شجر ہائے ممنوعہ ۔۔۔۔ سعدیہ سلیم بٹ

تقریباً سب ہی معاشروں میں جہاں کچھ بہت ہی اچھی روایات پائی جاتی ہیں تو دوسری طرف کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو کسی دوسرے معاشرے کے لیے تو عجیب کہی جا سکتی ہیں تاہم اس معاشرے کے اندر رہنے والے بھی جیسے جیسے ذہنی ارتقاء کے مراحل سے گزرنے لگتے ہیں، ویسے ویسے ان چیزوں سے تنگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں. ان ٹیبوز کو معدوم ہونے میں صدیاں لگتی ہیں. اسی وجہ سے ہر دور میں ان ٹیبوز کے باغیوں کو اکثر انتہائی اعصاب شکن اور بعض اوقات انتہائی مضحکہ خیز حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے.

میرے دانشور بننے کے شوق نے آج کے دانشوروں کی فہرست دیکھ کر پتلی گلی سے نکلنے میں عافیت ہی جانی ورنہ میں ضرور ان ٹیبوز کے خلاف ایک لمبا چوڑا آرٹیکل لکھتی اور ثابت کرتی کہ ہم پاکستانی آج تک کس قدر پست ذہن ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو یقین دلا دیتی کہ ان کی مطالعہ پاکستان کی کتاب  “اساطیر الاولین” کے سلسلے میں سے ہے. تاہم  خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ جس کی واحد وجہ یہ کہ ابھی تک مجھے فرنگی کے دیار کا دیدار ہی نہیں ہوا، اس لیئے میں اس تھالی میں چھید نہیں کر سکتی جس سے کھاتی ہوں. ہاں البتہ اپنی اییسی چیزوں پر میں ہنس بھی سکتی ہوں اور ہنسا بھی سکتی ہوں.

ایسے ہی ٹیبوز کو مکالمے کا موضوع بنایا جائے اور ایک سلسلہ شروع کیا جائے تو شاید آنے والے سالوں میں لوگ تھوڑا بدلنے لگیں. لیکن مجھے ان ٹیبوز (ممنوعات) کا خیال بلا وجہ نہیں آیا. نیوٹن کے سر پر سیب گرا. کسی اور کے سر پر گرتا تو بات آئی گئی ہو جاتی. لیکن چونکہ نیوٹن تھا تو ہم پھنس گئے. اسی طرح کولمبس کی بجائے امریکہ میں دریافت کر لیتی تو بھی کسی کو پتہ نہ چلتا. میں آرام سے آ کے اپنے نصف بہتر کو بتاتی کہ وہاں میں نے کچھ دیکھا. اور وہ مجھے جواب  دیتے کہ تم عورتوں کو تو بس ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا ہی نظر آتا ہے. اور بات رفع دفع ہو جاتی. لیکن کولمبس کا کیا کرایا ہمیں بھگتنا پڑ گیا. شاید اسی وجہ سے جو لڑکا گھر والوں کے قابو نہ آتا ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ بیاہ دو. مبادا وہ کوئی اور امریکہ دریافت کر لے اور ہم دو امریکاؤں میں ویسے ہی پھنس جائیں جیسے رضیہ غنڈوں میں پھنس جاتی ہے.

ویسے یہ بھی ایک کوتاہ نظری ہے. بات ہمارے اندر صلاحیتوں کی کمی کی ہے. آج کل کے میاں تو دو بیویاں نہیں سنبھال سکتے. حالانکہ کالجز کی بچیاں کئی بوائے فرینڈ سنبھال کے بیٹھی ہوتی. اگر یہی میاں دو بیویاں سنبھال لیں تو دونوں کی مجال نہ ہو لڑنے کی. دونوں آپس میں ہی مقابلہ کر کر رہ جائیں. ایسے ہی اگر ہم ایک امریکہ اور دریافت ہونے دیں تو دونوں امریکہ آپس میں ہی ایک دوسرے کی فکر میں مارے جائیں. دیکھیے بات بہک کر کہاں آ نکلی. تو ہم ممنوعات کا ذکر کر رہے تھے. میرے لیئے ممنوعات کی سب سے زیادہ کوفت دینے والی (کم از کم میری ذات کی حد تک) قسم وہ ہے جس کا تعلق روزمرہ کی زندگی سے ہے. اور جن سے میرا سابقہ کہیں نہ کہیں پڑتا رہتا ہے. لکھنے کو کچھ نہ ملا تو میں نے ماضی کی پٹاری سے کچھ ممنوعات نکال لیں. ماضی میں جینے کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے کہ اپنی مرضی کی چیز کے علاوہ باقی چیزیں چھوڑی جا سکتی ہیں. میں جب لڑکپن میں تھی تو پیلا رنگ پہننا بھی ایک طرح کا ٹیبو تھا. پیلے رنگ کو پہن کر بیٹھ جاؤ تو ہر ایرا غیرا نتھو خیرا چلتے پھرتے بولتا “اوہووووووو….. پیلا رنگ…. مایوں ہے کیا….” اللہ گواہ ہے ایسی دھاک تھی پیلے رنگ کی کہ جب بچپن میں یرقان ہوا اور ڈاکٹر نے کہا کہ اس میں آنکھیں پیلی ہو جاتی تو مجھے لگا شاید اب ڈاکٹر ابا جی کو چھپ کر کہے گا جب بچی کی آنکھیں پیلی ہو جائیں تو اس کی شادی کر دینی چاہیے. خیر ایسا کچھ نہیں ہوا ورنہ اس وقت میں تو این جی او والی آنٹیاں بھی نہیں تھی. نہ ہی میڈیا تھا.

خیر وقت گزر گیا. اور وہ وقت آیا کہ اب اگلے ممنوعہ رنگ کا پتہ لگا. معلوم ہوا اگر آپ جوانی میں شادی نہیں کرتے تو خاندان کے منہ پر کالک ملے جانے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں. ویسے پاکستان میں جوانی ایسی چیز ہے جو کسی پر نہیں آتی. یا تو آپ کی شادی 18 سے پہلے ہو جاتی ہے اور آپ کی عمر وہیں روک دی جاتی ہے. ایسے بندوں کو 50 سال کی عمر میں عمر پوچھو تو کہتے زیادہ نہیں ہے. ماں باپ نے بچپن میں بیاہ دیا. جس کی 22 کے بعد شادی ہو اس کو کہتے اس نے تو بڑھاپے میں شادی کی. اورجس کی 18 سے 22 کے درمیان ہو وہ کہتا ہم ہر تو جوانی آئی ہی نہیں ہم تو شروع میں ہی دھر لیئے گئے. ہم جب 20 سال تک منگے ٹنگے نہ گئے تو ایک جاننے والی اماں حضور سے بولی بیٹی کو عینک لگوا دی گھر بٹھا کے، اب کیا کب بھی نکلواؤ گی. ہماری دانشوری کی واحد نشانی ہماری عینک تھی. جس کی توہین پر دل تو چاہا کہ کولڈ ڈرنک کا گلاس ان خاتون کے سر پر انڈیل دیں مگر وہ بھی ایک ٹیبو تھا.

پرانے دنوں کی بات چل نکلی تو ایک اور شجرِ ممنوعہ تھا اچار یا املی کھانا. ذرا دو چیزوں کو ہاتھ لگا دیتے جوانی میں تو آنٹیوں کی نظریں اماں کے تعاقب میں لگ جاتی. ہر نظر میں لکھا ہوتا کہ بچی بیچاری کا دل مچل رہا. ہم کہ سدا کے سادہ ٹھہرے. اماں نے لوگوں کی نظروں سے خجل ہو کے پیشی کر دی کہ تمہارا زیادہ دل مچلتا ہے. ہمیں کون سا ڈوریمون اور اسٹار پلس نے پالا تھا. ہم بھی جم کے بولے اماں اچار کو دیکھ کے بس طبیعت مچل جاتی. اس کے بعد دو دن سمجھ نہیں آئی کہ ہمیں چمانٹ کیوں پڑی. وہ تو اب جب اپنے گھر بار والے ہوئے تو معلوم ہوا. لیکن اب ہم بھی اس چمانٹ کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیئے بیٹھے. اب وہی آنٹیاں بشمول اماں کے ہر وقت غور فرماتیں کہ کب ہم اچار یا املی کے ڈبے کی طرف ہاتھ بڑھائیں. مگر میں اب اچار یا املی کیوں کھاؤں. بقول عامر خان بطور پی کے ڈھول بجا کے کیوں اعلان کرتے ہو تم لوگ کہ کیا کرنے جا رہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

معاشرے کی کنونشنل وزڈم اس کی کئی نسلوں کی عقل کا نچوڑ ہوتی ہے. لیکن عقل تب تعفن زدہ ہو جاتی ہے جب اس کو ارتقاء کے عمل سے گزرنے نہ دیا جائے. ایسی عقل کھڑے پانی جیسی ہو جاتی ہے. وقت گزرے تو معاشروں کو اپنی حدود کو بھی لچک دینی پڑتی. قلم نے ساتھ دیا تو اگلی دفعہ ٹیبوز کے کسی اور سلسلے کو لے کر حاضری ہو گی. تب تک آپ دیکھیئے کہ آپ کن کن ٹیبوز کے شکار بنتے اور بناتے آئے ہیں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply