ایک رس بھری سی تراوٹ کا احساس ہوا  ہے۔۔۔
اسکول سے واپسی پہ اٹھنی کا تربوز ،آگ برساتی دھوپ میں پڑا ہوا خرید کر لاتا، جلتی چھت پہ چھپ کر کھاتا ،کہ کوئی مانگ نہ لے۔۔یہ کمینگی نہیں تھی، محبت تھی، جس میں کوئی حصہ داری نہیں ہوتی
گوکہ بعد میں چھت پہ دیگر اسی قماش کی محبتوں پہ گوشمالی ہوئی لیکن تربوز کی حرمت پہ حرف نہیں آیا۔
تربوز کا لال نکلنا اور غریب کے لعل کا آگے نکلنا نصیب کی بات ہے ۔بھری جوانی میں بنکاک کی سڑکوں پہ نگاہیں سینکتے جب تربوز کے ڈھیر پہ نظر پڑی تو دوست سے پوچھا  “انگلش میں دوانے کو کیا کہتے ہیں “اسے شاید میرے عزائم کا اندازہ نہیں تھا بے دھیانی میں خربوزے دیکھ رہا تھا کہنے لگا۔۔۔
“واٹر میلن “۔۔۔
میں بھاگ کر ڈھیر کے پاس پہنچا، اور تربوز بیچنے والی لڑکی سے، جس کا تربوزوں سے دور تک بھی واسطہ نہیں تھا جا پوچھا،
“ہاؤمچ دس میلامائن “۔۔۔
بولی بیس کا ایک اور وہ بھی کاٹ کر۔دو تربوز کٹواکر لفافہ  لیکر سیدھا ہوٹل کے کمرے میں پہنچا، شوازریگل کو فریج کے اوپر اور تربوزوں کو اندر رکھا۔۔
پہلے پہل تو دوستوں نے مذاق اڑایا، پھر تربوز روز مرہ کا حصہ بن گیا۔اب دو تربوز روز آنے لگے،
ایک روز میں نے کہا کہ آج کوئی اور جائے اور لے آئے، بلال گیا اور تربوز لیکر آگیا، رات کلب سے نکلے راستے میں اسے کچھ یاد آیا۔۔۔۔کہنے لگا یار وہ تربوز والی لڑکی تم کو ہیلو بول رہی تھی، پوچھ رہی تھی۔۔۔
“آج میلا مائن نہیں آیا”؟۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply