ایک لاش کا مقدمہ زندستان میں،اکتوبر13۔۔۔۔روبینہ فیصل

اکتوبر ,13 – 1954کو پیدا،اور 4جون 1984کو ٹرین کے نیچے آکر مر جانے والی سارہ شگفتہ جو زندگی کی صرف انتیس بہاریں ہی دیکھ پائی تھی۔۔اس سے میری ملاقات لگ بھگ 2005 میں اس کی کتاب” آ نکھیں ” میں ہو ئی، جو میرے ایک دوست نے مجھے نثری شاعری کی طرف راغب دیکھ کر کچھ اور کتابوں کے ساتھ یہ بھی ریکمنڈ کی تھی۔ اس سے پہلے میں ذیشان ساحل کی شاعری میں چھپے اسرار میں الجھی ہو ئی تھی۔ اس وقت مجھے سارہ کی شاعری سمجھنے میں دقت ہو رہی تھی،مگر اس کی شاعری میں بے باکی،سچائی اور انوکھا پن بالکل سامنے کی چیز تھا۔ میں نے اس کا دیباچہ پڑھا تو دل دکھ سے بھر گیا اور اس کے بعد سارہ کے لفظ سمجھ میں آنے لگے۔ دیباچے میں اس کے بیٹے کے پیدا ہو نے کے پانچ منٹ بعد ہی ہو نے والی موت، سارہ کے شوہر کی بے حسی اور ہاتھ میں تھامے پانچ روپے،بچے کی لاش کو ھسپتال گروی ڈالنے،دفنانے اور نہ جانے بے بسی اور بے کسی کے کیا کیا مناظر وہاں نہ تھے، میں تو کانپ کے رہ گئی۔ سارہ کے متعلق جاننے کا شو ق بڑھا اس زمانے میں، نیٹ پر اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں تھا، آجکل گوگل سرچ کرو تو ریختہ پر ا سکی شاعری،ڈان میں کچھ مضامین اور یو ٹیوب پر اسکی انڈیا میں سٹیج کی گئی کچھ نظموں اور زندگی نامہ(جو امرتا پریتم نے لکھا ہوا ہے) مل جا تا ہے۔ یعنی جس بوتل میں وہ اپنا پیغام ڈال کر کارک بند کر کے سمندر کے حوالے کر گئی تھی، آنے والی نسلوں تک، موت کی وجہ یا موت کے اعلان کی صورت پہنچ رہا ہے۔ سارا کے پیغام والی بوتل کا کارک کھولا جا رہا ہے۔۔
سارا کے متعلق کچھ اور جاننے کی لگن میں کچھ شاعر لوگوں یا ادب سے دلچسپی لینے والوں سے اس بارے پوچھا تو اس کی چار شادیوں،اور ملٹی پل افئیرز کے علاوہ اور کوئی بات پتہ نہ چل سکی۔ ایک دن حسن ِ اتفاق سے ریختہ کی سائٹ سے امرتا پریتم کی سارہ شگفتہ کی موت کے بعد اس پر لکھی گئی ایک کتاب” ایک تھی سارہ “پڑھنے کو مل گئی۔۔ گو یہ میری سارا سے دوسری ملاقات ٹھہری۔۔۔ امرتا پریتم کو میں نے ہمیشہ اپنی روح کے قریب محسوس کیا ہے اس کی بھی ایک وجہ ہے کہ جب میں نے اسے پڑھا بھی نہیں ہوا تھا تو میرے افسانوں پر بات کرتے ہو ئے ایک افسانہ نگار دوست فیصل فارانی نے بے ساختہ کہا تھا کہ تمھاری تحریر میں امرتا کی جھلک ہے (میں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھاکہ دوست ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کرتے رہتے ہیں۔) لیکن جب امرتا کو پڑھا تو اس کو سچ میں اپنے اندر پایا۔کم از کم انسان کا درد محسوس کرنے کی،ہم دونوں میں ایک سی ہی حس نظر آئی۔ اس لئے جب امرتا جی کی سارا شگفتہ پر لکھی کتاب پڑھی رو حرف حرف سچی محسوس ہو ئی کیونکہ یہاں بھی امرتا نے سارا کو ایک انسان پہلے اور عورت بعد میں سمجھا تھااور کس قماش کی عورت اس پر تو نظر تک نہ ڈالی تھی۔ میں متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکی، سارا کی ٹریجک لائف اور اس سے بھی زیادہ ٹریجک موت نے مجھے کئی دن اسے میری سوچوں کا مہمان رکھا اور کتنی ہی راتیں میں نے سارا کی زندگی کے مختلف دکھوں اور رنگوں کو کو محسوس کرتے آنکھوں میں کاٹ دیں۔
اور پھر ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن سانجھ کے دفتر، مزنگ،لاہور،( 2016 میں)جانے کا اتفاق ہوا وہاں محترمہ عذرا عباس کی کتاب ” درد کا محل وقوع” تازہ تازہ پبلش ہو ئی پڑی تھی۔
ان کا نام میرے لئے ایسی بیباک اور نڈر شاعرہ کا تھا جو عورت کے اندر کے کرب کو محسوس کرنے اور کھل کر دنیا کے سامنے بیان کرنے کی طاقت رکھتی ہے، اسی پرانے تعارف کے ناطے میں اس کتاب کو ابھی خریدنے کی نیت سے دیکھ ہی رہی تھی کہ” سانجھ” کے مالک منہاس صاحب بولے کہ یہ سارہ شگفتہ کی زندگی کے بارے میں ہے۔۔ اندھا کیا چاہیئے دو آنکھیں۔۔ میں نے جھٹ سے کتاب اٹھا لی۔ منہاس صاحب نے کہا اسے تحفہ سمجھیں۔خوشی خوشی تحفہ وصول کیا۔
مگروہ تحفہ میرے لئے خوشی نہیں بلکہ دکھ کا باعث بنا۔۔گھر آکر جیسے ہی میں نے کتاب پڑھنی شروع کی میرے اندر بنے دو بُت اس طرح آمنے سامنے آگئے کہ اگر ایک بچتا ہے تو دوسرا ٹوٹتا ہی ٹوٹتا ہے۔۔ ایک لفظوں کی سچائی اور حرمت کا اور دوسرا عذرا عبا س کا۔۔اگر سارا شگفتہ کے تمام لفظ جھوٹے ہیں،امرتاپریتم کی وہ کتاب جھوٹی ہے تو میرے لئے کائنات کے سب حروف، جھوٹ میں بدل جاتے ہیں۔ اور اگر عذرا عباس متعصب اور تنگ نظر ہے تو پھر تمام عقل و دانش اور انسانیت کی باتیں کر نے والے شاعر، ادیب اور دانشور ناقابل ِ اعتبار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔کس بُت کو رکھوں کسے ٹوٹ جانے دوں۔۔ اس کا فیصلہ اس کتاب کے پو رے مطالعے اور اس کے بعد ان کے شوہر کے ایک ناول نے کر دیا۔۔۔۔۔
پوری پڑھنے کے بعد میں عذرا عباس کی لکھی گئی اس کتاب کا وزن اپنے مخالف یا اپنے رقیب کے اوپر لکھے گئے ایک فیس بک سٹیٹس سے زیادہ نہیں سمجھتی۔ محترمہ نے اسے چھپوانے کی زحمت کیوں کی، ایسی دشنام طرازیاں اور الزام تراشیاں تو سوشل میڈیا کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
بہرحال! اس کتاب میں دو باتیں نمایاں ہیں ایک سارا شگفتہ کی ہر طریقے سے کردار کشی اور موازنے میں اپنی ذات کو ایک مضبوط کردار، اعلی تعلیم یافتہ، بچوں اور خاوند کی وفادار، محنتی، سلجھی، باسلیقہ اور حق حلال کما کر کھانے والی خاتون کے طور پر دکھایا گیا ہے۔۔
محترمہ عذرا صاحبہ!!اگر یہ سب سچ بھی ہے تو ایسا سچ پو ری ایک کتابی شکل میں لکھنے کی کیا ضرورت ہے جو ہو سکتا ہے صرف آپ کا سچ ہو جو آپ ایک ایسی خاتون کے بارے میں کہہ رہی ہیں جو اپنی صفائی دینے کے لئے موجود ہی نہیں ہے جو اس دنیا کو شائد انہی اٹھتی انگلیوں کے خوف سے چھوڑ چھاڑ کے کب کی جا بھی چکی ہے۔ایک مردے پر الزموں کی بوچھاڑ کرو گے تو کیا وہ اپنا کفن پھاڑ کر اپنے حصے کا سچ کہنے کو آئے گا۔۔ وہ عورت جو آپ کی دوست بھی رہ چکی ہے، جس کے ساتھ آپ کا کھانا پینا بھی رہ چکا ہے، ایک چھت کے نیچے غربت کے دن بھی گزارے جا چکے ہیں، جس کے ساتھ آپ تھیڑ میں فلم دیکھنے ا ور ننگے پیر کے پاس جانے کا ایڈونچر بھی کر چکی ہیں۔۔ جو آپ ہی کو دیکھ کر آپ لوگوں جیسا ہی بننے کو نکل کھڑی ہو ئی تھی۔ ایک کم تعلیم یافتہ عورت جس کے پاس ایک ٹارمٹیک چایلڈ ہوڈ، ۴۱ سال میں جنسی مریض کے ساتھ ہونے والی پہلی شادی اور پھر ایک کے بعد ایک ناکام شادیاں، پہلی شادی سے تین بچوں کا پیدا ہونا اور شوہر کا اس سے بچے چھین لینا۔۔غربت والا میکہ۔۔ محنت مزدوری کبھی کسی کپڑے کی فیکٹری میں کبھی فیملی پلاننگ کے دفتر میں۔۔یہ سب کچھ ہے۔۔۔کیا جینے کے لئے ہاتھ پیر مارنے والی اس تنہا عورت کو مردوں کے معاشرے میں آپ کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں جب کہ دوسری طرف آپ کی نظمیں عورتوں کے پس جانے پر کیسے کیسے نہیں روتیں؟ آپ کی نظم ہے نا آئی ویٹنس؟ تو کیا اسیا ہو تا ہے آئی ویٹنس۔۔ سارا نے کس مرد کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر کیسے دیکھا۔۔ اس کی کمر میں کب کب اور کیسے کیسے لچک پیدا ہوئی، اس نے آپ کو پہلی دفعہ دیکھا تو اس کے چہرے پر آپ کوحسد تک نظر آگیا، کس شاعر نے اس کے کھلے گریبان کو دیکھا اور کون دیکھتا ہی رہ گیا۔
اس کی اپنے دوسرے شوہر احمد جاوید سے شادی، جو اس وقت شاعر اور اب ایک صوفی بن چکے ہیں، جنہیں اب ایک دنیا سنتی اور مانتی ہے، آپ نے انہیں ایک بزدل، بیوی کی کمائی نہ صرف خود بلکہ اس کا باپ اور بھائی بھی۔۔سب خاندان، کھانے والا انسان دکھایا ہے۔
جتنے شاعر سلیم احمد، جمال احسانی، ثروت حسین، افضال احمد، فراست رضوی،جمیل قمر ا ور افتخار جالب سب کے سب آپ کے معترف اور اس سے آپ کو بچنے کی ہدایات دیتے نظر آتے ہیں۔۔ خاص طور پر افتخار جالب کا کردار ایک چغل خور کا ہے جو سارا کا ہر گناہ، ہر بات آکر آپ کو بتاتا ہے۔۔
افضال احمد۔۔ شاعر ہیں، دانشور ہیں۔۔ اور زندہ بھی ہیں۔۔ سارا کے تیسرے شوہر، ان کو آپ صاف بچا گئی ہیں کہ ان کے گھر والے فرشتہ تھے اگر سارا آکر آپ کو بتاتی تھی کہ وہ مجھے کمرے میں بند کر کے جاتے ہیں اور مارتے پیٹتے ہیں تو آپ لکھتی ہیں کہ افضال کی بہنیں بہت شائستہ ہیں۔۔ جب وہ کہتی ہے کہ افضال کی ماں میرا گھونگھٹ دیکھ کر کہتی ہے تم کہاں کی معصوم ہو جو گھونگھٹ نکالے بیٹھی ہو،تیسری شادی ہے تمھاری۔۔۔۔ تو آپ کیا اس بات پر بھی یقین نہیں کریں گی کہ اس کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہو گا۔اگر آپ ججمنٹ کی تلوار لئیے کھڑی ہیں تو باقی عام عورتوں سے اور معاشرے سے کیا بعید؟۔
آپ کی بددیانتی اس بات سے ظاہر ہو تی ہے کہ آپ جو سارا شگفتہ کی نظروں اور جسم کے زوایوں کو تو فراموش نہ کر سکیں اور ایک ایک تفصیل لکھ دیں، مگر جب مرد شعرا کا ذکر آیا تو نام ہی بھول گئیں، افضال کا وہ دوست جو سارا سے شادی کا خواہش مند تھا، اس کا نام آپ کو یاد ہی نہیں آرہا۔ ہر دوسری لائین میں آپ یہ لکھ رہی ہیں کہ جیسے ہی نام یاد آیا آپ لکھ دیں گی۔۔ آپ کو نام بھول گیا تو کیا آپ کے شوہر انور سن رائے کو بھی بھول گیا؟ جو ایک ایک لمحہ آپ کے ساتھ ہو تے تھے اور آپ ان سے ایک ایک بات شئیر کیا کرتی تھیں اور جو ان سب شعرا کے نہ صرف دوست تھے بلکہ خود بھی مانے تانے شاعر، ناقد اور ڈرامہ نگار تھے اور ابھی تک تا حیات ہیں تو ان سے ہی پوچھ لیتیں۔۔ انہوں نے تو اسی بدکردار، دو کوڑی کی شاعرہ کے اوپر پورا ایک ناول” ذلتوں کے اسیر” بھی لکھ مارا تھا،گو کہ شروع میں وارننگ دیتے ہیں کہ اس ناول کے تمام کردار فرضی ہیں مگر پڑھتے ہو ئے ایک ایک کردار انہی شاعروں شگفتہ سمیت(جسے نام بھی سارا آپ نے ہی دیا تھا)، آپ کا اور ان کی زندگی کا سامنے پڑا ہے۔۔
عذرا صاحبہ!!آپ دونوں میاں بیوی کی لو میرج کا آپ دونوں کی سچی اور فرضی کتابوں میں ذکر موجود ہے، اور شادی سے پہلے ہی آپ کا یونیورسٹی سے ان کے فلیٹ میں آجانا اور سارا دن وہیں گزارنا۔۔ہر وقت مرد شعرا کی صحبت میں رہنا۔۔ آپ کی حد تک سب حلال نظر آتا ہے مگر جیسے ہی سارا شگفتہ نے شاعر احمد جاوید سے شادی کے بعد وہی بیٹھک اپنے گھر لگا لی اور اس کی نظموں کو پذیرائی ملنے لگی تو آپکی کتاب میں وہی ادبی ماحول اور اعلی علم و دانش کی باتیں ایک عامیانہ، ولگر ماحول میں بدل گئیں؟
انور سن رائے کا ناول” ذلتوں کے اسیر” بھی ادبی اور اخلاقی لحاظ سے ایک انتہائی بے کار ناول ہے۔ اس میں بھی سوائے سارا شگفتہ کو
ایکسپوز کرنے کے اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ کہانی کی بنت انتہائی بورنگ طریقے سے ہے کہ ہر کردار انور صاحب کے پاس سارا کی زندگی کے مکروہ حصے سنانے پہنچ جا تا ہے اور ایسی ایسی تفصیل سے سناتا ہے کہ کہانی کا لطف بھی جاتا رہتا ہے۔
عذرا عباس انتہائی بولڈ لکھنے والی نثری نظم کی شاعرہ ہیں، ان کی بولڈنیس کی جھلک دیکھنی ہو تو ان کی نظمیں ” فیمیل بل ڈاگ”،”تم ہنستے کیوں ہو”،”مجھے تقسیم کر دو”،”لے جاتے ہو کہاں “،”جب رات آتی ہے”،”کام کرتے ہو ” میں دیکھیں۔اور عورت کی مظلومیت کی جب بات کرتی ہیں تو ان سے “سویرا اپنی مرضی سے کب جیتی ہے؟” اور” اے عورت” جیسی شاہکار نظمیں کہتی ہیں۔۔ مگر کیا یہ سب باتیں کاغذی ہیں؟۔۔ اور کیا سارہ انہی کاغذی لوگوں کے دوغلے رویوں اور طے کئے ہو ئے معیارات کو عبور کرتے کرتے خدا سے بھی زیادہ خاموش ہو گئی تھی؟
نہ عذرا عباس کی چھوٹی سی کتاب میں (لکھتی ہیں “عجلت میں ہوں “، بتایا نہیں کہ کیا عجلت ہے) اور نہ ان کے شوہر نامدار کے 366صفحوں کے ناول میں سارا شگفتہ کے پاگل پن، ۴۲ الیکڑک شاکس، پاگل خانے میں داخل ہونے، ہسپتال میں بار بار ایڈمٹ ہو نے کے متعلق،اور نہ ۴ دفعہ خود کشی کی کوششوں کے بارے کچھ لکھا ہے کیوں۔۔۔۔۔ کہ کہیں اس نمانی کے لئے قارئین کا جذبہ ہمدردی نہ بیدار ہو جائے؟ عام لوگ تو اسے دو کوڑی کی شاعرہ اور آوارہ عورت کہیں مگر کیا “ایک روٹی تک پہنچنے کے لئے” اور” حرامزادی” جیسی نظمیں لکھنے والی کو یہ زیب دیتا ہے؟ عورتوں کے حقوق کی علمبردار عذرا عباس یہی لکھے تو بندے کا دل کرتا ہے کہ وہ انسانوں کے اس جنگل میں ایک انسان کی کھوج میں نکلے یا کہ کسی جانور کو انسانیت کا تاج پہنا کر ایسے جنگل کا بادشاہ بنا دیا جائے؟
بقول عذرا کے انکے ابو تک نے یہ پیشن گوئی کردی کہ اس عورت کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہاں تک کے رکشے ڈرائیور نے بھی عذرا کے چہرے پر شرافت اور سارا کی بے ہو دگی پڑھ لی۔۔ کیا یہ سب گواہیاں۔۔ یہ الفاظ ایک مردے کو بے کفن کرنے کے لئے لکھنا، کہنا ضروری تھے؟ ایک انسان جب اپنی ذلتوں سمیت اس دنیا کے نام نہاد شریفوں کے منہ پر تھوک کر چلا ہی گیا تو اس پر” ذلتوں کے اسیر” اور “درد کا محل وقوع “لکھنے ضروری تھے؟؟
عذرا عباس ہی کی نظم ہے۔۔
جب کہنے کے لئے کچھ نہ ہو
کہنے کے لئے کچھ نہیں ہو تا
صرف بدگوئیاں
اور بے ہو دہ گالیاں
لتھڑے ہو ئے لفظ
اور گلی میں جھگڑا کرتی ہو ئی آوازیں
پھر ہم کیا کرتے ہیں
بدگوئیاں
اور خود کو خوش کر نے کے لئے
بد فعلیاں
یا پھر گلی سے باہر
جھگڑے میں لتھڑی ہوئی
گالیاں
جو لباسوں کے لئے
خوش کن ہو تی ہیں
اور جب کہنے کے لئے کچھ نہ
یہ خطرہ بھی ٹل جاتا ہے
ہم اپنے نام کی تختی الٹ کر
گلی میں نکل جاتے ہیں
تو کیا عذرا عباس اور انور سن رائے کے پاس ان بدگوئیوں کے علاوہ لکھنے کے لئے یا ادب کو دینے کے کچھ نہیں رہ گیا تھا۔عذرا نے اپنی کتاب میں جہاں سارا کے سب ہی شعرا کے ساتھ تعلقات کا راز فاش کیا ہے وہاں انہوں نے اپنے شوہر کو بھی نہیں بخشا، بلکہ یوں لگتا ہے کہ جو مسئلہ یہ دونوں میاں بیوی گھر میں سلجھا سکتے تھے یا فیس بک کی پوسٹس پر راضی بر ضا ہو سکتے تھے اس کے لئے پو ری کتابیں لکھ ڈالیں۔
انور سن رائے کے ناول کی پہلی اشاعت 1997میں ہوئی۔کتاب کا انتساب عذرا عباس کے نام ہے اور اختتام پر اسی بات کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے کہ کہ انہوں نے سارا (ان کے ناول میں ثانیہ نام رکھا گیا ہے) کے جسم کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔ بس بات روح تک ہی تھی۔
یہ دونوں ردی ناول پڑھ کر میں سوچ رہی ہوں کہ اگر انور سن رائے، عذرا عباس کی گوسپس، افواہیں اور سارا شگفتہ کی برائیاں دھیان سے سن لیتے (درد کے محل وقوع میں جگہ جگہ یہی بات بار بار کی گئی ہے کہ میں نے انور کو فلاں کی بات بتائی اور ظاہر ہے ہر بات سارا سے متعلق ہو تی تھی، مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی)،اور دوسری طرف انور سن رائے، عذرا بیگم کو اپنی وفاداری کا ثبوت دینے اور اس کا شک دور کر نے میں کامیاب ہو جاتے تو ادب ان دو شاہکار ناولوں سے محروم رہتا۔
عذرا بیگم!! آپ ۸۸۹۱ میں چھپنے والی اپنی کتاب کا انتساب اپنے شوہر کے نام ہی کرتی ہیں حالانکہ وہ اس سے پہلے ہی آپ سے بے وفائی کر چکے تھے۔۔ اور پھر ۶۱۰۲ میں آپ ان کے کچھے چھٹے کھول رہی ہیں اور ایک سالوں پہلے گڑا مردے کو قبر سے نکال کر اس کی تذلیل کر رہی ہیں ۔۔ اور انور صاحب،وہ سب کر کرا کے ۷۹۹۱ میں “ذلتوں کے اسیر” کا انتساب آپ کے نام کرتے ہیں اور ناول میں آپ کو ایک شریف اور باکرہ دکھا کر ایک مری ہوئی عورت کو شرابی، ہیئروئن ایڈیکٹ، ہم جنس پرست، اور جسم فروش اور نجانے کیا کیا دکھاکر اپنے اور آپ کے لئے نیک نامی کما لیتے ہیں۔۔ اپنے تئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسری طرف سارا شگفتہ اپنا مقدمہ لڑنے کو اس دنیا میں نہیں ہے کیونکہ وہ مقابلہ کے قابل ہو تی تو اتنی جوانی میں خود کشی ہی کیوں کرتی سب سے گن گن کر بدلے نہ لیتی۔۔ امرتا پریتم اورسعید احمد (جو اسے بالکل زندگی کے آخر میں ملے، جس کے ساتھ وہ جینا بھی چاہتی تھی) کے علاوہ اس کی روح کی معصومیت اور گہرائی کو کوئی نہیں جان پایا۔۔۔۔۔سارہ کی شاعری چیخ چیخ کر پڑھنے والے کے دل اور جگر کو چیرتی ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ جھوٹی عورت کی جھوٹی کہانی۔۔ عذرا صاحبہ کہتی ہیں کہ میں نے اسے چیخ کر روکا کہ کتنا جھوٹ لکھو گی۔۔۔۔۔
سارا نے امرتا کو ایک خط میں ٹھیک کہا تھا کہ کاغذی لوگوں سے میں اب نہیں ملتی۔۔۔ خاموش رہتی ہوں اور ساحل سمندر پر چلی جاتی ہوں۔۔اور اکیلی پھرتی رہتی ہوں۔۔۔
اس کی روح کی سچائی اور تنہائی ہی ہو گی جو میں۔۔ اتنے سالوں بعد سات سمندر پار کینڈا میں بیٹھے سارا شگفتہ کا مقدمہ لڑ رہی ہوں۔۔ امرتا کو خواب آیا تھا کہ لوگ سارا کو زندہ دفنا رہے ہیں۔۔۔ اور حقیقت یہ ہے کہ لوگ ہر اس زندہ کو دفنانے کی کوشش کر تے ہیں جو زندگی کو زندگی کی طرح جینا چاہتا ہے۔عام لوگ ہوں یا شاعر، ادیب، مولوی یعنی سماج کا کوئی بھی ٹھیکدار ہو سب کے ہاتھوں میں ایسے سکے ہیں جن کی دو سائیڈز ہیں جنہیں وہ اپنی طرف اچھالیں تو ہمیشہ ہیڈ آئے گا اور دوسرے کی طرف اچھالتے ہیں تو ہمیشہ ٹیل ہی آتی ہے۔۔۔
۔۔یہ مضمون میں نے ۳۱ اکتوبر کو لکھا تھا، سارا شگفتہ کی سالگرہ والے دن۔ اس نے امرتا کو کہا تھا: “چڑیوں کا چہچہانا ہی میرا جنم دن ہے”۔
اگر اب چڑیوں نے چہچہانا کم کر دیا یا بالکل چھوڑ دیا تو یہ نہ سمجھئے گا کہ چڑیاں اس زمین سے ختم ہو رہی ہیں بلکہ سوچئیے گا کہ چہچہانے والی چڑیوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟اس زندستان سے انہوں نے قبرستان کا رخ کیوں کیا؟

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ایک لاش کا مقدمہ زندستان میں،اکتوبر13۔۔۔۔روبینہ فیصل

  1. اس تحریر کی بہت ضرورت تھی. سچائی سامنے آنا نہ آنا اپنی جگہ مگر سارہ کے مردے سے جنگ کی باتیں سننے میں آتی رہتی ہیں اور ایسے میں
    یہ آئینہ دکھانا ضروری ہے

Leave a Reply