اسامہ، حمزہ اس عمر میں اتنی سنجیدگی۔۔۔۔عفت نوید

تصویرمیں بچے ہی بہت پیارے سلجھےہوئے، سنجیدہ لگ رہے ہیں۔یوں نہیں لگتا کہ اس حسین عمر کی مستی انہوں نے کبھی کی ہو گی۔ پر ایسی بھی کیا سنجیدگی کہ دنیا ہی چھوڑ گئے۔۔
گھر میں بے حساب پیسہ ہو یا حساب سے خرچ کیا جاتا ہو، ماں باپ کا پیار بچوں کے لیے بے حساب ہوتا ہے۔ دفتر، گھر گاڑی، میٹنگ ہر جگہ بس بچوں کی شکل آنکھوں میں اور دل ان کی خیریت کے خیال لبریز رہتا ہے۔ اور اگر بچہ اٹھارہ سال کا ہو جائے تو اس عمر کی جولانی ایک الگ دنیا دکھاتی ہے، اس کے رویوں میں باغیانہ لہر، مزاج میں ضدی پن اور عادات میں عجیب سی پر اسراریت آجاتی ہے۔

ماں باپ کی فکر مند طبیعت کےخیال سے وہ بہت کچھ نا چاہتے ہوئےبھی چھپانے لگ جاتا ہے۔ اور جو کبھی سچ آشکار ہو تو شرمندہ ہو نے کے بجا ئے ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے۔ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے۔۔ بچوں کا ہر قدم والدین کی دھڑکنوں کو سہمائے رکھتا ہے، اٹھتے بیٹھتے بچے کی زندگی کی فکر، اس کے مزاج میں شدت جیسے جیسے بڑھتی ہے والدین کے واہمے انہیں سونے نہیں دیتے  اور بچوں کو لگتا ہے بس زندگی کے ان ہی سالوں کو جینا ہے، دل میں موت کا خوف نہ کسی حادثے کا ڈر۔۔

وسوسے، اوہام، ڈر، خوف، فکر، پریشانی والدین کے سپرد کر کے خود موت کے ساتھ دوڑ لگانے لگتے ہیں، کبھی یہ جیت جاتے ہیں اور کبھی موت جیت جاتی ہے۔ تب پھر یہ سوتے بن جاتے ہیں۔لاکھ آوازوں پر بھی نہیں اٹھتے۔۔

بیٹا! تم سے گھر میں رونق،گھر والوں کے دل آباد، دماغ آسودہ، روح سرشارتھی ، تمہاری ماں کے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں ، کان, دل سب تمہارے خیال سے ہر وقت مصروف رہتے تھے۔ اب دیکھو تمہارے باپ کے پاس اس بےوقت موت کی کوئی دلیل نہیں ، کیسا کنگال ہو گیا ہےاس کے پاس تمہاری ماں کو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیٹا! دنیا سے جاتے ہوئے خیال تو کرتے۔۔ ماں باپ اتنے فالتو اعضا کا اب کریں گے کیا؟۔۔۔۔۔ عمر کی باقی صدیاں کیسے گزاریں گے، تم تو اپنے ساتھ سورج چاند ہی لے کر چلے گئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply