پشتونوں /افغانوں کی تاریخ کے حوالے سے بہت سے متضاد دعوے کئے جا چکے ہیں۔اس سلسلے میں آرین سے لے کر بنی اسرائیل اور البانیہ سے لے کر ورجینیا اور ابنی پخت تک کے سارے قلابے ملائے جا چکے ہیں۔ ابنی پخت اس وقت کے موآب کے ساکنان تھے۔موآب کا ذکر انجیل مقدس میں تفصیل سے موجود ہے۔ تمہید کو طویل کئے بغیر ہم افغان مورخین کے دعووں کو مختصر الفاظ میں یہاں بیان کئے دیتے ہیں تاکہ اس پر بحث کرنے میں آسانی ہو۔
افغان
افغان سلسلہ انساب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یرمیاہ بن ملک طالوت کا افغانہ نام کا ایک بیٹا تھا۔ یرمیاہ اور ملک طالوت چونکہ یکے بعد دیگرے وفات پا گئے اس لئے افغانہ کی پرورش حضرت داؤد علیہ السلام نے کی۔ بعد میں وہی افغانہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی فوج میں کمانڈر بنا۔ مذکور بالا افراد حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل) کی نسل سے تھے اس لیے انہیں بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے جن سے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔ چار سو سال بعد جب شملنصر یا پھر بخت نصر نے بنی اسرائیل کے بارہ میں سے دس قبیلوں کو شکست دی تو ان دس قبیلوں کو بخت نصر نے جلا وطن کر دیا۔ جو وہاں سے بھاگ کر مختلف علاقوں میں جا بسے۔ ان میں سے زیادہ تر عرب سر زمین پر آباد ہوئے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ موجودہ افغانستان کے پہاڑوں میں آکر بس گئے۔ یہ بات اس لیے مفروضے پر مبنی ہے کہ آبائی علاقے سے نکالے جانے کے بعد تاریخ اس حوالے سے عاجز ہے کہ یہ فی الواقع کہاں چلے گئے۔ کیونکہ باقی بچ جانے والے دو قبیلوں کا ان دس قبیلوں سے بعد میں نہ کبھی کسی قسم کا کوئی تعلق رہا اور نہ ہی ان کا آپس میں خط و کتابت کا کہیں ذکر موجود ہے اس لئے آج بھی ان دس قبیلوں کو گم شدہ قبائل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اسی سلسلے کا دوسرا مشہور ترین واقعہ قیس عبدالرشید کا ہے۔ (یہ اوپر والے واقعے کے 1300سال بعد کی بات ہے) جب مکہ میں ظہور اسلام ہوا تو کہا جاتا ہے کہ حضور پاک صلعم کے کہنے پر خالد بن ولید نے سرزمین افغانستان میں موجود ان قبائل کے پاس ایک خط بھیجا۔ جس کے نتیجے میں افغانوں کا ایک وفد قیس عبدالرشید کی سربراہی میں مدینے گیا۔ جہاں وہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ حضور صلعم نے قیس کا اسلامی نام عبدالرشید رکھا۔ اور کسی جنگ میں ان کی بہادری کو دیکھتے ہوئے انہیں بتان کا لقب دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بتان عربی میں کشتی کے پیندے میں استعمال ہونے والی سخت لکڑی کو کہا جاتا ہے۔
ہم پشتونوں کے نقش پا کو نئے سرے سے ڈھونڈنے کی بجائے اسی کا ہی ملاحظہ (پوسٹ مارٹم) کرتے ہیں۔
اعتراضات
افغانستان میں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی ایک بڑی تعداد کے آباد ہونے کے تقریباً تیرہ سو سال بعد قیس عبدالرشید نے مدینہ کا سفر کیا۔ یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ تیرہ سو سال کے اس طویل عرصے کے بیچ میں بنی اسرائیلیو نے صرف بکریاں ہی چرائی ہیں یا انہوں نے اپنی کوئی ریاست بھی تشکیل دی تھی۔ اگر ریاست تشکیل دی تھی تو اس ریاست کا نام کیا تھا اور اس حصے کی سیاست پر انہوں نے کتنا اثر ڈالا تھا؟ کیا تاریخ میں اس کا کوئی ادنیٰ سا ذکر بھی موجود ہے؟
دوسری اور اہم بات۔ بنی اسرائیل یہودیت کے پیروکار تھے۔ عرب سر زمین کی طرف آنے والے یہودیوں نے اپنا دین نہیں بدلا تھا۔ اسی طرح ظاہر ہے Once a jew always a jew کے مصداق افغان سرزمین پر آکر بسنے والے یہودیوں نے بھی اپنا دین نہیں بدلا ہوگا۔ تو کیا افغان/پشتون تاریخ کو یہودیوں سے ملانے والوں کے پاس ایسے شواہد ہیں کہ پشتون یا افغان مسلمان ہونے سے پہلے یہودی تھے۔ اسلام سے پہلے پشتون یا افغان دین کے بارے میں کسی نے کچھ لکھا ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی مستند کتابی یا متواتر بات کا ذکر تاریخ میں کہیں موجود تھا تو آج تک کسی نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔
بالفرض افغان/پشتون بنی اسرائیل کے یہودی تھے تو فطری طور پر پشتونوں یا افعانوں کو مسلمانوں کے پاس جانے کی بجائے مدینہ کے یہودیوں کے پاس جانا چاہیے تھا۔ یہ بات تو سرے سے پشتون ولی کے ہی خلاف ہے اور خلاف عقل بھی ہے کہ اپنوں کی مدد کرنے کی بجائے پشتون ان کے دشمنوں کا ساتھ دیں۔ پشتون فطرت یا پشتون ولی کو سمجھنے والا اس بات کو ہضم کر ہی نہیں سکتا۔ یہ بہت بڑا تضاد ہے۔
کیونکہ شاعر کہتا ہے کہ
پختو یو ژبہ دا، د ژبہ بہ فرنگ ھم زدہ کڑی
پختون ولی چے پکے نہ وی، آ پختون نہ منم
اس کے علاوہ حضور پاک صلعم کا قیس کو خط بھیجنے، ان کا وفد کے ہمراہ آنے اور پھر کسی جنگ میں بہادری کے بے مثال جوہر دکھانے کا اسلامی تاریخ کے کسی مستند کتاب میں کوئی ذکر ہے؟
نعمت اللہ نے “مخزن افغانی” میں قیس کے تین بیٹوں کا ذکر کیا ہے سربن، بیٹن اور غرغشت جبکہ کرلان کو قیس کا پوتا تو بتایا ہے لیکن کرلان کے والد کا نام نہیں بتا سکا ہے۔ یہی لکھا کہ کرلان کی کفالت اور پرورش سربن نے کی۔ باقی تمام پشتون شجرہ نویسوں نے کرلان کی کفالت اور پرورش کے ذمرے میں غرغشت کا نام لکھا ہے۔ پرورش جس نے بھی کی لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ کرلان قیس کی نسل اور وراثت میں حصہ دار تھا۔ ایک ایلفنسٹون (سکاٹش مورخ) ہی واحد شخص ہے جنہوں نے قیس کے چار بیٹے لکھے ہیں۔ سربن، بیٹن ۔غرغشت اور کرلان۔
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قیس بنی اسرائیل کے افغانہ قبیلے کا ایک فرد تھا اس قبیلے کا، جو تیرہ سو سال سے افغان سرزمین پر رہ رہا تھا۔ ظاہر ہے تیرہ سو سال میں ان کی تعداد اگر لاکھوں میں نہیں ہوگی تو بھی یہ بات تو پکی ہے کہ انکی یہ آبادی بیسیوں ہزار نفوس تک تو پہنچی ہی ہوگی۔
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی نسل کے ہزاروں افراد میں سے صرف ایک آدمی قیس کی نسل آگے چلی ہو اور باقی ہزاروں افراد کی نسلوں کا کچھ پتہ نہ ہو۔ اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ قیس کی نسل کے نام بھی معلوم ہیں۔ شجرہ بھی موجود ہے۔ یہ اپنی نسلی اور قبائلی شناخت کے ساتھ پوری دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جبکہ باقی ہزاروں افغانہ بنی اسرائیلیو کے کسی ایک فرد کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔ ہے نا بڑی عجیب بات۔
کیا تیرہ سو سال سے موجود افغانہ نسل کے ان ہزاروں بنی اسرائیلیو میں سے صرف ایک قیس ہی بچا تھا۔ باقی ہزاروں افغانہ بنی اسرائیلیو کی نسلیں کدھر گئیں۔ یہ بھی تو ممکن نہیں کہ باقی سب مر کھپ گئے ہوں۔ آج تک کسی مورخ یا شجرہ نویس نے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی۔ یہ تضاد افغانہ بنی اسرائیلیوں کے شجرہ نسب پر سوال بن کر کھڑا ہے۔ جب تک اس سوال کا جواب نہیں دیا جاتا قیس عبدالرشيد سے آگے بڑھا ہی نہیں جا سکتا۔ یا تو آپ کو قیس کے ساتھ رہنے والے ان ہزاروں افغانہ بنی اسرائیلیوں کا شجرہ نسب بھی بالکل ایسے ہی بتانا ہوگا جیسے قیس کا بتا رکھا ہے یا پھر آپ کو بنی اسرائیلیوں والے دعوے سے دستبردار ہونا ہوگا۔ اور اس بات کا اقرار کرنا ہوگا کہ بنی اسرائیلیوں والی بات ایک من گھڑت اور فرضی کہانی تھی۔ یعنی کہ ایویں گلاں ای بنیا نیں۔
حقیقت یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں