خامہ بدست غالب (جناب ستیہ پال آنند کی کتاب)۔۔۔۔۔فیصل عظیم

ستیہ پال صاحب کی کتاب ’’خامہ بدست غالب ‘‘ میری نظر میں اردو تنقید کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ ہے تو یہ نظموں کا مجموعہ، مگر اس کا محور تخلیقی تنقید یا تنقیدی تخلیق ہے اور اس میں شامل نظمیں طبع زاد کے بجائے غالب کے اشعار کی تضمین و تشریح ہیں جن کا مقصد ’’قاری اساس تنقید‘‘ کی عملی مثالیں پیش کرنا ہے۔ اس مناسبت سے میں اس کتاب کو تخلیق سے زیادہ تنقید کے خانے میں رکھوں گا اور میری گزارشات بھی بیشتر اسی حوالے سے ہوں گی۔ شاید یہی اس کتاب کی خصوصیت بھی ہے کہ یہ اردومیں اپنی نوعیت کی ایک منفرد، تخلیقی تنقید کی کتاب ہے۔

اس کتاب میں پیش لفظ کے بعد ’’قاری اساس تنقید (ایک مکالمہ)‘‘ کے عنوان سے ایک مکالمہ نظم کی صورت میں موجود ہے، اس کا پہلا بند قاری (۱) مجھے سب سے زیادہ پسند آیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس کتاب میں باقی نظموں سے الگ ایک طبع زاد نظم کی کیفیت رکھتا ہے اور یوں تخلیقی اعتبار سے یہ بجائے خود ایک مکمل نظم سے کم نہیں اور اسے اسی حیثیت میں پڑھ کر زیادہ لطف آیا۔ اگر مقدّمے کی صورت میں اس مکالمے کی ضرورت نہ ہوتی تو گویا نظم کا یہ حصّہ کتاب میں خود ایک مکمل نظم کے طور پہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات میں بحیثیت قاری اپنے ذوق کی مزید تسکین کے لیے ’’پرخلوص خود غرضی‘‘ سے لکھ رہا ہوں ورنہ ’’جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے‘‘ اور یہ تو خود ایک آفتاب ہے۔

قاری اساس تنقید چونکہ اس کتاب کا محور ہے، اس لیے میں بھی زیادہ تر اسی حوالے سے بات کروں گا۔ مگر اس سے پہلے ایک عرض یہ ہے کہ کسی نظریے، ادبی تحریک یا نئی فکری جہت کو لازماً مکمّل طور پر اپنالینا یا اسے سرے سے رد کردینا کوئی صحت مند رویّہ نہیں۔ ہم ’’ڈِیجِیٹل‘‘ دور میں بھی ہر شے کو ’’ایک‘‘ اور ’’صفر‘‘ کے درمیان کہیں کھوج سکتے ہیں۔ ہر بات اور ہر شے شیطان اور فرشتے کے خانوں میں رکھنے کے بجائے ہم شہد کی مکھی کی طرح مختلف پھولوں سے ان کا عرق کشید کر کے شہد بنا سکتے ہیں۔ کسی خاص نظریے سے لازماً وابستہ ہوجانے یا لازماً اس کے بالکل خلاف ہوجانے کے رویّے پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ زمین واقعی سورج کے گرد گھومتی ہے اور زلزلہ واقعی کسی گائے کے سینگ کی بدولت نہیں آتا۔ لہٰذا ان خیالات سے صدیوں آگے نکل آنے کے بعد، جبکہ خیالات اور نظریات کا ایک سمندر ہمارے سامنے ہے، ہمیں آگے بڑھ کر اس کی مختلف لہروں سے استفادہ کرتے رہنا چاہیے، ورنہ جیسے ریت پیروں تلے سے نکل جانے کے بعد بے اختیاری میں آپ پانی میں ڈگمگاجاتے اور بھیگ جاتے ہیں، اسی طرح غیرمحسوس طور پہ یہ سب فکری جہتیں تو ہماری تاریخ اور زندگی کا حصّہ دھیرے دھیرے بن ہی جاتی ہیں، تو ان کے کارآمد پہلوؤں سے آج ہی شعوری استفادہ کر لینے میں کیا حرج ہے۔

جہاں تک ’’قاری اساس تنقید‘‘ کا معاملہ ہے تو میں اسے تنقید کی ایسی شاخ سمجھتا ہوں جو بغیر کسی عنوان کے بھی تنقیدی عمل کا حصہ ہمیشہ تھی اور شاید ہمیشہ رہے گی، بشرطیکہ انسانی تاریخ کسی خوفناک علمی اور تہذیبی سانحے کا شکار نہ ہوجائے۔ اسے قاری کی نسبت سے ایک عنوان تو خیر مل گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ ایک مکمل اور خود مختار تنقیدی نظریہ یا عمل ہے؟ میرے خیال میں تنقید کا یہ طریقۂ کار جو اس کتاب میں استعمال ہوا ہے، وہ مبتدی سے لے کر استاد بلکہ استاد الاساتذہ تک، کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی موقع پر، کسی نہ کسی شکل میں استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ کیوں اور کیسے! تو اس کا جواب یہ ہے:
۱۔ کسی اجنبی یا کم آشنا زبان میں لکھے جملے کا ترجمہ کرنا ہو تو اس کے لیے عموماً یہ طریقۂ کار بہت بنیادی، مؤثر اور آزمودہ ہے۔ کم سے کم اس میدان میں نو آموزوں کے لیے تو یہ بہت کارآمد طریقہ ہوتا ہے
۲۔ اپنی ہی زبان میں لکھے کسی مشکل جملے یا شعر کا مطلب بتاتے وقت، جب بھی بات سامنے کی نہ ہو، تو اس کے حل کے لیے بھی کسی حد تک، کم یا زیادہ، یہ طریقہ فطری طور پہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ فن کے حوالے سے بات نہ کرتے ہوئے میں اگر صرف ادب کے طالبانِ علم تک ہی اس بات کو محدود رکھوں تو اس کا تجربہ یقیناً اکثر نے کیا ہوگا
۳۔ غور کیجیے تو یہ تنقیدی تکنیک اس عمل کے مماثل معلوم ہوگی جو اکثر ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے تجزیے کا جزو ہوا کرتا ہے یعنی ’’ردکتیو اید ابسردم‘‘ کا حوالہ جو آگے اسی کتاب میں مثالوں کے ساتھ موجود ہے اور اس کتاب کی ابتدائی مثالوں میں بھی کم و بیش ہمیں وہی تکنیک نظر آتی ہے، تو کیا ہم آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو بھی یہی سب کرتا نہیں دیکھتے۔ یعنی یہ ایک آزمودہ طریقۂ کار ہے جو دریافت اور بازیافت کی ابتدائی کوششوں کی ایک شکل جیسا ہے۔ اسے تحقیق اگر نہ بھی کہیں تو بھی اس کا ایک ادنیٰ جزو تو کہلایا جا سکتا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ کسی نئی یا انجانی چیز کو جاننے،

اس کے بارے میں سیکھنے اور سمجھنے کا وہ عمل ہے جو انسان اپنے تجسّس کے باعث فطری طور پر اپناتا ہے
اب مغربی ادبی نظریوں سے متعلق ہماری سوچ اور ہمارا ردِّعمل چاہے جیسا بھی ہو، اس سے قطع نظر، اور اس کے باوجود کہ ’’قاری اساس تنقید‘‘ کی اصطلاح ہمارے لیے نسبتاً نئی ہے، یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ جیسے میں نے اوپر لکھا، یہ ایسی تکنیک ہے جسے ہم فطری طور پر اپنے استعمال میں لاتے رہے ہیں، اب بھی لاتے ہیں اور آئندہ بھی اس سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ البتہ اگر ہمیں کسی کلاسیک یا عہدِ حاضر کے کسی ادب پارے پر تنقید کرنا ہو تو میں اس تکنیک کو اس کی تمام پر اہمیت اور اطلاقی خصوصیات سمیت، عملی تنقید کا صرف ایک ابتدائی عمل ہی سمجھوں گا جس سے ایک مضبوط بنیاد بنا کر بات شروع تو ہوسکتی ہے، مگر اسی پر ختم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پہ اگر ہمارے سامنے ایک ایسی عبارت ہو جو زمانی اعتبار سے بھی اجنبی ہو اور عام فہم زبان سے کوسوں دور ہو اور ناآشنا معلوم ہو یا جس کی زبان بہت پہلے متروک ہو چکی ہو تو ایسے میں ایک پختہ کار قاری اور نقاد کے لیے شاید یہ توڑپھوڑ کا طریقہ ایک اہم اور سب سے کارآمد آلہ ہوگا جس سے وہ اس کے اجزا کی شناخت کی کوشش کر سکتا ہے اور اس پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھ سکتا ہے بالکل کسی ماہرِ آثارِ قدیمہ کی طرح جس کے ہاتھ میں مٹی کی ایک برتن نما شے کا ٹکڑا آگیا ہے اور وہ اس کی گرد صاف کر کے اس کے زاویوں میں کسی آشنا صورت کو ڈھونڈنے اور پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔

چنانچہ ایسی صورت میں یہ عمل اس عبارت کے ترجمے میں تو یقیناً مدد دے گا مگر پھر اس کے بعد اگلا قدم وہی ہوگا کہ یہ دیکھا جائے کہ آخر یہ عبارت کب، کس نے اور کیوں لکھی اور کیا لکھا ہے۔ یعنی غار کی دیوار پر بنی تصاویر دیکھ کر کیا ہم صرف یہ کہہ دیں کہ اس غار کے رہنے والے بکریاں اور مرغیاں پالتے تھے اور تیر چلاتے تھے اور بس ۔۔۔۔! یا ہم یہ فرض کرلیں کہ اس تصویری زبان میں کچھ لوگوں نے آپس میں صرف مرغیوں اور بکریوں کے بارے میں باتیں کی ہوں گی اور بس؟ نہیں۔۔۔ بات مکمل نہیں ہوتی اور ہماری جستجو اور تشنگی بھی باقی رہتی ہے جب تک مٹی کی تہیں اور پتھروں اور دیگر باقیات کو کرید کرید کر ہم اس وقت کا اندازہ لگانے کی کوشش نہ کریں جب یہ تصویریں بنائی گئی ہوں گی اور جب تک یہ سمجھنے کی کوشش نہ کریں کہ بنانے والا ان سے کیا مراد لیتا ہوگا۔ تفریح اور محض سیاحت کے لیے ایسے غار کو دیکھنے والا اس کے بارے میں جو چاہے کہ لے، مگر جو نابغۂ روزگار ہو، وہ بھلا اس بات پر کہاں ٹھہرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ادب میں بھی ہم اس ابتدائی تفتیش پر یا تاثرات پر تنقید کو مکمل سمجھ کر بات ختم نہیں کر سکتے کہ قاری نے جو بھی سمجھ لیا وہی تنقید ہو گئی، ہمیں تو وہ عقدہ کھولنا ہوگا جو باندھنے والے نے باندھا ہے، اسے ڈی کوڈ کرنا پڑے گا تاکہ وہ جو گرہِ نیم باز ہے، اسے باز کر کے اس سے حظ اٹھایا جا سکے۔ محض الفاظ کے ترجمے کی بنیاد پر قاری جو بھی کچا پکا کہتا ہے کہے، قاری کو بھلا کون روک سکتا ہے اور اس کی سوچ تو کسی بھی سمت میں جا سکتی ہے اور جاتی ہے، سو جائے، مگرنقاد تو وہاں نہیں رکے گا اور نہ قاری کی تقلید کرے گا بلکہ وہ تو قاری کے لیے غار کے خفیہ دروازوں اور درزوں کو کھولنے کی کوشش کرے گا۔ قاری اگر’’خواہاں تھے نخلِ گلشنِ زہرا جو آب کے‘‘ کو یوں پڑھ لےکہ ’’کوئی باغِ زہرا تھا جہاں پیڑ سوکھ رہے تھے‘‘ تو کیا قاری کے کہنے سے یہ تنقید مکمل ہو گئی؟ ظاہر ہے کہ وہ تو یہاں سے شروع ہوگی۔

اگر غور کیا جائے تو دراصل قاری اساس تنقید اس طریقہ کار کے مماثل ہے جو ہمیں پاکستان میں، اسکول کے زمانے میں شعر کی تشریح کے لیے سکھایا جاتا تھا اور اس کے تحت ہم یہ کرتےتھے کہ سب سے پہلے مشکل الفاظ کے معنی لکھتے، پھر شعر کا لغوی مطلب لکھتے اور پھر اس کی تشریح کرتے۔ اس کتاب میں ستیہ پال صاحب نے بھی اپنے وضاحتی نوٹ میں بڑی تفصیل سے اس بارے میں بتایا ہے کہ یہ تدریس کا ایک آزمودہ طریقہ ہے اور ’’لیب پریکٹس‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ سو میری نظر میں تنقید کے لیے یہ ایک بڑا فطری اور بنیادی عمل ہے اور شاید سب سے پرانا بھی مگر یہ بہرحال یا تو مبتدی کے لیے ایک تدریسی تکنیک ہے یا کسی پیچیدہ تنقیدی عمل کے ابتدائی مرحلے کا حصہ ہے جہاں ہم اپنے تجزیے کی بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں یعنی یہ طریقہ خود ایک مکمل تنقیدی رویہ یا نظریہ ہونے کے بجائے کسی بھی تنقید کی ایک ذیلی شاخ کے طور پہ دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔

غالب کی شرحیں ہی لے لیجیے۔ غور کریں تو غالب کے شارحین نے یہی کام کیا ہے اور خوب کیا ہے بلکہ اکثر کلاسیک کے ساتھ تو مدرسوں میں اور مدرسوں کے باہر یہ سلوک ہوتا ہی رہتا ہے جس پر کہا جاتا ہے کہ ’’شاعر سن لے تو وحشتِ معنی سے مر جائے‘‘ (تصرف کے ساتھ)۔ گویا یہ طریقہ کار بعض اوقات کیے گئے تجزیوں کا پس منظر اور توجیہ پیش کرنے یا سمجھانے کا طریقہ کار بھی ہو سکتا ہےاور مشکل عبارات، اشعار یا نظموں کے اصل مفہوم سمجھنے میں معاون بھی ہوسکتا ہے اور بغیرتربیت کے اگر قاری کے ہاتھ میں اس کی باگ تھما دی جائے تو یہی مؤثر طریقۂ ابلاغ قاری کو اور قاری کے پیچھے پیچھے تجسّس میں آتے نقّاد کو بھٹکا بھی سکتا ہے۔

میں نے اس طریقے کو اوپر بنیادی عمل اسی لیے لکھا کہ اس کے بعد کچھ مراحل ہیں یا ہونے چاہئیں اور ان مراحل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پرانے متن اور نئے قاری کے درمیان ’’مصالحت‘‘ قاری کا بالکل ذاتی فیصلہ ہوتا ہے جو دراصل کسی بھی دوسرے شخص کی دسترس سے باہر ہے اور بھلا کون یہ پیش گوئی کر سکتا ہے کہ کس زمانے کا قاری اسے کیا سمجھے گا مگر یہ مصالحت، جس کی اجازت کوئی نہیں لیتا، ایک مکمل اور مستند تنقید کی بنیاد نہیں ہو سکتی مثلاً ’’تھیوری آف ایوری تھنگ‘‘ کو لے لیجیے، اس تھیوری تک پہنچنے کے لیے کیا یہ لازمی نہیں تھا کہ اسٹیفن ہاکنگ سوئیٹر اور آتشدان پر ٹھہر نہ جائے، بلکہ اس کے ذریعے بلیک ہول کی طرف دیکھنے کی کوشش بھی کرے۔

میں ستیہ پال صاحب کی اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ ’’یہ کام قاری سے بہتر اور کوئی نہیں کر سکتا کہ متن کے لسانی اور ہیئتی نظام کو کھنگال کر ’’آج‘‘ کے سیاق و سباق میں اس کے معنی تلاش کرے‘‘ کیونکہ اس سے فلسفے کے اور معنی کے نئے رخ سامنے آکر ہمارے لیے فکر کے نئے در وا کرسکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ یعنی قاری کے لیے یہ اگلا قدم بہت ضروری ہے مگر جب وہ یہ قدم اُٹھائے گا تو ہم دیکھیں گے کہ یہ اگلے قدم اسے گھما پھرا بالآخر مصنف تک بھی لے ہی جائیں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اساس بالآخر قاری نہیں ٹھہرے گا بلکہ روحِ معنی یعنی مصنف اور تحریر کا جو رشتہ تھا، وہی اس کی اساس قرار پائے گا۔ ورنہ سوچیے کہ آج کا انگریزی میڈیم طالب علم ’’زلف کی اسیری‘‘ کو باقاعدہ ’’بالوں کی قید‘‘ سے تعبیر کرے اور پھر اسی میں معنویت ڈھونڈتا اور بھٹکتا پھرے تو کیا ہم اسے معیار مان لیں گے!

ظاہر ہے کہ اس پورے عمل میں اسے معنویت تب ہی مل سکے گی جب وہ متن کی اصل زبان اور پس منظر تک پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ اور فرض کریں کہ وہ نہیں کرتا، تو کیا ہم اس کے کہنے پر ’’بالوں کی قید‘‘ پر اکتفا کر کے اسے اپنی تنقید کے حاصلات میں سے ایک کہ لیں؟ یعنی دوسرے لفظوں میں ہم یہ نہیں کہ رہے کہ ہمیں اس کلام میں کیا ملا یا نظر آیا بلکہ ہم یہ کہنا شروع کردیں کہ اس عبارت سے کون کون کیا کیا سمجھ سکتا ہے، تو میری نظر میں یہ پیشگوئی تو کی ہی نہیں جا سکتی، کیونکہ یہ تو ایک لامحدود سلسلہ ہوگا اور اگر ہم یہ کہیں کہ ہم پیشگوئی تو نہیں کر رہے بلکہ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قاری کل عبارت پڑھ کرجو بھی سمجھے گا، کل اسے ہی اس عبارت کا اصل مفہوم ماننا پڑے گا تو بھلا اسے ماننا یا نہ ماننا ہمارے اختیار میں کہاں، یہ فیصلہ تو اس وقت کا قاری یا نقاد خود کریں گے، ہم آج بچپن کی طے کی گئی شادی کی طرح اس کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اور پھر ہم اگر کل کے قاری کو سوچ رہے ہیں اور معنی اخذ کر رہے ہیں تو ہماری تمام تر سوچ تو اس زبان، معاشرے، علم اور تربیت تک محدود ہے جو ابھی ہمارے احاطے میں ہے۔ جو زبان ہم نے سنی ہی نہیں، جو دنیائیں ہم نے دیکھی ہی نہیں اور جو لہجے ہم نے جانے ہی نہیں، ان کی بنیاد پر کسی جملے کا مطلب کیا ہوگا، ہم تو یہ بتا بھی نہیں سکتے۔ دوراندیشی اور مستقبل بینی حقائق، زندگی کے پڑاؤ اور واقعات کا احاطہ تو کر سکتی ہے مگر ان دیکھے قاری کی زبان، لہجے اور اندازِ فکر کی جہتوں کا احاطہ کرنے کا دعوی نہیں کر سکتی۔ ہاں کوشش ضرور کی جا سکتی ہے جس سے ہمیں شاید کئی نئے مفاہیم مل بھی جائیں مگر وہ ہمارے آج کے مفاہیم ہی کہلائیں گے کہ وہ اُس زبان اور زمان و مکاں کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہی جس سے ہم آج واقف ہیں۔ اور شاید ناشنیدہ مفاہیم چننے کے لیے تو ہمیں تحریر میں لایعنیت کی کئی صورتیں بھی ڈھونڈنا اور ماننا پڑجائیں اور بہت ممکن ہے کہ وہ سب مستقبل سے پھر بھی کوئی تعلّق نہ رکھیں، البتہ اس عمل میں ہمیں اکثر قدیم تحریریں یا تو جدیدیت کے خانے میں رکھنا پڑجائیں گی یا سکہ بند نقاد کے لیے بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مصنف اپنی تحریر کی شرح یا تفسیر کی ملکیت کا دعوی نہیں کرسکتا تو یہ بات تو ٹھیک ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ قاری جو بھی کہہ دے وہی متن کے معانی کی درستی کا پیمانہ ٹھہرے۔ پھر یہ کہ اگر قاری کو آج کے سیاق و سباق میں متن کا خالق تسلیم کر لیا جائے تو یہ مصنف کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی یعنی ’’دکھ سہیں بی فاختہ، کوے انڈے کھائیں‘‘۔ ایک قدم آگے بڑھ کر دیکھیں تو اس کا ایک اور پہلو یہ نظر آتا ہے کہ اس تمہید کے نتیجے میں قاری کی تربیت کا عمل، خود قاری پر چھوڑ دیا جائے گا، یعنی جس کی تربیت کم سے کم ہوتی چلی جائے اسی کے کہے کو ہم تسلیم بھی کرتے چلے جائیں۔ اب اگر ہم دوبارہ اسی منطق کی طرف آئیں کہ جب قاری کے سامنے شعر یا عبارت کا اصل مطلب جاننے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے تو وہ مجبور ہے لہٰذا وہ تو وہی معنی اخذ کرے گا جو اس وقت کی تربیت کا نتیجہ ہے، تو میرا جواب پھر بھی یہی ہوگا کہ آخر یہ فیصلہ ہم کیسے کر سکتے ہیں کہ اس کے وسائل کیا ہیں، مسائل کیا ہیں، تجزیے کی بنیاد کیا ہے اور بالآخر اس کا فیصلہ کیا ہے، یہ تو اس وقت کا قاری جانے یا نقاد جانے، ہم سے کون اجازت لینے آئے گا ۔

اب کتاب میں جو ایک چبھتا ہوا سوال کیا گیا ہے، اس کی طرف آتے ہیں کہ ’’کیا یہ تھیوری ہماری تہذیبی اساس کو بگاڑ سکتی ہے؟‘‘۔ یہ سوال لکھتے ہوئے ستیہ پال صاحب جس کرب سے گزرے ہوں گے اس کا کچھ اندازہ تو میں کر سکتا ہوں کیونکہ شاید اس کا پس منظرغالب کی اِن تضمینوں پر ہونے والی وہ گرما گرم بحث ہے جس کی ایک جھلک میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک ای میل میں دیکھی تھی۔

بات یہ ہے کہ ’’قاری اساس تنقید‘‘ میری نظر میں تھیوری سے زیادہ تنقیدی عمل میں بقدرِ ضرورت استعمال ہونے والی تکنیک کی حیثیت رکھتی ہے اور اس تکنیک کو عملاً روا رکھا ہی جاتا ہے، چاہے ہم تھیوری کی حیثیت سے اسے مانیں یا نہ مانیں۔ جہاں تک غالب کی ان تضمینوں پر مصنّف کے پیچھے لٹھ لے کے پڑ جانے والی ذہنی وسعت کا مسئلہ ہے تو ہمارا ایک عمومی رویّہ یہ ہے کہ ہم خود کام کرتے نہیں اور دوسرے کو کرنے دیتے نہیں۔ جہاں تک ستیہ پال صاحب کی غالب کی شرح پر ایسے لوگوں کی ناراضی کا تعلق ہے تو ان لوگوں کو ایک دفعہ کسی لائبریری کی یاترا کروانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ اب تک غالب کی کتنی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور ابھی جانے اور کتنی لکھی جائیں گی، بھلا مشکل پسند شاعر کے کلام کی شرح لکھنا بھی کوئی دُم پر پیڑ پڑنے والی بات ہے۔ ان مختلف شرحوں میں مختلف اور متضاد باتیں کی جاتی رہی ہیں جن سے اتفاق بھی کیا جاتا ہے اور اختلاف بھی۔ غالب کے حق میں بھی لکھا جاتا ہے اور مخالفت میں بھی۔ شخصی مخالفت اور فکری مخالفت دو الگ چیزیں ہیں، غالب کے افکار اور اشعار سے اختلاف کب نہیں ہوا اور کب نہیں ہوگا، آپ بھی کر لیجیے۔ جہاں تک اس کتاب کا تعلّق ہے تو ستیہ پال صاحب نے یہ شرح نثر کے بجائے منظوم لیکچر کی صورت میں لکھی ہے۔ اب یہ کسی کو اچھی لگے یا بری، بامقصد اور با معنی لگے یا غیر ضروری اور بے معنی، کسی کو اس کا طریقہ کار بے جا لگے یا نیا لگے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس سے تہذیبی بگاڑ کیسے پیدا ہو سکتا ہے! ہاں بنیادیں اور گہری ہوسکتی ہیں۔ اب پڑھنے والے کی مرضی کہ وہ ان شرحوں سے سو فیصد اختلاف کرلے یا شرح کے اسلوب ہی پہ معترض ہو، مگر کسی بھی صورت اس تجربے پر ناراض ہونے کی کوئی منطق نہیں۔ لہٰذا لکھنے پر ناراض ہونے کے بجائے اس تحریر پر تنقید کر لیجیے بلکہ آپ کی مرضی، چاہیں تو اسے مکمّل طور پہ نظرانداز ہی کردیں، یہ سب آپ کا استحقاق ہے مگر لکھنے والے کا ہاتھ روکنے کی کوشش کا رویّہ غلط ہے۔ اس سے تہذیب اور ادب کو بھلا کیا فائدہ ہوسکتا ہے، ہاں البتہ اس رویے سے، جو کہ ہم تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں شدّت سے دیکھ رہے ہیں، آنے والوں کے لئے نئی راہیں کھلنے کا امکان ضرور کم ہوسکتا ہے بلکہ کیا معلوم ہم اب تک کون کون سے امکانات کب اور کہاں مٹٰی میں ملا چکے ہوں۔

کبھی کبھی کتاب کا مقدمہ، اس کی سب سے اہم تحریر بن جاتا ہے۔ اس کا خیال مجھے مضمون کے اس مقام پر پہنچ کر یوں  آ رہا ہے کہ میرے اس مضمون میں پیش لفظ کے حوالے سے بات خاصی طویل ہو گئی ہے۔ سو اب میں نظموں کی طرف آتا ہوں۔ اس کتاب میں شامل نظمیں میری نظر میں ایک نقاد اور مدرّس کے تدریسی عمل کا نچوڑ ہیں، یہ اس تدریسی عمل کے ایک بہت جامع اور عملی نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس پورے عمل کا بھرپور تخلیقی اظہار ہیں۔ یعنی نظموں کی یہ کتاب بجائے خود ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس میں نظموں کی صورت میں عملی تنقید کی مثالیں پیش کی گئی ہیں اور یوں اِس موضوع پر اردو تنقید کے طالب علموں کے لیے یہ ایک مستند حوالے کا اور ’’حوالہ کتاب‘‘ کا کام دیتی رہے گی۔
اچھا ان نظموں میں ایک بات جو میں نے دیکھی وہ یہ ہے کہ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شعر پر تنقید کے بجائے شاعر پر تنقید کی جارہی ہو۔ مثال کے طور پہ حصّہ اوّل کی نظم سولہ کو دیکھیے، حالانکہ شعر میں تو محض مبالغے اور تعلّی سے حسن پیدا کیا گیا ہے۔ اسی طرح کہیں کہیں کسی ایک رخ پہ غالب کے معانی کی نفی بھی کی گئی ہے جیسے نظم نمبر تین میں، تو یہ مثال میرے خیال کو اور پختہ کرتی ہے کہ اگر ہم مستقبل کے کسی قاری کو ذہن میں رکھ کر تنقید کر رہے ہیں، وہ جو بالفرض شعر سمجھنے کی کوشش کم اور سامنے کے معنی کی بنیاد پر رائے دینا زیادہ پسند کرتا ہوگا، تو اس کوشش میں

ہماری حجّت تو شروع ہوجاتی ہے مگر بات مکمل نہیں ہونے پاتی۔ اسی کی اور مثالیں بھی ہیں جیسے صفحہ۴۷ پر میدان چھوڑنے کے مطلب کے بارے میں قاری کی یک رخی کو رقم کیا گیا ہے۔ بعض جگہوں پر مجھے ایسا بھی لگا کہ ان مقامات پر گویا ’’قاری اساس تنقید‘‘ خود بخود ’’غالب اساس تنقید‘‘ بن گئی ہے، یعنی جو نادانستہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ایک غالب شناس کے لیے خود غالب کو نظر انداز کرنا یقیناً نہایت مشکل ہونا چاہیے جیسے نظم ۱۱ اور ۱۲ کی آخری سطریں ہیں یا نظم ۱۷ کو دیکھیے۔ ان مثالوں میں قاری کے بجائے دراصل ایک کہنہ مشق نقاد کو دیکھا جا سکتا ہے یعنی بعض جگہوں پر شعر کی جو تفہیم کی گئی ہے، وہ متن سے باہر بھی کی گئی ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ اگر یہ سب دانستہ ہے تو شاید قاری اساس تنقید کی مثالوں کے ساتھ ساتھ ستیہ پال صاحب اپنے اندر کے استاد کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان نظموں کے ذریعے قاری کی تربیت بھی کر رہے ہیں اور محض قاری اساس تنقید پر اکتفا نہیں کر رہے۔ اس کی کچھ اور مثالیں بھی کتاب میں موجود ہیں۔ میں یہاں نظم کے عنوان لکھ کر عبارت کو مزید طویل کر نے کے بجائے نمبر محض اس لیے درج کررہا ہوں کہ خود کتاب میں بھی ان نظموں پر نمبر ڈالے گئے ہیں۔

اچھا اب اگر میں اپنی پسندیدہ نظموں کا انتخاب کروں تو پہلے حصے میں نظم ۲۱ مجھے بہت اچھی لگی کیونکہ اس نظم کو پڑھ کر مجھے تنقید کی مثال سے زیادہ تخلیق کا مزہ آرہا ہے۔ اسی طرح نظم ۳۰ اور ۳۴ کی آخری سطریں بھی خوب ہیں۔ آگے چلیے تو نظم ۳۹ میں ناقوس سے متعلق نکتہ بہت خوب ہے۔ دوسرے حصے میں نظم ۱ اور ۴ بھی مجھے اچھی لگیں اور آخری نظم ۱۱ میں غالب کے شعر کو اپنے تجربات کی روشنی میں دیکھنے اور منتقل کرنے کی جو مثال پیش کی گئی ہے، وہ یقیناً قابلِ تعریف ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ستیہ پال صاحب کے ہاں الفاظ کا بڑا زبردست ذخیرہ ہے اور پھر ان کا استعمال وہ جس روانی سے کرتے ہیں وہ بھی کمال ہے۔ ان کی مشقِ سخن سے ہم نئے لکھنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ میرے والد کہتے تھے کہ ’’شاعر مجبور نہیں ہوتا، ایک لفظ ٹھیک نہیں تو اس کی جگہ دس اور الفاظ لا سکتا ہے‘‘ اور اکثر انیؔس اور دبیؔر کے ایک معرکہ کا احوال مثال کے طور پر سنایا کرتے تھے جس میں دبیؔر نے مشاعرے میں شعر پڑھنے کے دوران فقرے بازی کے جواب میں متبادل الفاظ کا گویا ایک ڈھیر لگا دیا تھا اور یوں اپنے مخالفین سے بھی خوب داد وصول کی تھی۔ ستیہ پال صاحب نے ان نظموں میں جس طرح ایک ایک لفظ یا استعارے کے کئی کئی معنی لکھے ہیں وہ قابلِ رشک اور سیکھنے سے تعلّق رکھتا ہے اور تنقید کے حوالے سے دیکھیں تو یہ تنقیدی مشق اور تدریس کی بڑی جاندار مثال ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply