مشاہدات و عالمِ رویاتِ سہیل۔۔۔۔۔۔ سہیل اکبر کروٹانہ

چند روز قبل دیکھا کئے،،،، ایک سڑک پر جلوس رواں دواں تھا،،، اس جلوس کی قیادت کے فرائض المرشد قسم کے ایک صاحب کر رہے تھے جب کہ ان سے تین قدم کے فاصلے پر ایک اور صاحب کافی بڑے حُجم کا سپیکر اپنے سر پر اُٹھائے مکبر الصوت الکبیر بردار کے جملہ فرائض سر انجام دے رھے تھے۔۔۔ سپیکر میں باآوازِ بلند دورِ حاضر کے مذہبی کلمات دورِ حاضر ہی کے تقاضوں کے عین مطابق پڑھے جارہے تھے،،، ان کے عقب میں درمیان سے چار پانچ افراد ایک قطار بنائے مذھبی تحریروں پر مشتمل بڑے بڑے چوکور کتبے اٹھائے ھوئے جلدی چل کی رفتار سے چل رہے تھے۔۔۔ اب جو میری نظر ان کے مزید عقب میں پڑی تو پتہ چلا کہ بہت سارے افراد جنازہ اُٹھائے چلے آ رھے ھیں۔۔۔ وہ بھی باآوازِ بلند کُچھ پڑھ رھے تھے جو کہ یقینا” مذھبی کلمات ہی ھوں گے۔۔۔ حیران ھوا کہ یہ کیا؟ پہلے تو سمجھا کہ کوئی ریلی وغیرہ نکل رہی ھے ۔۔۔ پھر سوچا کہ شاید کوئی مذہبی جلوس ھے،،،، راقم الحروف نے قبل ازیں اس ملک میں اُردوُ زبان کا جنازہ نکلتے دیکھا، آئین کا جنازہ نکلتے دیکھا، قانُون کا جنازہ نکلتے دیکھا، اِخلاق کا جنازہ نکلتے دیکھا، برداشت کا جنازہ نکلتے دیکھا البتہ جنازے کا جنازہ نکلتا دیکھنے کا اتفاق پہلی مرتبہ ھوا۔۔۔ وطنِ عزیز میں روز مرہ زندگی کو مشکل تر بنایا جا رھا ھے خصوصا” ایسی چیزیں جن کا تعلق مذہب سے ھے۔۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ قریب اسی برس قبل فرما گئے تھے کہ ؎

حقیقت روایات میں کھو گئی

یہ امت خرافات میں کھو گئی

تحریر لکھنے والے نے لو فئیر ریٹرن ٹکٹ لے کر چشمِ زدن میں عالمِ رویا کی جانب سرعت کے ساتھ روانگی اختیار کی۔۔۔۔ عالمِ رویا کے صدر دروازے پر پہنچ کر حقیقت منکشف ھوئی کہ نائن الیون کے بعد ”ھُن او گلاں نی رھیاں” دروغۂ عالمِ رویا نے پہلے تو فعال ویزے کا معائنہ کیا، وہ تو درست اور مضبُوط نکلا لیکن بات پولیو کارڈ پر آ کر اٹک گئی،،، الحمدُللہ راقم نے چونکہ ترلہ جاتِ درجۂ اول کا کورس امتیازی نمبروں سے پاس کر رکھا ھے اس لئے مرحلۂ ثانی سے با آسانی نکل کر عالمِ رویا کے ڈاوٴن ٹاوٴن تک پہنچنے میں چنداں مشکل پیش نہ آئی۔۔

عالمِ رویا میں دیکھا کہ اگر علامہ اقبال آج زندہ ھوتے تو ملاحظہ فرماتے کہ لفظ خرافات اس امت کی حرکات کی وجہ سے اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھا ھے اور اس کی جگہہ نو عشاریہ آٹھ رچر سکیل کے کسی لفظ کا استعمال ہونا چاھئے۔۔ یہ سوچ کر وہ لپکتے جانبِ بابائے اُردوُ مولوی عبدالحق کہ ”المدد یا مولوی المدد” ۔۔۔ کوئی نیا ”لفظ” ایجاد کریں۔۔۔ فیروز اللغات کو غسلِ تفتیش دیں۔۔۔ فرھنگِ آصفیہ کا دامن چاک کریں،، اور نہیں تو اس نگوڑے گُوگل کے سرچ وارنٹ لے کر اس سے ہی کُچھ اگلوا لیں۔۔۔ لیکن نہیں،،، مولوی صاحب پہلے ہی اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کر کے خود بھی کھڑے ہوتے اور فرماتے ،،، ھذا امت لاعلاج یا دکتور۔۔۔

 لیکن ھاں،، سنتےھیں کہ اگلے زمانوں میں کوئی شاد مردانوی ھے۔۔۔ زبان و بیان گویا اس کے آگے پیچھے یوں پھرتے ھیں جیسے کرپٹ سیاست دان نیب کے آگے پیچھے۔۔ مولوی عبدالحق نے شاد مردانوی سے متعلق علامہ صاحب کو کُچھ یوں ”ڈی بریف” کیا کہ ”شاد کی تحریر پڑھنا کوئی بہادری نہیں۔۔ اصل مزدوری تو اس کے بعد شروع ھوتی ھے،،،، یعنی تحریر کا بقائمی ھوش و ھواس فہم و ادراک،،، شاد کی تحریر کو سمجھنے کے لیئے جو زادِ راہ یا سامانِ زیست درکار ھے اس میں اُردوُ سے اردو لغت، عربی سے اردو، فارسی سے اُردوُ، اُردوُ سے فارسی و عربی لُغت،، فرھنگِ آصفیہ کی تمام جلدیں بمعہ تفسیر، ایک محدب عدسہ، پسینہ صاف کرنے کے جملہ ہتھیار مثلا” مندیل، رومال و سامان ھائے نظافت اور مقدُور بھر ٹھنڈا پانی وغیرہ وغیرہ شامل ھیں۔۔۔ پھِر کہیں جا کر گوھرِ مقصُود کے ہاتھ آنے کے امکانات پیدا ھوتے ھیں ،،، یعنی بڑی مشکل سے ھوتا ھے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

یہ سن کر علامہ صاحب عارضۂ قلب میں مبتلا ھو کر چوھدری پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ھو جاتے جہاں پر شنید ھے کہ ان کا سرکاری خرچ پر علاج معالجہ چلتا،،، اور وھاں موجود میڈیکل آفیسر علامہ اقبال کو کہتے کہ سر آپ اپنے صرف ایک شعر کے ھاتھوں محطم القلب ھوگئے ھیں اِدھر میں سوچ سوچ کر ھی پریشانی کے بحرِ احمر میں غوطہ زن ھوں کہ اگر آپ اپنی باقی شاعری کی طرف دھیان کریں تو آپ کے اندر کیا کیا سونامی جنم لیں گے۔۔۔ایک محتاط اندازے کے مطابق جن ڈاکٹر صاحب نے حکیم الامتؒ کو ”غیر میڈیکلانہ” پند و نصائح کئے وہ کوئی ”شدید پڑھے لکھے” ڈاکٹر معلوم پڑتے تھے۔۔ فقط ایم ۔بی ۔ بی ۔ ایس نہ تھے۔۔ مخبر کہ جس کی اس شب وھاں بطور میل نرس نائٹ ڈیوٹی تھی، سرگوشیوں میں بتاتا ھے کہ وہ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب تھے۔۔۔ واللہُ اعلم بالصواب

 ڈاکٹر صاحب حضرتِ علامہ اقبال کو تازہ ترین ای سی جی رپورٹ کی روشنی میں بتا رھے تھے کہ آپ کو عارضۂ قلب سے بچنے کے لئے مستقبل میں جن چیزوں سے پرھیز کرنا لازم ھوگا ان کی تفصیل کُچھ یوں ھے،،،،

بڑا گوشت،

بناسپتی گھی میں تلی ھوئی چٹ پٹی چیزیں،

مرغن اشیائے خورونوش اور سب سے اھم آپ کی اپنی شاعری۔۔

ادھر جب ڈیوٹی اسٹاف کو خبر ملی کہ علامہ اقبال صاحبِ فراش ھیں اور ھمارے ہی اسپتال میں زیرِ علاج ھیں تو ایک اسٹاف بہت شوق سے علامہ صاحب کے پاس تشریف لائے اور لگے فرمانے کہ سر مجھے آپ کی شاعری بہت پسند ھے، تِس پر علامہ صاحب کے لبوں پر ھلکا سا تبسم لہرایا، فرمانے لگے کہ اچھا، پھر مجھے میرا ہی کوئی شعر سنا دو۔۔۔

اسٹاف نے سکول کے زمانے میں رائج کردہ ”لپے آتی” اسٹائل میں دونوں ہاتھ باندھے اور کُچھ یوں گویا ھوا؎؎؎

ذرا نم ھو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی

اسٹاف نے بتایا کہ سر آپ کی شاعری کے ایک اھم ترین موضوع ”خودی” کا ھم نے انگریزی ترجمہ بھی کر رکھا ھے ،،، علامہ صاحب خوش ھو کر بولے ؛ بھلا وہ کیا؟

اسٹاف بولا ؛ سیلفی یعنی خودی آپؒ نے کہا کہ سیلفی کیا ھے؟ سٹاف نے اسی وقت اپنا آئی فون نکالا، جھٹ سے علامہ صاحب کے ساتھ سیلفی لی اور کہا کہ ، سر اسے سیلفی کہتے ھیں..

آ پاس آ، رہ نہ جائے کوئی خواھش باقی

یہ سنتے ھی علامہ صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو اُوچی جئی آواز دی اور پنجابی میں فرمایا کہ ؛ پہلاں تے کوئی امید ھے سی پر ھون نی میں بچ دا۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سہیل اکبر ایوی ایشن سے وابستہ ہیں۔ آپکے جہاز اور تخیلات دونوں بلند پرواز ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply