” وہ سب کو باغی بنا رہے ہیں “۔۔۔۔بیورگ بلوچ 

جو تخت سے پھر ُاتر رہے ہیں

فرشتہ بن کے جو آ رہے ہیں

ہمارے کھاتے سے قرض لے کر

ہماری دولت ہمارے کاسوں

میں بھیک دے کر جو بھر رہے ہیں

وہ ظالموں کے نڈر ملازم

ہمارے حاکم ہیں ُان کے خادم

ہمارے آقا ہیں ُان کے نوکر

چلا رہے ہیں ُدکان ُان کی

وہ خوب پیسا کما رہے ہیں

امیر ملکوں کو جا رہے ہیں

ہماری تعلیم ختم کرکے

پرائے ملکوں میں اپنے بچے

ہمارے زر پر پڑھا رہے ہیں

وہ سازشیں کرکے ُکشت و خوں کی

کسی کو منکر کسی کو کافر

کسی کو کہتے ہیں اچھا مومن

ہمی پہ فتوے لگا رہے ہیں

ہمی کو بانٹے ہی جا رہے ہیں

ہمارے ہاتھوں میں تیغ دے کر

ہمی کو کٹوائے جا رہے ہیں ،

خود اپنی عیار خصلتوں سے

خود اپنے ظلم و ستم سے حاکم

سبق بغاوت کا دے رہے ہیں

وہ سب کو باغی بنا رہے ہیں ،

عجیب ویران یہ جہاں ہے

عجیب سونا سما سما ہے

نہ کوئی لَے ہے نہ کوئی آہنگ

بے رنگ دنیا بے رنگ محفل

عجیب گردش عجب زمانہ

ہر ایک آدم ہو جیسے میت

مرا ہوا ہے گلا ہوا ہے

سڑا ہوا ہے کھڑا ہوا ہے

ُاٹھا کے اپنا جنازہ خود ہی

خود اپنی ٹانگوں پہ چل رہا ہے

وہ پانی بن کر کہاں کہاں سے

رواں دواں ہے یہاں وہاں سے

حسین دنیا کے خواب لے کر

وہ جنتوں کے سراب لے کر

وہ آدھی مخلوق آدھے انساں

وہ آگِ دوزخ میں جل رہے ہیں

عوام بن کر بھگت رہے ہیں

خود اپنی میت پہ رو رہے ہیں

وہ سوگ بن کر وہ روگ بن کر

تڑپ رہے ہیں بلک رہے ہیں

وہ جیتے جی مرتے جا رہے ہیں،

خود اپنی عیار خصلتوں سے

خود اپنے ظلم و ستم سے حاکم

سبق بغاوت کا دے رہے ہیں

وہ سب کو باغی بنا رہے ہیں،

وہ ظالموں کے نڈر ملازم

ہمارے حاکم ہیں ُان کے خادم

ہمی کو ُلوٹے ہی جا رہے ہیں

وہ قید کرکے ہماری خوشیاں

وہ روز عیدیں منا رہے ہیں

ہماری نیندیں حرام کرکے

بڑی سہولت سے سو رہے ہیں

ہماری گلیوں میں خوں بہا کر

خود اپنے ہاتھوں کو دھو رہے ہیں

ہمارے قاتل ہمارے مجرم

ہماری بستی گِرا رہے ہیں

ہمارے خیمے جلا رہے ہیں

ہماری ہستی مِٹا رہے ہیں

ہمارے فوجی ہمی کو بندوق

سے ہر قدم پر ڈرا رہے ہیں

ہمارے پیسوں سے لے کے گولی

ہمی پہ چلائے جا رہے ہیں

ہمارے منصف ہمی کو پیہم

سزائیں دیتے ہی جا رہے ہیں

ہمی کو جیلوں میں بھر رہے ہیں

ہمی کو پھانسی چڑھا رہے ہیں،

خود اپنی عیار خصلتوں سے

خود اپنے ظلم و ستم سے حاکم

سبق بغاوت کا دے رہے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

وہ سب کو باغی بنا رہے ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply