کہیں رسّی پھسل نہ جائے ۔۔۔۔ قاسم سید

اڑی فوجی کیمپ پر دہشت گردانہ حملہ نے ملک کے سیاسی منظرنامہ کے سمندر میں ارتعاش پیدا کردیا ہے اور وہ مسائل جو مودی سرکار کے لئے گلے کی ہڈی بن گئے تھے، عارضی طور پر ہی سہی پس منظر میں چلے گئے۔ انتقام اور بدلہ کے نعروں کو میڈیا کے جنونی طبقہ کی طرف سے ہیجان میں بدلنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کی احمقانہ اور دہشت گردانہ حرکتوں نے اس کے لئے تو عرصہ حیات تنگ کردیا ہے اور یہ بہت اچھا ہے کہ حکومت نے سفارتی و اقتصادی سطح پر اس کی نسیں دبانے کی پالیسی اختیار کی ہے، ورنہ جنگ باز حلقہ حملہ کے سوا اور کچھ سننے اور دیکھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے اور وزیراعظم کی کوزی کوڈ تقریر کے بعد بھی اس کے جارحانہ رویہ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ بھرپور جنگ کے نتائج بہت ہولناک ہوتے ہیں۔ اگر فریق کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی خواہش پوری کردی جائے تو ایسی جنگوں کے اثرات دوسرے فریق پر بھی پڑتے ہیں اور وہ سالوں پیچھے چلا جاتا ہے۔ سبرامنیم سوامی جیسے لیڈروں کی نظر میں دس کروڑ انسان مر بھی جائیں تو 125 کروڑ کی آبادی والے ملک پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ ان دس کروڑ انسانوں میں خود کو بھی شمار کرتے ہیں یا نہیں، مگر صرف انسان نہیں مرتے، جنگ کی آگ میں بہت کچھ بھسم ہوجاتا ہے۔ وہ یہ ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ پاکستان میانمار نہیں اور ہندوستان امریکہ نہیں۔

جہاں تک سرکار کے رویہ کا سوال ہے وہ یقینی طور پر براہ راست جنگ کے خلاف نظر آتی ہے۔ اس کے اقدامات، بیانات اور رویہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ حالانکہ سرکار میں ایک طبقہ ایسا ہے جو فوجی کارروائی کے حق میں دلائل رکھتا ہے، مگر مودی سرکار عالمی تناظر میں ایسے کسی اقدام سے بچنا چاہتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سرکار کا رویہ اور پالیسی عوامی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ یہی وقت اس کے تدبر، تحمل اور سوجھ بوجھ کے امتحان کا ہوتا ہے۔ بلند بانگ باتیں، بڑبولاپن اور قد سے اونچی آوازیں گلے کا پھندا بن جاتی ہیں، ان سے گلوخلاصی آسان نہیں ہوتی۔ دراصل عوام کے جذبات کو اس درجہ حرارت میں پہنچادیا جاتا ہے جب اس کی لہریں سونامی کی طرح زورآور اور تباہ کن ہوجاتی ہیں۔ انھیں قابو میں کرنا آسان نہیں ہوتا۔

مودی سرکار ان دنوں توازن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس دلدل سے باہر آنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس ماحول کو ٹھنڈا ہونے نہیں دینا چاہتی، اس لئے سفارت کاری کے پٹارے سے ایک ایک رسّی نکال کر اسے سانپ بناکر سامنے لارہی ہے تاکہ یہ دکھائی دے کہ وہ پاکستان کی کمر توڑنے کے معاملہ اور ارادہ میں سنجیدہ ہے، اس سے انتقام پسند ذہنیت کی تسکین ہوتی رہے اور انتخابات تک گرمی برقرار رہے۔

آر ایس ایس اور اس کی شکمی تنظیموں نے 96سال سے ملک میں فرقہ وارانہ تعصب، تنگ نظری اور نفرت کا ماحول بنانے کے لئے اَن تھک کام کیا، اس کے برگ و بار اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ سرکار کی خاموش حمایت نے ایسے عناصر کو توانائی دی، کبھی کبھی سرکار کی طرف سے دی جانے والی بھبکیاں اس لئے کارگر نہیں ہوتیں کہ یہ عمل ماں کے ضدی نافرمان بچے سے روٹھنا جیسا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ تھپڑ لگاتی ہے تو اس میں بھی پیار چھپا ہوتا ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے گئو رکشکوں یا زہر میں بجھے بیانات دینے والوں کو جھڑکیاں بھی اسی پس منظر میں دیکھی جانی چاہئیں۔

ہندوستان کا ہر شہری دل سے چاہتا ہے کہ ایسے حملوں کے قصورواروں کو سبق سکھانا چاہئے اور اس کا اب سدباب کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ روز روز کے تنائو سے آزادی حاصل کی جائے اور قضیہ کو ختم کیا جائے، مگر اس کے بہانے مصنوعی قوم پرستی کا جو طوفان مچایا جاتا ہے وہ نتائج کے اعتبار سے بہت خطرناک ہے۔ اگر اس موقع پر کوئی یہ سوال اٹھادے کہ آخر پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ میں سیکورٹی کوتاہی کا جائزہ کیوں نہیں لیا گیا اور اس کے صرف چھ ماہ بعد اڑی فوجی کیمپ کو نشانہ بناکر 19 قیمتی جانیں لے لی گئیں تو ہمارا انٹلیجنس سسٹم اور سیکورٹی نظام کہاں تھا جو آئے دن ہائی الرٹ جاری کرتا ہے اور جب اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ حملہ کا اندیشہ پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا تو سیکورٹی میں چوک کیوں ہوئی تو ایسے سوالوں کو قوم سے غداری اور پاکستان سے ہمدردی کا چولا پہناکر اپنی سنگین خامیوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایسی باتوں سے پاکستان کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔

قوم کو متحد نظر آنا چاہئے۔ سوال اٹھانے والوں کی حب الوطنی پر فوراً سوالیہ نشان لگادیا جاتا ہے۔ برائی ہمیشہ اچھائی کا لباس پہن کر آتی ہے۔ جس طرح شیطان برائی پر ورغلانے کے لئے حسین توضیحات پیش کرتا ہے، فسطائیت ہمیشہ قوم پرستی کی آڑ میں اپنی جگہ بناتی ہے، لیکن فاشزم کا انجام آخرکار تباہی ہوتا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی سے تاریخ نے کیا سلوک کیا اور خود ان ملکوں کا کیا حشر ہوا سب واقف ہیں۔ ہندوستان کا کون سا لیڈر مسولینی سے ملنے گیا تھا اور واپس آکر کن خیالات کی تشہیر کی۔ کس تنظیم کے یہ دونوں لیڈر پہلی پسند ہیں، کھلا راز ہے۔

قوم پرستی آکٹوپس کی طرح جب اپنے پوشیدہ پیر باہر نکالتی ہے تو پھر دوست و دشمن کا اعتبار بھول جاتی ہے اور اپنے بچوں کو ہی نوالہ بنالیتی ہے۔ اسے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ صرف اخلاق کا قتل نہیں کرتی، وہ ہریانہ میں بیف بریانی کا سمپل نہیں لیتی، وہ مہاراشٹر کے محسن کو پیٹ پیٹ کر موت کے حوالے نہیں کرتی، وہ صرف مظفرنگر میں ہی ابلیسی رقص نہیں کرتی، وہ صرف میوات میں دو معصوم لڑکیوں کی عصمت دری نہیں کرتی، بلکہ حیدرآباد میں روہت ویمولا کو خودکشی پر مجبور کردیتی ہے، کنہیا کمار کو عدالت میں پیشی کے وقت گھیرکر مارتی ہے اور قانون ساز ادارہ کا ممبر اسے گولی مارنے کا سرعام اعلان کرتا ہے اور قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑتا، پھر وہ اونا میں اپنے ہی مبینہ بھائیوں کو گئورکشک بن کر زنجیروں سے باندھ کر پیٹ پیٹ کر ادھ مرا کردیتی ہے۔ وہ اپنی ہی کمیونٹی کی حاملہ عورت کو اس لئے تڑپا تڑپاکر مارتی ہے کہ اس نے مری گائے کے باقیات اٹھانے سے منع کردیا تھا۔ وہ دلتوں کو نل سے پانی بھرنے، اپنے کھیت سے ان کی میت کے گزرنے اور بارات لے جانے اور گھوڑی پر چڑھنے کی عبرتناک سزا دیتی ہے۔ گستاخی کرنے پر زبان کاٹ لیتی ہے، قوم پرستی شرپسندوں، غنڈوں، سماج دشمن عناصر کو بھی محترم بنادیتی ہے جن کو ہمارے وزیراعظم بھی غنڈے کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مصنوعی قوم پرستی کا بخار نتائج کے اعتبار سے چکن گنیا اور ڈینگو سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہوتا ہے۔ قوم پرستی کا لبادہ پہن کر کتنے آسارام اس ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں، اس لئے پاکستان کے خلاف جتنا پروپیگنڈہ کرنا ہے کیجئے، جنگ کرنی ہے ضرور کیجئے، اسے سبق سکھانا ہے، قدم پیچھے مت ہٹائیے۔ اس کا نام و نشان مٹادینا ہندوستان کی بقا کے لئے ناگزیر ہے تو بسم اللہ کیجئے، کوئی آپ کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے، مگر اس کے بہانے میڈیا کے جارح گروپ کو نفرت پھیلانے اور دہشت پیدا کرنے کی اجازت مت دیجئے۔ اس کی آڑ میں کسی مخصوص فرقے، مذہب اور گروپ کو لعن طعن کرنے اور ستانے کا ماحول مت بنائیے۔ اگر آپ کے گرو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی خوشامد مت کرئیے، ان کی توقیر و عزت مت کرئیےتو ملک کے پردھان سیوک کے طور پر یہ کہنا کتنا حق بجانب ہے اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی، لیکن آپ کے مداح اسے پیغام و ہدایت سمجھ کر اپنے عمل میں مزید شدت پیدا کریں تو کیا یہ ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔ تنقید کو مخالفت اور مخالفت کو دشمنی سمجھنے کی ذہنیت ہندوستان جنت نشان کو دوزخ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ملک سے بغاوت اور غداری کے مقدموں کی بڑھتی رفتار بتاتی ہے کہ اشارے اچھے نہیں ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر ملک کو قیدخانے میں بدلنے کی ذہنیت ایشیا کی بڑھتی ہوئی قوت کے طور پر شناخت کو داغدار کرنے میں ہی معاون ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ رسّی ہاتھ سے پھسل جائے۔ چلئے ہندوستان نے سرجیکل اسٹرائک کرکے مشتعل قومی جذبات کو تھوڑا سکون پہنچادیا۔ آگے اللہ خیر کرے .

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply