سیاست اور خواتین ۔۔۔۔ غزالہ اشرف

اگر کسی بھی شعبہ زندگی کا جائزہ لیاجائے، چاہے وہ میڈیا ہو، شو بز ہو، سرکاری محکمہ جات ہوں،تعلیمی ادارے ہوں یا پرائویٹ کمپنیاں، ہر جگہ ہی عورت کے لئے اس کے باس یا اسکے کولیگ مرد حضرات کا پہلا رویہ اسکو متاثر کرنے اور اس کے قریب ہونے کی کوشش کرنے والا ہی ہوتا ہےـ عورت جو فطری طور پہ صرف اور صرف عزت کی طلبگار ہوتی ہے، وہ مرد کے ہر رویے کو محسوس کر سکتی ہے اور اسی رویے کے باعث اسے اپنے کام کو بہتر انداز میں سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ خود کو محفوظ رکھنے کی ڈبل محنت کرنا پڑتی ہے اور خود کو کسی حد تک ریزرو بھی رکھنے لگتی ہے ـ یہاں سے شروع ہوتا ہے استحصال کا وہ دور جو عورت کی زندگی کو دشوار تر بنا دیتا یے۔ اس دور میں وہ کم ظرف مرد حضرات جو اس کی قربت حاصل کرنے کے لالچ میں اس کے ہمدرد بنے ہوتے ہیں عورت کی طرف سے مطلوبہ ردعمل ملنے میں ناکامی کا احساس ہوتے ہی اس کے خود ساختہ دشمن بن جاتے ہیں ـ پھر اسے ہر طرح سے ستایا جاتا ہے ـ اسکے باسز اور افسر اس سے دگنا کام لےکراسے بلاوجہ پریشان کرنے لگتے ہیں ـ اسکے کولیگز اسکے لئے قدم قدم پہ رکاوٹیں کھڑی کرنے لگ جاتے ہیں ـ اپنی نجی مردانہ محفلوں میں اسکی غیبتیں کرتے ہیں ـ اس پہ بہتان باندھتے ہیں، اور اسی طرح کی بہت سی باتیں۔

میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہی کہ سارے ہی مرد ایسے ہوتے ہیں ـ بہت سے مرد بہت اچھے اور نائس بھی ہوتے ہیں، جن کی اعلی تربیت ہوتی ہےاور خوف خدا بھی، اور اخلاقی شعور بھی، اس لئے وہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کوئی عورت کن حالات میں باہر نکلتی ہے، ان کا ضمیر اور ان کے اندر کی حقیقی مرادنگی ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ عورت کی عزت کریں اور معاشرہ میں اس کے لئے آسانیاں پیدا کریں، عورت کی فطری نظر اور خیال کو سمجھنے کی حس اسے بھی محسوس کر لیتی ہے اور نتیجہ کے طور پہ ایسے لوگوں پہ کسی حد تک بھروسہ کر نے لگتی ہے اور اس بات پہ گھٹیا سوچوں کے حامل لوگ خوب کہانیاں گھڑتے اور اچھالتے ھیں۔

بد قسمتی سے یہ رویہ برصغیر کے تمام ممالک میں اکثریتی رویہ ھے اور پاکستان اور بالخصوص پسماندہ علاقوں میں ایسا کچھ زیادہ ہی ہوتا ھے، اور زندگی کے ہر شعبے میں  ہوتا ہے،تاہم سیاست کے میدان میں اسکا انداز تھوڑا سا مختلف ہےـ پاکستانی سیاست میں غریب گھرانے کی عورت کا سیاست میں آنا اور رہنا ناممکن کام سمجھا جاتا ہے ـ سیاست میں آنا اور رہنا صرف جاگیردار طبقہ اور بڑے سیاسی گھرانوں کی خواتین کے لئے ہی مخصوص ہے۔ اگر کوئی باصلاحیت اور باہمت غریب لڑکی اس میدان میں آ بھی جائے تو اس کی حوصلہ افزائی بہت ہی کم کی جاتی ہے، سیاست کی دنیا کے مرد پوری جان لڑا دیتے ہیں کہ وہ عورت ان کی ہی انگلی پکڑ کے چلے اور اگر ایسا نہ کرے تو اپنی ہی پارٹی کے مرد حضرات، پارٹی کے صحافی، پارٹی میں موجود سرمایہ دار خواتین قدم قدم پہ اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ اخبارات کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اس کی خبر نہ چھاپیں، اسکا ذکر نہ کریں۔ اسکی محنت اور اس کے کام کو اپنے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، اس کی محنت کی کوئی رپورٹ پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو نہیں پہنچائی جاتی ، یہیں پہ بس نہیں، خود اس کی پارٹی میں اور خواتین کو اس کے مقابل یا اسے دبانے کے لئے ابھارا جاتا ہے ـ

یہ سب ہے ہماری سیاست کی صورت حال تاہم کشمیر میں مسلم لیگ ن واحد جماعت ہے جو غریب گھرانوں سے خواتین کو سپورٹ کرتی آئی ہے اور خواتین کو موقع دیتی رہی ہے ـ مسلم لیگ ن کشمیر کی خواتین ونگ کی صدر محترمہ نورین عارف صاحبہ اور دیگر مرکزی رہنما خواتین محترمہ نصرت درانی صاحبہ اور محترمہ الماس گردیزی صاحبہ نے بے حد محنت اور لگن اور مسلسل کوشش سے اپنے مقام بنائے ھیں اور اب انکی رہنمائی میں خواتین ونگ غریب عوام میں سے باصلاحیت اور باحوصلہ خواتین کو گاوں محلہ کی سطح پر منظم کر کے خواتیں کو آگے لانے پہ محنت کر رہا ہےـ عام خواتین کے لئے ان عظیم قائد خواتین کی سوچ اور مسلم لیگ ن کی محنت کی مثال انگریز کے دور میں سر سید کی کوشش اور سوچ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ھے اور تاریخ کشمیر کے غریب طبقہ کے لئے ان کے اس احسان کو بالکل ایسےہی یاد رکھے گی جیسے برصغیر میں سر سید کو یاد رکھا جاتا ھے.

Advertisements
julia rana solicitors

غزالہ اشرف ضلع ہٹیاں بالا، آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن خواتین ونگ کی صدر ہیں اور طویل عرصے سے سیاست کے ساتھ وابستہ ہیں ـ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply