بچپن کےپنگے اور جوانی کے دنگے(قسط 2)

میرا لڑکپن جہاں گزرا ، وہاں قبرستان ,دربار اور مسجد ساتھ ساتھ تھے، قبرستان کی زمین مجھے بھوکی دکھائی دیتی تھی جیسے مزید میتوں کو نگلنے کی منتظر ہو۔ مجھے یوں لگتا جیسے قبروں میں پڑے مردے حنوط شدہ لاشیں ہوں جو کسی وقت بھی اٹھ کر کھڑی ہو جائیں گی۔ دربار قبرستان کے بیچ و بیچ تھا (اب بھی ویسے ہی ہے) دربار کی چار دیواری کے اندرسنگِ مرمر سے بنی ایک قبر رنگ برنگی گوٹا کناری سے بھری چادروں سے ڈھکی رہتی, دربار کے چاروں اطراف بھی قبریں ہی تھیں جو کہ عام لوگوں کی تھیں ۔۔۔۔

اندر والی قبر خاص تھی اور باہر والی سب عام۔ ایسا تاثر کیوں تھا یہ سمجھنے سے میرا کچا ذہن ابھی قاصر تھا، البتہ یہ ضرور سوچتا تھا کہ باہر بھی مٹی کی ڈھیری جیسی قبریں ہیں اور چار دیواری کے اندر بھی ڈھیری ہی ہے، پھر مرے ہوؤں میں ایسی تخصیص کیوں؟۔ دربار پر حاضری دینے کیلئے آنے والے لوگ ارد گرد کی عام قبروں سے بے اعتنائی سے گزر کر دربار کے اندر چلے جاتے، خصوصاً عرس کے موقع پر تو لوگ ٹولیوں کی صورت میں قبروں پر سے دڑنگے مارتے ہوئے قبروں کو روندتے ہوئے جاتے ، یوں لگتا تھا جیسے دربار پر حملہ کرنے آئے ہوں۔ دربار کے بیرونی صحن میں ایک اضافی قبر کھدی ہوئی تھی جو کہ خالی تھی ،کہا جاتا تھا کہ وہ قبر وہاں کے قا ئم مقام گدی نشین کی تھی۔

پانچوں نمازوں کے اوقات میں وہ گدی نشین مسجد اور دربار کے درمیان بنے حجرے کے صدر دروازے پر بیٹھے حقہ نوشی فرما رہے ہوتے تھے۔ نماز کیلئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے کئی لوگ پیر صاحب کے ہاتھ اور پاؤں بھی چومتے جاتے تھے۔ پانچویں سے لے کر دسویں جماعت تک میں نے چند سوگز کے فاصلے پر موجود ایک سرکاری سکول میں پڑھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس عمر میں دین و دنیا کی خاص سمجھ نہیں ہوتی لیکن میں اتنا ضرور سوچتا تھا کہ یہ کیسے اللہ کے ولی ہیں جن کو نماز تک کی توفیق نہیں؟ جبکہ لوگ پھر بھی پیر صاحب کے ہاتھ پاؤں چوم رہے ہیں، آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ کیا ان پیر صاحب کا منکر نکیر کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پا چکا ہے؟ اور جو لوگ پیر صاحب کے ہاتھ پاؤں چومتے ہیں ممکن ہے ان کو کچھ ایسا خاص ملتا ہو جو مجھے دکھائی نہیں دے رہا۔

میں اور میرا بچپن کا ایک دوست صبح اکھٹے پیدل سکول جایا کرتے۔ اکثر پیر صاحب بھی اپنے حجرے کے باہر بیٹھے ہوتے ، جب ہم پیر صاحب کے سامنے سے گزرتے تو وہ عجیب سی نظروں سے ہمیں گھورتے۔ یوں لگتا جیسے کچھ ٹٹول رہے ہوں، ان کی آنکھیں کسی شئے کی متلاشی دکھائی دیتیں، عجیب وحشت سی ہوتی تھی، ان کی طرف دیکھ کر مجھے کوفت ہوتی اور انجانا سا خوف بھی محسوس ہوتا۔ وہ کیسا احساس تھا، شاید تب میں نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔۔ مگر آج ۔۔۔۔
یقیناً اچھی طرح سمجھتا ہوں۔

میں اور چند دوست اکثر مزار کے ارد گرد قبروں کے درمیان گھومتے پھرتے رہتے۔ پیڑوں کی چھاؤں تلے تپتی دوپہر میں کسی قبر پر بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہتے۔ چند گز کی دوری پر جب ملنگ بابے بھانگ گھوٹتے تو ڈنڈے سے لگے گھنگروؤں کی چھن چھن کی آواز کانوں کو بڑی بھلی لگتی۔ کالی,گوری, سانولی, میلی، اجلی، امیر، غریب ہر رنگ و نسل کی عورتیں منتیں مانگنے مزار پر حاضری کی غرض سے آتی جاتی دکھائی دیتیں۔ وہاں اکثر ایک پاگل عورت بھی کاندھے پر پھٹا پرانا چمڑے کا بیگ لٹکائے آنکھوں میں انتظار لیئے کھڑی نظر آتی تھی ۔ میلے کچیلے کپڑے، دھول مٹی میں اٹے بال، چہرے پر مردہ بے رونقی اور ویران آنکھیں ۔۔ وہ قبروں کے ارد گرد بھٹکتی رہتی اور منہ میں کچھ بڑبڑاتی رہتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سنا تھا کہ کالج کے زمانے میں اسے کسی ایسے لڑکے سے محبت ہوئی جس سے شادی ممکن نہ تھی، نتیجتاً دونوں نے گھرسے بھاگ کر شادی کر لی۔۔ کہتے ہیں کہ پہلی رات دولہا دلہن کسی ہوٹل میں ٹھہرے۔۔ صبح دولہا ناشتے کا کہہ کر ہوٹل سے نکلا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔۔۔۔ اور وہ بھی لوٹ کر گھر نہیں گئی۔سڑکوں کی گرد اور بے مروت تھپیڑوں نے اس عورت کی جوانی اورحسُن کو بری طرح بگاڑ کر رکھ دیا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ٹھہرا انتظار ویسے کا ویسا ہی رہا تھا۔
دودھ میں پانی ملا کر بیچنے والا چاچا مجو اور لوھاری گیٹ میں دونمبر ادویات کا کاروبار کرنے والا چاچا قدیرا کہتے تھے کہ یہ کوئی پاگل واگل نہیں ہے، یہ سالی دو نمبرعورت ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply