• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • شام امن سے جنگ تک:آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں ۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط6

شام امن سے جنگ تک:آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں ۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط6

یہ 2012  ہے۔ جولائی کے دن ہیں۔چار سال ہوتے ہیں۔اپنے ملک اپنے شہر اپنے گھر میں بیٹھی اپنے ملک کو خون میں نہاتے دیکھتی ہوں۔ تو آہوں اور آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے بہتے معلوم ہوتا ہے کہ جس پر چاہتوں اور محبتوں سے آج کل لکھ رہی ہوں۔ جس کے کوچہ بازاروں میں گھومتے پھرتے، جس کے خوبصورت لوگوں سے اپنی ملاقاتوں کا حال احوال لکھتے ہوئے جانتی ہوں کہ وہ بھی آگ میں جلنے لگا ہے۔
تب بے اختیار ایک خیال آتا ہے تو پھر وہ ساری باتیں، وہ ساری پشین گوئیاں اور وہ سارے قیافے درست تھے جنہیں سن سن کر انہیں پس پشت ڈالتی جاتی تھی۔
کلیجہ منہ کو آنے لگا ہے۔حسین شاپ کے عبداللہ ال جازر کا کارڈ جسے میں نے اپنی نوٹ بک پر چپکایا ہوا ہے۔ وہ ای میل ایڈریس میں نے اپنی کمپوزرسعدیہ علی کو دیا ہے۔ صاحب نظر وصاحب فکر آدمی۔
میرا اندر پتہ نہیں کیوں اس شعر کا ترجمان بنا ہوا تھا؟
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار،میں پکاروں ہائے دل

میں نے لکھا تھا ایک پاکستانی خاتون کہیں آپ کی یادداشتوں میں شاید ہو۔آپ سے میری دمشق میں چند ملاقاتیں رہی تھیں۔آپ کا ملک جس ابتلاسے گزر رہا ہے۔میں اس پربہت دکھی ہوں۔
اور آپ کے دکھ میں شریک ہوں۔کیا آپ مجھے جواب دیں گے؟
جواب مجھے ملا ہے۔اُن کی طرف سے نہیں۔اُن کے بیٹے کی طرف سے۔جس نے لکھا ہے میرے والد بیمار تھے۔اُن کے پتّے میں پتھریاں تھیں۔بیروت میں اُن کا آپریشن ہوا ہے۔اب وہ بہت بہتر ہیں۔چند دنوں تک واپسی کی امید ہے۔
دمشق خدا کی رحمت اور اس کے عتاب دونوں کی زد میں ہے۔مضافات میں شدید لڑائی ہے۔شہر میں بھی کہیں کہیں اور کِسی کِسی دن اثر زیادہ ہوتا ہے۔
تاہم شہر جی داری سے زندگی کے معاملات میں اگر الجھا ہوا ہے تو وہیں سہما ہوا بھی ہے۔چند دکھ بھرے واقعات کا تذکرہ تھا۔بہت سی تصویریں تھیں۔امیہ مسجد سے متعلق یہ خبر پڑھتے ہوئے میں ملول
ہوں۔عبداللہ ال جازر کے بیٹے سلیمان نے لکھا ہے۔
ابھی دو دن پہلے امیہ مسجد کے صحن میں بم گرا تھا۔داخلی دروازے کے پاس ہی۔مرمت کا کچھ کام ہورہا تھا۔دروازے،دیواریں،فرش اور وہ سارا حصّہ گڑھوں اور ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔اندر نمازیوں میں بھگدڑ مچی۔میڈیکل کالج کے چند طلبہ بھی نماز کے لئے آئے تھے۔ابھی تھوڑی دیر قبل وہ مجھ سے باتیں کرتے ہوئے اندر گئے تھے۔یہ دمشق سے نہیں تھے۔کچھ لاطا کیا Latakia،کچھ حمص اور کچھ حلب کے تھے۔ہوسٹل کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں آٹھ آٹھ نو نو ٹھنسے ہوئے۔جب امن کا زمانہ تھا تب اِن کمروں میں دو سے زیادہ طلبہ کو نہیں ٹھہرایا جاتا تھا۔
ایسی ہی دکھ بھری باتیں کرتے کرتے وہ مسجد کے اندر گئے تھے۔وہ جو ابھی چند لمحے قبل ہنستے قہقہے لگاتے تھے۔ان میں سے دو شہید اور چند زخمی ہوئے۔مزدور بہت زخمی ہوئے اورشہیدوں کی تعداد بھی کافی تھی۔
”ہماری دکان کو کافی نقصان پہنچا ہے۔کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے سے دو ملازم لڑکے بھی زخمی ہوئے۔“

میری آنکھیں گیلی ہوگئی ہیں۔میری بصارتوں میں وہ سارے لمحے،وہ ساری ساعتیں دوڑ دوڑ کر آئی ہیں جو میں نے اس کے مستطیل آنگن میں گزاری تھیں۔یہ مسجد اگر دمشق کا دل تھی تو میرے دل نے بھی اسے مرکز ثقل جانا تھا۔ ادھر گھومتی،ادھر گھومتی پھر اس کے چرنوں میں آکر بیٹھ جاتی۔
اردگردکے چھوٹے چھوٹے گھروں کی رہنے والی عورتوں کا یہ ریٹائرنگ روم اور ان کی گپ شپ کی جگہ تھی۔ڈھلتی شاموں میں جب اس کی بلندوبالا دیواروں کے اوپری حصّے افق پر بکھری سورج کی طلائی کرنوں میں نہارہے ہوتے۔ اس کا کریم رنگی فرش دوپہر کی تمازتوں کو خارج کرکے معتدل ہو چکا ہوتا۔ سیاہ عبایا پوش عورتیں اس پر دائروں کی صورت پھسکڑے مارکر بیٹھ جاتیں اور گپ شپ کے سیشن شروع کرتیں۔ بچے سارے میں بھاگتے پھرتے۔کبوتروں کے غول آنگن میں پیلیں ڈال رہے ہوتے۔

یہ منظر مبہوت کرنے والے ہوتے تھے۔یہ مجھے دیر تک وہاں بٹھائے رکھتے۔ شام دھیرے دھیرے کہیں دور گم ہوتی چلی جاتی۔
میں انہی منظروں میں گم اب ایک بار پھر اِسے بت بنی دیکھتی ہوں۔دمشق کا آسمان دھوئیں اور آگ کے شعلوں میں لپٹاہوا ہے۔امیہ مسجد کہیں گم ہوئی پڑی ہے۔اس کا حُسن گہنایا ہوا ہے۔
تو اب جاہد ال احمدیہ کی دردمیں ڈوبی نظم پڑھیئے اور شام کی دھرتی کے بیٹوں کا کرب دیکھیے۔

شام کے آسمان پر چمکتے دو چاند
یہ ہم ہیں
دیکھو دل کے دریا پرمعلق پل کی
کس ورید سے خون بہہ رہا ہے
اور فاصلے کم نہیں ہو رہے
فرات کے لبوں سے چاہت کے دو لفظ بولے گئے ہیں
اورتیسرا ماتم زدہ ملک کے لئے ہے
تکلیف بھرے دو سال اور اب تیسرا بھی
اُس لکھے ہوئے کو ٹال رہا ہے جو
تقدیر کے قلم سے لکھا گیا ہے
چنبیلی کے پھولوں جیسے شام
تمہارے خوبصورت نخلستان
جنہیں
آنکھوں کے دامن کی ہریالی چھوتی ہے
جو اُفق کی نیلاہٹ پر بھی ختم نہیں ہوتی
ہماری سڑکیں میجانا اور اتابا سے کتنا گونجتی ہیں
اور ہم تھکن زدہ لوگوں کے لئے کتنی شراب بہاتے ہیں
خدارا ہمارے خواب نہ نوچو
خدارا!اپنے دروازے ہمارے محبوبوں کے لئے بند نہ کرو
ہمیں ہچکچاہٹوں سے نکال لو
ہمیں گناہوں میں نہ پھنساؤ جو ہم نے نہیں کئے
ہمیں اپنے وطن کے سہارے اونچا اُڑنے دو
تاکہ ہم دہرے موسموں کے عذابوں سے بچ سکیں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply