(گزشتہ قسط میں ہم نے وزیر آغا مرحوم کے گھر میں ہوئی اس بات چیت کا ذکر کیا تھا جو راقم الحروف اور ان کے ما بین دیر رات گئے تک ہوتی رہی تھی اور جس میں ہم دونوں نے اپنے اپنے تجربات کی بِنا پران کوششوں کا ذکر کیا تھا جن میں’’ زمینی ماحول‘‘ سے اوپر اٹھ کر ’’آفاقی لاحول‘‘ تک ایک ’’آواز‘‘ بھیجنے کی سعی کا ذکر تھا۔ یہ آواز ایسے ہی تھی، جیسے گھُپ اندھیری رات میں ایک سنسان جگہ سے گذرتے ہوئے ایک راہرو کہے، ’’کوئی ہے؟‘‘ اور پھر جواب کا انتظار کرے۔جواب نہ ملنے پر کئی بار یہ آوازہ بلند کرے ۔۔۔)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
وزیر آغا میری طرف معنی خیز نظروں سے، پلکیں جھپک جھپک کر دیکھتے ہوئے بولے، ’’ میں نے عرض کیا تھا کہ شرط دستک دینے کی ہے، پے در پے دستک دینے کی ہے، لگاتار دستک دینے کی ہے۔ فی المکان دونوں کی بقائے باہمی کا ایک منشور تو یہی ہے کہ ہماری بات چیت اس حد تک نہ پہنچے لیکن کہیں قریب قریب پہنچ کر وہاں رک جائے۔
Ontological a-priory argument about existence of God *
کی رو سے تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن اب آپ بہت سوال مجھ سے کر چکے، آپ ہمیشہ مجھے یہ کہہ کر شرمندہ کرتے ہیں کہ آپ مجھ سے سیکھتے ہیں، جب کہ یہ بات میں بارہا آپ سے کہہ چکا ہوں کہ میں بھی تو آپ سے سیکھتا ہوں۔لیجیے، تیار ہو جایئے، مجھے آپ سے ایک سیدھا سادا سوال کرنا ہے، کیا آپ نے یہ دستک دی ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا، جی دی ہے، پے در پے بھی دی ہے۔ میں آپ کو 1981ء میں لکھی ہوئی اپنی ایک مختصر نظم سناتا ہوں۔ دیکھیے، دستک کے جواب میں جو سنّاٹا ہے، وہ کس قدر مہیب ہے۔….‘‘
کہنے لگے، ’’سنا دیجئے۔‘‘
میں نے پوری نظم سنا دی۔
فصیلوں کے اس پار باب حجر تک
پہنچ کر بہت دیر ٹھہرا رہا وہ
پھر آہستگی سے
ثوابوں، عذابوں کی گٹھڑی کو
کاندھوں سے اپنے اُتارا
رُکا چند لمحے
کہا..’’.کوئی ہے جو پکارے مجھے
مجھ سے پوچھے کہ میں کون ہوں
اپنی گٹھڑی میں کیا کچھ اٹھائے ہوئے
دیر سے پھر رہا ہوں
فصیلوں کے اِس پار کیوں منتظر
پتھّروں کے درِ آخرت پہ کھڑا ہوں!‘‘
فقط شام کے سائے تھے
اور بابِ حجر
کور آنکھوں کی بیگانگی سے
مجھے تک رہا تھا
کہا پھر …’’کوئی ہے
جو کرتا رہا ہو
رقم بہی کھاتے میں لمحہ بہ لمحہ
کہ میں خود حساب اپنا لکھتا رہا ہوں
کہ گٹھڑی میں میری وہ سب کچھ بندھا ہے
جو میں نے کمایا ہے
اچھا بُرا تو اسے دیکھنا ہے
فصیلوں کے اُس پار بیٹھا ہوا
اپنی مرضی سے،یکطرفہ، یہ احوال نامہ
مرے بہی کھاتے میں لکھتا رہا ہے!‘‘
جواباً فقط اس کی اپنی ہی آواز کی گونج تھی
اور بابِ حجر تھا!
میری دانست میں وہ زیر لب مسکرائے تھے کیونکہ جو کچھ انہوں نے کہا اس میں ریش خند کا، یا کسی حد تک تمسخر کا عنصر نمایاں تھا۔ کہنے لگے:
آپ تو اقبالؔ کی خودی کے فلسفے میں پھنس گئے اور پھر ، الاماں شاعر کی اناء۔۔۔ یعنی بجائے اس کے کہ آپ اپنے عارفانہ تصور میں بابِ حجر تک پہنچ کر بردباری اور تحمل سے دستک دیتے، آپ نے بلند آواز ہو کر صدا لگائی، ’’کوئی ہے؟‘‘ جیسے کوئی امیر زادہ نوکر کو پکار رہا ہو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ڈر ڈر کر آہستگی سے، دستک دی جاتی۔ آخر تو ’باب‘ ایک دروازہ ہی ہوتا ہے،جس پر بے صبری اور تنک مزاجی سے بھی ’’ٹھاہ ٹھاہ‘‘ دستک دی جاتی ہے، اور جسے متانت اور آہستگی سے بھی کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن آپ نے تو حد ہی کر دی، نہ صرف بے صبری سے دروازے کو پیٹ ڈالا بلکہ غالبؔ کی ہمنوائی میں اس شعر کو بھی اپنے انداز میں کہہ دیا، ’’پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق : آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟‘‘
میں نے ان کی بات سمجھ لی۔ دستک سے ان کی مراد وہ نہیں تھی، جو میری تھی۔ ان کی نظم میری اس طفلانہ نظم سے نہ صرف بدرجہا بہتر تھی، بلکہ گہرے معانی کی حامل تھی، جو میری نظم میں نہیں تھے!
کچھ توقف کے بعد میں نے عرض کیا، ’’گویا بے انت وہmacro-cosm ہے، جس کے ساتھ micro-cosm کے ملاپ میں ہی اس کی مکتی ہے؟ ‘‘
خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد بولے، اگلی بار ہم micro-cosmاور macro-cosm کی لا محدود علاقائی وسعت کے بارے میں بات کریں گے۔ ۔۔۔۔‘‘
میں ہنس پڑا، ’’آ پ نے یہ اصطلاح میری ایک تتھاگت نظم سے کیسے یاد کر لی؟ کہنے لگے، آ پ کی تتھاگت نظمیں آپ کا کاپی رائٹ تھوڑا ہی ہے، وہ تو سارے اردو یونیورس کا حصہ ہے۔ یہ مان لیا کہ اردو میں آپ ہی اکیلے وہ شاعر ہیں جس نے بدّھ مت کے بارے میں اتنی زیادہ نظمیں لکھی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آ پ اس گدّی پر ساہوکار بن کر بیٹھ جائیں۔‘‘
میں پھر ہنس پڑا۔ انہوں نے ایک فرمائش کی۔ مجھ سے ایک کتاب فراہم کر کے ہوائی ڈاک سے بھیجنے کے لیے کہا۔ میں نے فوراً حامی بھر لی۔ Trevor Ling کی اس کتاب کا نام ہے۔ A History or Religion East and West۔ میں خود اسے تقابلی
ادب پڑھاتے ہوئے تقابلی مذہبیات کی کتاب کے طور پر اپنے طالبعلموں کو پڑھنے کے لیے کہتا رہا ہوں۔ کہنے لگے ،’’ جب میں’’ غالب کا ذوقِ تماشا ‘‘کے رف نوٹس لکھ رہا تھا تواس کے آخری باب کے لیے میں نے اس کتاب سے کچھ اقتباسات مستعار لیے تھے۔ آپ نے اگر ابھی تک نہیں پڑھی تو اب پڑھ لیجیے اور مجھے بتایئے کہ اس باب میں جو کچھ بدھ مذہب کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ درست ہے کہ نہیں۔۔۔‘‘
میں نے عرض کیا، ’’جی، میں تو اس کتاب کو کلاس روم میں بھی اپنے پاس رکھتا ہوں ۔‘‘
ہنس پڑے۔ ’’شروع سے آخر تک پروفیسر ہی ہیں آپ! انگریزی کی حد بندیوں سے آپ کیسے نکل آئے ۔۔۔۔اردو کی جانب؟‘‘
میں نے عرض کیا، ’’جیسے فراقؔ نکل آئے تھے ۔۔ وہ تو انڈیا میں ہی انڈر گریجویٹ کلاسز کو پڑھاتے رہے، میں تو ایک زمانے میں یورپ اور شمالی امریکا کی خاک چھان آیا ۔۔۔‘‘
پھر ہنسے، ’’خاک چھان کر آئے کہاں؟ یوں کہیے ، کہ ابھی خاک چھان رہا ہوں!‘‘
دوسری صبح مجھے تو عزیزی نصیر احمد ناصرؔ میر پور سے لاہور آ کر اپنی کار میں ساتھ لے گئے لیکن وزیر آغا کے ساتھ یہ گفتگو سوتے جاگتے ہوئے مجھے پریشان کرتی رہی۔سوچتا رہا کہ ’’زمان و مکان‘‘ (جس کا باسی میں ہوں) کی آواز کے جواب میں ’’لا مکان و لا زماں‘‘ کی معنی خیز خاموشی شاید ’’خاموشی‘‘ نہ ہو ، ایک غیر محسوس آہنگ ہو جس تک ہمارے اعضائے رئیسہ کی رسائی ممکن نہ ہو۔ یہ جواب ایک ’’غیر محسوس اور خواب ناک بہاؤ‘‘ کی طرح ہو ، جو ٹھہرتا نہیں اور ہم ایک لمحے اور ایک مقام کی اندرونی سیپ میں بند سمندر کے بہاؤ کو سننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ن۔ م۔ راشدؔ کی یہ سطور یا د آئیں:
وہ سمت و صدا جو سفر
کا نشاں تھیں
وہی منتہائے سفر بن گئیں
تسلسل کے صحرا میں ریگ و ہوا، پاؤں کی چاپ
سمت و صدا
تسلسل کا رازِ نہاں ، تغیر کا تنہا نشاں
۔۔۔(لا انسان)۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں