مجھے یاد ہے (قسط نمبر 5)۔۔۔حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)

قسط نمبر 5۔۔۔۔

چھوٹا بھائی راشد اور میں والدصاحب کے لیےرات کا کھانا لے کر روزنامہ سیاست کے دفتر آئے ہوئے ہیں جہاں والدصاحب نیوزایڈیٹر ہیں۔بیدار سرمدی، وجیہہ شاہ، حسین ثاقب اور دوسرے سب ایڈیٹرز تازہ تازہ موصول ہوئی خبروں کا ترجمہ کررہے ہیں۔دائیں طرف دیوار کے ساتھ ہیڈ کاتب صاحب بیٹھے ہیں۔ اچانک دفتر کا دروازہ کھلتا ہے اور اخبار کے چیف ایڈیٹر اثر چوہان اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر عاشق چوہدری نمودار ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ حنیف رامے بھی ہیں جنھوں نے حال ہی میں اپنی ایک نئی جماعت پاکستان مساوات پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اثر چوہان صاحب اخبار کے ادارتی عملہ سے رامے صاحب کو متعارف کروارہے ہیں۔ والدصاحب بدستور بڑے میز کے پیچھے اپنی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ حنیف رامے سب کو چھوڑ کر والد صاحب کے پاس  آتے ہیں اور سلام کرتے ہیں۔ والد صاحب  انھیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے مصافحہ کے لیے دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں۔ والد صاحب ان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور رامے صاحب اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے والد صاحب کو کرسی سے اٹھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ والدصاحب ذرا سا اٹھتے ہیں تو رامے صاحب ان سے بغل گیر ہوجاتے ہیں اور فوٹو گرافر سے کہتے ہیں:

“جلدی سے فوٹو اتار لو بھئی، بڑی مشکل سے قابو آئے ہیں یزدانی صاحب۔ یہاں چھپے بیٹھے ہیں۔”

والد صاحب بھی مسکرا دیتے ہیں اور خیریت دریافت کرتے ہیں۔ فوٹوگرافر تصویر اتار لیتا ہے۔

“یزدانی صاحب، ہمارے پرانے دوست ہیں۔ مکتبہءِ جدید کے زمانے کے۔میں ان کی تخلیقات کا مداح ہوں۔” وہ دفتر کے عملہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہتے ہیں جو اس تعلقِ خاطر سے آگاہ نہیں اور اگر رامے صاحب خود نہ بتاتے تو شاید کبھی بھی آگاہ نہ ہوتے۔

 رامے صاحب مدیران کے ساتھ چیف ایڈیٹر کے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔”لاؤبھئی، ہمیں بھی دکھاؤ! کیا لائے ہو آج شاہ جی کے لیے۔ہم بھی تو چکھیں۔”حسین ثاقب صاحب میزکے کنارے پڑے کھانے کے ڈبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

“ہمیں بھی گھر کا کھانا منع تو نہیں۔” بیدار سرمدی بھی مسکرا کر کہتے ہیں۔

والدصاحب سب کے ساتھ مل کر کھانا کھارہے ہیں۔میں اورراشد ایک میز پر پڑا اخبارات کا پلندہ اُلٹ پلٹ رہے ہیں۔

٭٭٭

گورنمنٹ کالج کے پروفیسرز روم نمبر ۱۵ میں میری اردو اعلیٰ کی کلاس ہورہی ہے۔ ماہرِ اقبالیات مرزا محمد منور صاحب مجھے بتاتے ہیں کہ گذشتہ روز ان کی ملاقات یزدانی صاحب سے ہوئی تھی۔ رازکاشمیری صاحب بھی ساتھ تھے۔

“جی، سر۔”۔میں ادب سے کہتا ہوں۔ اس پر وہ کہتے ہیں:“کل مجھے احساس ہوا کہ یزدانی صاحب کی سوچ ہم سب سے مختلف ہے۔ وہ افغانستان میں مجاہدین کی براہِ راست مدد کی پاکستانی فوج کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔ہم اسے امت مسلمہ کی بقا کے لیے ازحد ضروری سمجھتے ہیں۔تو مختلف سوچ ہے ان کی۔”

“جی، سر۔” میں پھر ادب سے اتنا ہی کہتا ہوں اور پروفیسر صاحب میرے ساتھ بیٹھے سٹوڈنٹ سےمخاطب ہوجاتے ہیں،“یہ تمہاری شرٹ کا اُوپر کا بٹن کیوں کُھلا  ہے؟ یہ خلافِ ادب ہے۔ بند کرو اسے۔”

اور میری انگلیاں غیرارادی طور پر میری شرٹ کے اوپر والے بٹن ٹٹولنے لگتی ہیں۔

٭٭٭

گورنمنٹ کالج لاہور میں کُل کالج انعامی مشاعرہ منعقد ہے۔جس میں ایف اے سے ایم اے تک کے سبھی شاعر طلبہ و طالبات مدعو ہیں۔  مصرعِ طرح غالب سے مستعار لیا گیا ہے:

جو تِری بزم سے نکلا سوپریشاں نکلا

میں نے بھی والدصاحب سے اصلاح کروائی غزل پیش کی ہے۔ مشاعرہ کے اختتام پر جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان ہوتا ہے۔ مجھے پہلا انعام ملا ہے۔یہ میرے لیے کچھ غیر متوقع ہے کہ میں تو سالِ اوّل کا طالب علم ہوں۔ دوسرا انعام ایم اے سائیکالوجی کی طالبہ فرخندہ نسرین حیات کو جبکہ تیسرا انعام احمدندیم رفیع کو حاصل ہوا ہے۔ فرخندہ حیات اور احمدندیم رفیع مجھے مبارک باد دیتے ہیں۔ میں بھی انھیں مبارک دیتا ہوں۔ یہ کسی مشاعرہ میں میرا پہلا انعام ہے۔اب مجھے بین الکلیاتی مشاعروں میں کالج کی نمائندگی کرنا ہوگی۔ میں خوش بھی ہوں اور نَروَس بھی۔

پروفیسر طاہرتونسوی میرے پاس آتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہوئے کہتے ہیں  ’’ابنِ یزدانی، آؤ، آج تم ایک چائے کے حق دار ہوگئے ہو۔‘‘۔ وہ مجھے اپنے ساتھ پروفیسرز روم نمبر ۷ میں لے جاتے ہیں جہاں بابو خان ہمارے لیے چائے بناتا ہے۔ مجھے جی ہی جی میں خود پر کچھ فخر سامحسوس ہونے لگتا ہے۔

 

میں اور میرا ہم جماعت آغا نوید جو پیپلز پارٹی سے خاندانی وابستگی کی نسبت سے بائیں بازو کی طلبہ سیاست میں بہت فعال ہےوالد صاحب سے ملنےرائل پارک میں واقع رسالہ ’محفل‘ کے دفتر پہنچتے ہیں۔ میں ایک بین الکلیاتی انعامی مشاعرہ کے لیے کہی اپنی نظم دکھاتا ہوں۔وہ پنسل سے ترمیم واضافہ کرتے جاتے ہیں اور پھر نظم واپس مجھے لوٹا دیتے ہیں یہ کہتے ہوئے:”میرے خیال میں یہ مصرعے اس صورت میں زیادہ بہتر رہیں گے۔ ویسے آپ خود دیکھ لیں۔”

میں انھیں بتاتا ہوں کہ آغا نوید کو مشاعرہ میں جو غزل پیش کرنا ہے ایک نظر وہ بھی دیکھ لیں۔ وہ بخوشی اس کی بھی اصلاح کردیتے ہیں اور آغا نوید کی شاعری پر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہم دونوں خوشی خوشی ان کے دفتر سے باہر نکلتے ہیں۔ کل ہمیں ملتان ، مظفر نگراور جوہرآباد کے کالجز میں منعقدہ مشاعروں کے لیے روانہ ہونا ہے۔

٭٭٭

گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان کے مشاعرے میں ہماری ٹیم یعنی آغانوید کو اور مجھے انفرادی اول انعامات کے ساتھ ساتھ مشاعرہ کی ٹرافی بھی ملی ہے۔

مشاعرہ کے بعد پروفیسر عاصی کرنالی صاحب نے یہ جان کر کہ میں یزدانی صاحب کا بیٹا ہوں اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی ہے مگر میں عرض کرتا ہوں کہ ہمیں اب جوہرآباد کے لیے نکلنا ہوگا ورنہ مشاعرہ میں شرکت سے رہ جائیں گے۔ ان کے ساتھ مشاعرہ گاہ کے باہر ون ٹین کے کیمرے سے کچھ تصویریں بناتے ہیں اور بس اڈے کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔

٭٭٭

گورنمنٹ کالج جوہرآباد میں بین الکلیاتی مشاعرہ میں آغا نوید اور میں اپنی تخلیقات پیش کرچکے ہیں۔ ایک پروفیسر صاحب میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے جج صاحبان نے یاد کیا ہے۔ میں پہلی قطار میں بیٹھے تین ججز یعنی تین پروفیسروں کے حضور پیش ہوتا ہوں۔ ان میں سے ایک پروفیسر صاحب میری نظم مجھے دکھاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ یہ نظم کس کی ہے؟ میں جواباً کہتاہوں کہ میری ہے۔ دوسرے جج پروفیسر فرماتے ہیں کہ وہ میرے جواب سے مطمئن نہیں۔

تیسرے منصف  کچھ سوچتے ہوئے کہتے ہیں:

’’میرے خیال میں یہ نظم یاتو احسان دانش کی ہوسکتی ہے یا پھر عبدالعزیز خالد کی۔‘‘ میں اندر ہی اندر جھلَا گیا ہوں

“یہ نظم اُن کی کیسے ہوسکتی ہے۔ ویسے بھی ان دونوں شعراء کا شعری مزاج تو بہت مختلف ہے۔”

میں ادب سے کہتا ہوں۔

تو آپ نے پڑھا ہے انہیں؟‘‘ پہلے والے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔

“جی بالکل ! نہ صرف پڑھا ہے، انھیں سنا بھی ہے اور مل بھی چکا ہوں۔ وہ دونوں میرے والد صاحب کےدوست ہیں۔”

“اوہ،اچھا!اچھا۔۔۔توآپ کے والد صاحب بھی شاعر ہیں؟ کیا نام ہے ان کا؟‘‘ اب تیسرے جج صاحب شریکِ گفتگو ہوتے ہیں۔

“ان کا نام یزدانی جالندھری ہے۔ اور اس نظم کی اصلاح انھوں نے ہی کی تھی۔ “میں  کہتا ہوں۔

مجھے واپس جاکر انتظار کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور پھر کچھ دیر بعد ہم دونوں کو اول انعام اور ٹرافی دے دی جاتی ہے۔

 واپسی پر بسوں کے اڈے کی طرف جاتے ہوئے آغا پوچھتا ہے کہ “آخر ہوا کیا تھا؟” میں ساری بات بتاتا ہوں۔ وہ مسکرا کرمیری طرف دیکھتا ہے اور آنکھ مارتے ہوئے کہتا ہے:

“لگتا ہے یزدانی صاحب نے اپنے بیٹے کی نظم کی اصلاح کچھ زیادہ ہی زوردار کردی تھی۔”

وہ قہقہہ لگاتا ہے۔ میں بس مسکرا دیتا ہوں۔

سامنے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی سفید دھاری والی سُرخ بس لاہور جانے کو تیار کھڑی ہے۔

٭٭٭

“یزدانیؔ صاحب، ایک مشکل آن پڑی ہے،آپ سے مدد چاہیے مجھے۔”ریڈیو کے سینئر پروڈیوسر ارشاد حسین مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے والد صاحب کے قریب آکر سرگوشی کررہے ہیں۔

“فرمائیے !”والد صاحب ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔

آج مشاعرہ میں سینئر شعراء اتنے زیادہ ہیں ، ماشااللہ،کہ مجھے ان کی ترتیب لگانے میں دقت ہو رہی ہے ۔ تقدیم و تاخیر کا معاملہ یہ سب بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ میں ان میں سے کسی کی ناراضی کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔آپ میری صورتِ حال سمجھ رہے ہیں نا !‘‘ ارشاد بھائی جلدی جلدی مدعا بیان کرتے ہیں کیونکہ کچھ ہی دیر میں ریکارڈنگ شروع کرنا ہے۔

“لائیے، میں کوشش کر دیکھتا ہوں۔”یہ کہہ کر والد صاحب ناموں کی فہرست اور قلم ان سے لے لیتے  ہیں۔برآمدے کی دیوار سے ورقِ فہرست لگاتے ہیں اور سب سے پہلے اپنا نام ابتداء میں لے آتے ہیں۔ پھر ایک ایک کر کے عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد،نجیب احمد، خالد احمد، جعفر بلوچ،حفیظ تائب،شہزاد احمد،کلیم عثمانی،شہرت بخاری، انجم رومانی،منیر نیازی ،ظہیر کاشمیری اور احمد ندیم قاسمی کے نام لکھ دیتے ہیں اور فہرست ارشاد بھائی کے حوالہ کردیتے ہیں۔

 ارشاد بھائی ایک نظر فہرست کی نئی ترتیب پر ڈالتے  ہیں اور ایک متشکرانہ نگاہ والد صاحب پر اور بے اختیار مسکرادیتے ہیں ۔لہکتے لہکتے سٹوڈیو کی طرف بڑھتے ہوئے کہتے ہیں:’’ بہت شکریہ۔ بہت عمدہ، بس ایک ہی نام کا مسئلہ اب اس فہرست میں رہ گیا ہے وہ میں حل کرلوں گا،۔ ۔۔یعنی آپ کو  ابتدا میں نہیں پڑھاسکوں گا اور اس اختلافی جسارت کے لیے پیشگی معذرت۔۔۔آئیے ریکارڈنگ کو چلتے ہیں!‘‘

 سٹوڈیو کا بھاری بھرکم دروازہ کھلتا جاتا ہے۔

٭٭٭

اِس سے کیا بڑھ کے ہو پیرایۂ اظہار کوئی
کیوں نہ ہر صفحہ پہ میں سورۂ کوثر لکھوں

شملہ پہاڑی کے قریب واقع ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹوڈیو میں منعقدہ محفل ِ مشاعرہ میں والد صاحب اپنی تازہ نعت سنا رہے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی،انجم رومانی،حفیظ تائب،عارف عبدالمتین،کلیم عثمانی، طفیل ہوشیارپوری،مظفر وارثی اور خالد احمد ان کے اِس شعر پر دل کھول کر داد دے رہے ہیں۔۔۔’’سبحان اللہ،سبحان اللہ،مکرر، مکرر‘‘کی صداؤں میں والد صاحب نظریں جھکائے پھر سے یہ شعر پڑھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں:

اُن کا انکار کرے جو اُسے بوجہل کہوں

اُن کے دشمن کو میں خاسر کہوں، ابتر لکھوں

٭٭٭

(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply