جب بحرِمرمرہ نے آگ پکڑی (دوم،آخری حصّہ)۔۔کبیر خان

’’اَیز آئی تھاٹ۔۔۔۔‘‘۔ وہ سمندرمیں کنکر مارتے ہوئے کسقدر مطمعن دکھائی دے رہا تھا۔

’’آنے سے پہلے کبھی آپ انطالیہ آئے ہیں ؟‘‘ اُس نے بات بڑھانے کے لئے بات بڑھائی۔ ہم نے ٹیٹنی بجائی۔ وہ سمجھ تو گیا لیکن کوشش کے باوجود ہماری نقل نہیں کر سکا۔

جس کا توڑ اُس نے یہ نکالا کہ اکیلا جان کر ہماری ناقص معلومات میں کماحقہ اضافہ کرنے لگا:

’’انطالیہ صوبہ تُرکی میں بحرِ روم کے کنارے آٹھ ہزارمربع میل پر محیط ایک سیاحتی خِطّہ ہے۔  جو تُرکی کے ۳۰ فی صد سیّاحوں کو اپنی اور کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا

ہے ۔۔۔۔ ‘‘اُس نے کہا ، پھر خلا میں گھورنے لگا۔ اور ہم اُس سے جان چھڑانے کی کوئی موزوں سی تدبیر سوچنے لگے۔۔۔

’’آپ کوئی لینڈ لارڈ ہیں ۔۔۔۔۔؟‘‘وہ سوچوں سے نکلا۔ ہم نے نفی میں گردن ہلائی۔ ’’کارخانہ دار۔۔۔۔؟‘‘۔ اُس نے پوچھا۔ ہم نے انکار کیا۔’’کوئی بڑی میڈیا پرسنلٹی۔۔۔؟ ‘‘۔ ہمارا جواب نفی میں تھا۔’’پھر سیاستدان ہوں گے۔۔۔؟‘‘۔ ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ ’’اسمگلر۔۔۔؟‘‘۔ ہمارا جواب نہ میں تھا۔’’اِس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا قیاس درست ہے۔۔۔‘‘

گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کے لئے  ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ’’لا اُستاد کیسی کہی؟ تمہارے ماتھے کی لکیریں ہی بتاتی ہیں کہ تم اپنے آدمی ہو۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتا ہی دو، کبھی گہرے سمندر کی تہہ میں بھی ہاتھ ڈالا ہے یا اُتھلے سے ہی مال پانی کماتے رہے ہو۔۔۔؟‘‘ہم ہنس دیئے،ہم چُپ رہے ۔۔۔۔۔۔

’’یہ ہوئی ناں مردوں والی بات۔۔۔‘‘کہتے ہوئے اُس نے مکرّر دستِ دوستی دراز کیا۔

’’آپ کا نام کیا ہے۔۔۔؟‘‘ کبیر خان۔۔۔۔،محمد کبیر خان، ہم نے جواب دیا۔

’’سُٹ پنجہ۔۔۔‘‘وہ بولا ’’میرا تعلق بھی خانوں سے ہے۔ استنبول میں توپ قاپی

محل دیکھا ہے؟، وہاں ہمارے عہد کی مجلس کی دیوار پر فارسی زبان میں ہمارے ہی پڑدادا کا قصیدہ چسپاں ہے:

بولیدم  باریٗ بمصراع رعنا جای زیبایہ

قصورم اولسہ دہ عفوایلراولشاہ کرمفرما

کورن سردادہٗ انصاف  اولورعزت بوتاریخہ

مجدّد ایلدی دیوان یرین محمود خان والا

ہم نے پوچھا خان بھائی آپ کا پورا نام کیا ہے؟۔ موصوف نے جو نام بتایا اُس سے خان کی بوُ تک نہیں آتی تھی۔ یہی نہیں وہ خوارزمی بھی نہیں تھا۔ (خوارزمی تو ایرانی ہوتے ہیں ۔ جیسے ابوجعفر محمدبن موسیٰ الخوارزمی،بہت بڑا ریاضی دان اور ماہر فلکیات)

تاہم ہمارا ڈاکخانہ مل گیا تو بُرا کیا تھا۔ ہم نے قسطنطنیہ سے دھرو کر اُس کے اجداد کو ۱۹۴۷کی جنگِ آزادی ایرانِ صغیر میں ککّو کی نکّی کے میدانِ کارزار میں اپنے دادوں کے شانہ بشانہ ڈوگروں سے بھِڑا دیا۔ جہاں اُنہوں نے دشمنوں کے کُشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ وہ بھی خوش ، ہم بھی راضی برضا۔

اور جب ڈاکخانہ مل گیا تو اُس نے ایک بار پھر ہمارے سمندری تجربوں اور معرکوں کے بارے میں استفسار کیا۔ اور جب مطمئن ہوگیا کہ ہم تارپیڈو میں بیٹھ کر ماریانا ٹرینچ کے پیندے تک کو چھوُ آئے ہیں  تو وہ مطلب کی بات پر اُتر آیا:

’’ تمہیں معلوم ہے کہ دنیاکا پہلاغرقاب جہاز کہاں سے دریافت ہوا تھا۔۔۔؟یہیں، اسی انطالیہ کے ایک قصبے کے قریب ۔ جانتے ہو کس نے دریافت کیاتھا۔۔۔؟؟ تم جیسے ایک جی دارغوطہ خور نے جو اسپنج جمع کرکے مارکیٹ میں بیچاکرتا تھا۔ پاپی پیٹ بند ے سے کیا نہیں کراتا۔ غوطہ خور نےہی بتایا کہ غرقاب جہاز کا نام “گالی دوانا” تھا۔۔۔۔۔ کہا نام دُہراٗو۔اُس نے دُہرایا۔ واوٗ۔۔۔، ہمارے منہ سے بےساختہ نکلا’’یہ تو خالص پونچھی پہاڑی ہے۔۔۔،ہماری ماں بولی‘‘۔

’’ پھر تو تم ہمارے گرائیں نکلے۔۔۔‘‘اک بار پھر جپھّی مارتے ہوئے بولا’’  اب ذرا غور سے سنو، اُسے پیتل،تانبے اور قلعی کی بعض  اینٹیں بھی ملیں جن کا تجزیہ  کرنے پر معلوم  ہوا کہ اس جہاز کی تاریخ تین ہزار دو سو سال پرانی ہے۔اسی مقام پر اس جہاز کی باقاعد ہ سے تحقیق  سن انیس سو ساٹھ میں  مکمل ہوئی ۔ اور مزید کچھ دھاتوں کی باقیات بھی ملیں۔ جن کے بارے میں خیال ہے کہ اس دور میں قابل تجدید عمل کےلیے استعمال کی جاتی ہونگی۔  جس نے ماہرین کو  دم بخود بھی کیا۔
تحقیق سے ملنے والے نوادرات  بودروم کے بحری  عجائب خانے کے قیام کی بنیاد بنے اور اس طرح سے ترکی کا پہلا بحری عجائب خانہ وجود میں آیا۔ اس تحقیق سے امریکہ کوبھی بحری تہہ میں دبے خزانوں کی تلاش کا بہانہ ملا۔

سنو!  اُنیسویں صدی کے آخری عشرے میں انطالیہ کے ساحلی قصبے قاش کے قریب ایک اور غرقاب جہاز کا ملبہ ملا۔جس پر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ گالی  دوانا سے بھی  دو سو سال پرانا تھا۔ یہ دریافت بیسویں صدی کی  اہم ترین بازیافتوں میں شمار ہوئی۔ اس جہاز کے ملبے سے پیتل کی اینٹیں اور کوبالٹ،نیلے،فیروزہ اور جامنی رنگوں کے بعض شیشے کے ٹکڑے بھی ملے  تھے۔ شیشہ سازی کو دنیا کا قدیم ترین فن مانا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ ہاتھی  ا ور دریائی گھوڑوں کے دانت،پیتل کے تیر اور نیزوں کی نوکیں اوردیگرہتھیاربھی یہاں سے ماہرین کو ملے۔

قبرص سےتجارتی مال جہازوں پر لاد  دیا گیا ۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا، سو بیڑے نے لنگر اٹھا دیئے۔ان جہازوں پر پیتل لدا تھا جو کہ سمندر میں طوفان کی  نذر ہو گئے اور شدید ہواوں کے رخ پر بہتے بہتے انطالیہ کے قریب غرق ہوئے۔  پینتیس سال  بعد پھر انطالیہ کے قریب ایک اور جہاز کا ملبہ ملا جس پر ڈیڑھ ٹن پیتل لدا ہوا تھا۔اُس نے رازدارانہ لہجے  میں کہا’’میں جانتا ہوں کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں ۔۔۔ ارے بابا چہرے پڑھنے میں یوں سمجھ لو ،یہ خاکسار پی ایچ ڈی ہے۔ روزانہ تین ساڑھے تین سو چہرے حاشیوں سمیت پڑھ لیتا ہوں ۔ اور اوپر والے کی مہربانی سے کبھی سمجھنے میں فاش قسم کی غلطی نہیں کی۔ تمہارا چہرہ صاف صاف بتا رہا ہے کہ تم سخت کوش اور ضدی آدمی ہو۔ تم یا تو پہاڑوں کو سرُنگیں لگاتے ہو یا سمندروں کو کھنگالتے ہو۔

ادھر دیکھو! یہاں ہمارے پاس دونوں ہیں ۔ جہاں پہاڑ ڈوبتا ہے،وہیں سے سمندر طلوع۔ اِدھر بھی روپیہ پیسہ اُدھر بھی مال متاع۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہاڑ کھودنا پڑتے ہیں ،سمندر پھرولنا پڑتے ہیں ۔ انطالیہ کے ساحلوں کے قریب بڑے بڑے بیڑے غرق ہوئے، ،آدھے سے زیادہ ہنوز بازیافت کے منتظر ہیں ۔ مجھے جواب کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ یہ کارڈ پاس رکھو،رات کو سوچو، کل بتا دو۔ لیکن میں آج اورابھی بتا دیتا ہوں، کل کلاں امریکہ اس سمندر میں کود پڑے گا۔ پھر نہ کہنا بتایا نہیں ۔ غوطہ خوری کا لباس میرے پاس ہے، تمہیں تھوڑا تنگ ہوگا، لیکن تم نے کون سا فیشن شو میں حصّہ لینا ہے۔ ہے کہ نہیں؟۔ ’’جو نکلے گا ، دونوں بھائی آدھا آدھا کر لیں گے۔‘‘

ابھی دوطرفہ مذاکرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ وہ کشتی آ گئی جس کے ذریعہ ہم نے انطالیہ کے ساحل کی سیر کرنا تھی۔ ’’باقی باتیں ٹرِپّ کے بعد طے کرلیں گے ، مجھے کوئی ایسی جلدی بھی نہیں ہے۔۔۔۔ ‘‘گائیڈ بولا

کشتی آئی تو خلافِ توقع کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ اس کے باوجود گائیڈ نے ہم دونو کو ایک ایسی’’فرنٹ سیٹ ‘‘ پر بٹھا دیا، جو بلا اشتعال کافی دور تک کھُبنے کی پوری  صلاحیت رکھتی تھی۔ معلوم ہوا ہم سے پہلے اس پر وہ نوبیاہتا جوڑا بیٹھا تھا جو اُس وقت جملہ مسافروں کی نگاہوں کا مرکز تھا۔ خصوصاً دُلہن کفر کی آخری حد تک خوبصورت تھی۔ کشتی جونہی ویوّ بریکرزسے باہر نکلی،دولہے کی فرمائش پر دُلہن تاحدِ نگاہ کھُل کر سامنے آگئی اور فلیگ پوسٹ کے ساتھ لگ کر ’’ٹیننگ ‘‘ کرنے لگی۔ ہم نے خواہش تو نہیں کی لیکن ہم اُس عفیفہ کے ٹھیک سایہِ عاطفت میں تھے۔  بیگم نے صورت حال کا نوٹس لیا اور پہلے تو ہمیں ’’چیکیں ‘‘(پیندے سے دھکیلنا) دے دے کر پرے سرکانے کی سعی کرتی رہیں ،پھر عفیفہ مذکوریہ کو دھوپ چھوڑنے کا اشارہ کردیا۔ وہ دو انچ پرے سرکی تو سی تھروُ چُنری بھی سرک گئی  جو اُس نے  نجانے کس مقصد کے لئے اوڑھ رکھی تھی۔ چُنری ہوا میں اُڑتی ہوئی دور پرے ایک شِپ پر جا اٹکی۔ چُنری کے بار سے آزاد ہوتے ہی یوں ہوا کہ ایک بار پھر سمندر کو آگ لگ گئی۔۔۔۔۔آتشِ یونانی۔۔۔۔ ’’گریک فائر‘‘۔عملے کے دو ارکان نے آگ بجھانے کے آلے چلائے، فائربریگیڈ کو مدد کے لئے پکارا،قرب و جوار کی جملہ کشتیوں کو’’مے ڈے کال ‘‘ دیا۔

بیگم نے پرس سے تسبیح نکال لی اور توبہ استغفار کا ورد کرنے لگیں ۔ اُن کی دُسراتھ  کے لئے ہم بھی ’’ڈھونگا پھیر کے‘‘بیٹھ گئے ۔ لیکن تیز ہوا اور پانی کے زور سے ہم خطرے کی زد میں گھیسیاں کھا رہے تھے۔ ہمارا گائیڈ کسی کے گلے کسی کے پاوں پڑتا ہم تک پہنچا اور بولا:

ارادے جن کے پختہ ہوں ، نظر جن کی خدا پر ہو

طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

ہم نے حوصلہ افزائی کے لئے اُس کا شکریہ ادا کیا تو بولا۔۔۔۔۔ ’’نہ نہ نہ، اس تکلّف کی ضرورت نہیں ، ہمارے بیچ پہلے سے طے ہے کہ سمندر سے جو خزانہ ہاتھ لگے گا، آدھا آدھا۔آتش یونانی سالم میری، یونان سموچا تمہارا۔ کیا یادرکھو گے کس بادشہ سے پالا پڑا ہے۔ ‘‘

ہم نے یونان کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا، کسی کام کا نہیں تھا۔آتش مذکوریہ کا پرس ،سینڈل اور اسٹینڈ بائی سی تھروُ تہمت گلے لگائے بیٹھا تھا۔ مرمرہ آگ کی لپٹوں میں لپٹا ہوا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(سفرنامہ تُرکی سے اک باب)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply