اسلام کو مولوی سے ہی کیوں بچائیں؟۔۔۔۔۔۔۔ رانا تنویر عالمگیر

رانا تنویر کتاب “اسلام کو مولوی سے بچاو” کے مصنف ہیں۔ زیر نظر مضمون کتاب کا تعارف ہے

بلا ہچکچاہٹ میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایک ناقص طالب علم ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ اس خوبصورت دنیا کو چھوڑنے سے پہلے میں اپنا شمار اچھے طالب علموں میں کروا سکوں. “اسلام کو مولوی سے بچاو” لکھنے کی وجہ خود کو لکھاری ثابت کرنا اور اہل علم میں شمار کروانا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ وہ اذیت ہے جو پاکستان اور اسلام کا پوری دنیا میں مزاق بنتے دیکھ کر مجھے پوری طرح جکڑے ہوئے ہے.

ہماری رسوائی کی بے شمار وجوہات ہیں اور میرے خیال میں ہر طبقے نے پوری ایمانداری سے پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے میں اپناحصہ ڈالا ہے لیکن مجھے پاکستان اور اسلام کا مزاق بنوانے میں سب سے اہم کردار “مولوی” نظر آیا. میرے خیال میں مولویت ایک سوچ بن چکی ہے جس نے اجتماعی طور پر پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے. میرے ذاتی اندازے کے مطابق ہمارے معاشرے کے 90% افراد مولویوں پر مشتمل ہیں جس میں سوشل میڈیا کے لبرل بھی شامل ہیں، کالج، یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات اور پروفیسرز بھی شامل ہیں اور گاوں دیہات کے ان پڑھ بھی.

یہ سب مولوی کیسے ہیں؟ میں انہیں مولویوں میں اس لیے شمار کرتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص خود سے بڑا دانشور، فلسفی، عالم اور مفتی کسی کو نہیں سمجھتا. دوسروں کی نہیں سنتا بلکہ صرف اپنی سناتا ہے. دلیل کی بجائے تذلیل پر یقین رکھتا ہے. ہر قسم کے قوانین جو ملکی ہوں یا مزہبی، اپنے علاوہ باقی سب پہ لاگو دیکھنا چاہتا ہے. اصل میں یہ سوچ ملائیت کی ایجاد ہے جو رفتہ رفتہ پوری قوم میں سرایت کرچکی ہے اور پوری قوم ذہنی طور پر غلام بن چکی ہے.سوچ پر پہرے مولوی نے بٹھائے اور آج سوچ کے اعتبار سے قوم کی اکثریت مولوی ہے.

میں ذاتی طور پر عالم دین اور مولوی کو الگ الگ طبقات دیکھتا ہوں. ہمارے معاشرے میں علماء نہ ہونے کے برابر ہیں اور مولوی ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہیں اور جو علماء حضرات ہیں وہ بھی اپنی عزت سے ڈرتے ہوئے خاموش ہیں کیونکہ اگر کوئی عالم دین ذرا بھی روایت سے ہٹ کر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر پہلا فتوی اس کے اپنے مسلک کے مولویوں کی طرف سے آتا ہے. سچ یہ ہے کہ مولوی کا اسلام ایک پیشہ ہے. پیشہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے اس سے ذاتی مفادات وابستہ ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہر فرقے کی نظر میں باقی فرقوں کے لوگ کافر مشرک بدعتی اور گستاخ ہیں اور آج تو ہر فرقے کے اندر بھی بہت سارے فرقے بن چکے ہیں جو اپنے ہی لوگوں سے علیحدہ شناخت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں. یہ الزام نہیں حقیقت ہے کہ ملاازم میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، سوال پوچھنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کو گمراہ سمجھا جاتا ہے.

اصل بات یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اسلام لائے تھے، مولوی نے اسے یرغمال بنا رکھا ہے اور مکمل ضابطہء حیات کی جگہ اپنی ذاتی محنت و کاوش سے تیار کردہ مزہب کو اسلام بنا کر لوگوں میں پھیلا دیا ہے جس کا واضح نتیجہ بے عملی اور پوری دنیا میں تذلیل ہے. اس لیے مجھے لگتا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اسلام پر سے مولوی کی اجارہ داری ختم کرنا ہوگی اور اسلام کو مولوی سے بچانا ہوگا. سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیت اپنی قوم کو لوٹانی ہوگی اور علم کو معاشرے میں بحال کرنا ہوگا.

“اسلام کو مولوی سے بچاو” انتہائی سادہ زبان میں لکھی گئی کتاب ہے تاکہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکے اور فیصلہ کرسکے. کتاب کے اندر ایسی کوئی حدیث یا متنازعہ تاریخ کو شامل نہیں کیا گیا جس سے مولوی انکار کرسکیں. مولوی صاحبان اپنی تقاریر میں اکثر علامہ اقبال کے اشعار پڑھتے ہیں اس لیے علامہ کے 100سے زیادہ اشعار کو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے جن میں علامہ نے براہ راست مولوی کو اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے. کتاب میں مولوی کے کاروبار کے تقریبا تمام پہلووں پر اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے.

کتاب کے آخر میں مولوی صاحبان سے کچھ بچگانہ سوالات بھی کیے ہیں. بچگانہ اس لیے کہ عقل مند انسان پاکستان میں رہتے ہوئے ایسے سوال پوچھنے کی حماقت نہیں کرسکتا. کتاب میں کچھ احادیث بھی شامل کی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشہ ور مولویوں کی نشانیاں بتائی ہیں. وہ حدیثیں خود مولویوں کی کتابوں میں بھی ملتی ہیں لیکن وہ ان کےمسلک کے علاوہ باقی تمام مسالک اور فرقوں کے مولویوں کے لیے ہوتی ہیں.

میری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے لیے اسلامی نظام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام مفید ہو ہی نہیں سکتا لیکن ہمیں نظام مصطفی چاہیے، نظام مولوی نہیں…ہو سکتا ہے یہ دیوانے کا خواب ہو لیکن میں پوری کوشش کروں گا کہ ہماری قوم کی سوچوں پر جو پہرے مولوی نے بٹھائے ہیں، ان سے اس قوم کو نجات دلاوں…

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

یہ جان تو آنی جانی ہے…اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply