میں تو چلی چین(قسط1) -سلمیٰ اعوان

وہ مشہور زمانہ کہاوت تو آپ نے ضرور سُنی ہوگی۔ارے بھئی وہی نا۔ایک دیہاتی خوبصورت چادر اوڑھ کر میلہ دیکھنے گیا اور وہاں اس کی چادر کِسی نے چھین لی۔ واپسی پر ہمسائے نے پوچھا۔
‘‘ ہاں تو بھئی سُناؤ میلہ کیسا تھا؟
‘‘لو میلہ کب تھا وہ ؟ نرا میری چادر لوٹنے کا بہانہ تھا ۔’’
کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ بھی تھا۔ اگست کے ایک حبس بھرے دن میری اکلوتی بیٹی سعدیہ فون پر تھی ۔لہجے میں اس موسم کی کھٹی کھٹی تلخی گھلی ہوئی تھی۔

‘‘اماں عمران کی پروموشن کے ساتھ اس کی تقرری ٹیک اتاشی کے طور پر پاکستانی سفارت خانے بیجنگ میں ہوگئی ہے۔فیملی کا ساتھ جانا ضروری ہوگا۔اُف بچوں کی سٹڈیز بڑے مشکل مرحلوں میں ہے۔ وہ تو بیچارے ڈسٹرب ہوجائیں گے۔کیسے وقت یہ پوسٹنگ آئی ہے؟’’
میں جیسے ہونٹوں پر تالہ لگائے اُسے سُنتی تھی۔کہنا چاہتی تھی۔
‘‘ اے او میری بھولی بھالی نورچشم اب میں منہ پھاڑ کر یہ نہیں کہہ سکتی ہوں کہ یہ اوپروالے نے تیری آوارہ گرد ماں کے سیر سپاٹے اور اُسے ایک نیا جہان دکھانے کا شاہی بندوبست کیا ہے۔ تیری ماں ہمیشہ ہی تو اُسے شکوؤں کی سان پر چڑھائے رکھتی تھی۔اجنبی سرزمینوں پر خجل خواری کے طعنوں سے بھی اُسے بڑا چھلنی کرتی تھی۔اُسے بھی ترس آگیا رحمت نے جوش میں آکر کہا ہوگا کہ بی بی چل تُو بھی عیش کرلے۔ ’’

سالوں پہلے دیوار چین پر جب بل کلنٹن اور اس کی بیٹی چیلسی کو بھاگتے دوڑتے دیکھا تو جیسے کلیجے پر چھریاں سی چلنے لگی تھیں۔اب کوئی اللہ کا بندہ پوچھے کہ آخر اِن چھریوں کے چلنے کی کوئی وجہ، کوئی سبب تو ہوگا ۔اور وہ کیا ہے؟بتانا ذرا مشکل ہے۔مگر آپ سے کیا پردہ؟ بس جان لیجیے کہ بڑی ہی لالچی اور حاسدی سی ہوں۔دنیا کے وہ عجائبات جن کی دید اور جن پر قدم دھرنے سے میں ابھی تک محروم ہوں۔اُن پر لوگوں کے چلنے پھرنے کے مناظر بس اندر جلتی سیر سپاٹے کی آگ کو بھانبڑ مچانے میں بدل دیتے ہیں۔بھٹی میں بھنتے دانوں کی طرح تڑخنے اور اُچھلنے کودنے لگتی ہوں۔
ناشکری سے بھرا جملہ ہونٹوں پر مچلنے لگتا ہے۔آخر اِن کی جگہ میں کیوں نہیں ہوں؟

حسرت اور جلنا کڑھنا کبھی کبھی اِس بات پر بھی ہوتا تھا کہ دیکھو تو ذرا لوگوں کے بیٹے بیٹیاں باہر کے ملکوں میں سیٹ ہیں۔والدین کو بُلاتے ہیں۔مہینوں اُنہیں اپنے پاس رکھتے اور خوب خوب سیر سپاٹے کرواتے ہیں۔
جب جب داماد کے کسی یار دوست کی امریکہ یا چین میں تقرری کا سُنتی تو بیٹی سے پوچھنا ضروری سمجھتی۔
‘‘اے ہے تمہارا میاں اتنا لائق فائق اور ذمہ دار افسر سمجھا جاتا ہے۔ اسے کہیں نہیں بھیجتے؟’’

‘‘ارے توبہ کریں امی۔لاہور جیسے سکول سوائے کراچی کے کہیں نہیں۔کوئٹہ اسی لیے نہیں گئی تھی کہ بچے ڈسٹرب ہوجائیں گے۔اور جانتی ہیں؟وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔پورے بیس Base کو ہم میاں بیوی کے رشتے کی دال میں کچھ کالا کالا بڑا واضح محسوس ہونے لگا تھا۔ ایک دفعہ تو بیس کمانڈر تک نے مشکوک سے انداز میں پوچھ بھی لیا ۔

ارے یار مانی یہ تیرا کنوار کوٹھا مجھے بڑا کِھلتا ہے۔تیرے عذر لنگ والے بہانے کہ والدین کو کوئٹہ کا موسم موافق نہیں۔ اور بچے لاہور کے سکولوں میں سیٹ ہیں کچھ جی کو نہیں لگتا۔ سچ سچ بتا بیچ کا مسئلہ کیا ہے؟اگر کچھ گڑ بڑ ہوگئی ہے۔بات کچھ الجھی گئی ہے تو یار مل جل کر سلجھالیتے ہیں۔’’
عمران تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے تھے۔

اب چین تقرری کا سُن کر میرا دل تو مانو جیسے بلیوں اُچھل رہا تھا۔پر اُسے ہراساں دیکھ کر ہونٹوں پر تالے لگا لیے، یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں کہے نا۔
لو دیکھو میری ماں کو میری نہیں اپنے سیر سپاٹوں کی پڑی ہوئی ہے۔

اب دن رات دیکھ رہی تھی کہ ہپوہان ہوئے پھر رہی ہے۔ کہیں بیجنگ کے اسکولوں بارے معلومات،کہیں اُن کے معیار بارے جانچ پڑتال ،کچھ اُداسی، کچھ تفکّر ۔تھوڑا بہت ساس سسرکی تنہائی کا بھی خیال کہ دونوں اِس بہو کے ساتھ زیادہ قربت محسوس کرتے تھے۔

چلیے سب مرحلے طے ہوئے اور ایک دن ماشاء اللہ وہ عازم چین ہوئے۔
پر ہوا یہ کہ جانے سے قبل وہ اپنی ملازمہ میری محبت میں یہ کہتے ہوئے کہ اِسے آپ اپنے ذاتی کاموں کے لیے رکھیے۔بدن اور سر کی مالش باقاعدگی سے کروایا کریں۔اچھی لڑکی ہے۔

میں اُسے کہنا چاہتی تھی کہ ساری زندگی جوتیاں چٹخانے والی عورت کو اِن عیاشیوں کی ذرا عادت نہیں اور نہ ہی وہ ان کی عادی ہونا چاہتی ہے۔وہ اپنے سب چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی خواہش مند رہتی ہے تاکہ اس کے گٹے گوڈے ہاتھ پاؤں موبائل رہیں۔
پر کرتی کیا؟وہ اسے میرے سر منڈھنا چاہتی تھی کہ لڑکی نہ اپنے گاؤں اور نہ ہی کسی اور کے گھر کام کرنے کے لیے راضی تھی ۔دراصل تو وہ ساتھ جانے کے لیے مری جارہی تھی۔

‘‘ہائے جی مجھے تو اپنے اٹیچی کیس میں بندکرکے ساتھ لے جائیں۔ہائے جی کاش میں جہاز کے پروں سے لٹک جاؤں۔

اب اٹھارہ سالہ لڑکی کے منہ سے ایسی خواہشوں کا سُن کر مجھ جیسی ماں بیچاری کیا کہتی کہ یہ دنیا اِس ناہنجار وحشی انسان کی طاقت اور اُس کی توسیع پسندی کی ازلی بھوک کے سامنے کتنی لاچار اور بے بس ہوگئی ہے۔ دھرتی اور اس کے باسی کہیں چھوٹے ،کہیں بڑے ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ ان کے داخلی دروازوں پر اجازت ناموں کے بڑے بڑے قفل چڑ ھ گئے ہیں جنہیں ویزے  کی چابیوں کے بغیر کھولا ہی نہیں جاسکتا۔

میرے گھر کی نوکرانیاں بڑی من موجی قسم کی ہیں۔چھوٹی بہو کے ساتھ بیٹھ کر ٹھسے سے ناشتہ کرتی ہیں۔یہ نئی لڑکی ماشاء اللہ سے اُن سے بھی چار ہاتھ آگے نکلی۔سارا دن کمروں میں گنگناتی پھرتی۔بچوں کے ساتھ درختوں پر چڑھتی ،کرکٹ کھیلتی اور سارے لونڈوں والے لفنگے کام کرتی۔

‘‘لویہ میری خدمت کے لیے چھوڑ کر گئی ہے۔ ڈرتی ہوں کمبخت ماری کہیں ہڈی وڈی ہی نہ تڑوالے۔’’
اب فون کیا کہ لڑکی کو کچھ دبکا شبکا لگاؤ۔اورپوچھا بھی ۔
‘‘ان ملٹری اتاشیوں کو ایک خادم ساتھ لے جانے کی اجازت تو ہوتی ہے۔تم لوگوں کا کیا مسئلہ ہے؟’’

سُننے کو ملا کہ آرمی والوں کو یہ سہولت میسر ہے مگر ائیر فورس کو نہیں۔
دھیمے سے سیٹ ہونے کا بھی پوچھا کہ پھر اگلی بات اپنی کروں گی۔

لو جی وہاں تو ایک دل گداز سی داستان تھی کہ جن کی جگہ گئے ہیں وہ ابھی ادھر ہی ہیں۔ ہینڈنگ، ٹیکنگ دن لے رہی ہے۔گھر گو بڑا اور کھلا ہے مگر فی الحال تو ڈھائی کمرے ان کے پاس ہیں اور کچھ اتنے ہی ہمارے پاس۔ہفتہ بعد روانگی ہے۔پھر گھر کی ڈینٹنگ پینٹنگ ہوگی۔ابھی تو دعوتیں اڑا رہے ہیں۔ رہا موسم میرے لیے تو خوشگوار ہی ہے البتہ آپ کے لیے قدرے ٹھنڈا ہے۔ ہاں امی لڑکی کو بُلوانے کا سوچ رہے ہیں۔یہاں نوکر ضرور ہیں۔کام بھی ذمہ داری سے کرتے ہیں۔ مگر مہنگے ہیں۔
اب تھی نا ماں کے لیے آزمائش۔
بہرحال لڑکی کی تلی (ہتھیلی)پر پیسے رکھے اور اُسے کہا۔
‘‘ اپنے گھر جاؤ اور پاسپورٹ بنواؤ۔’’
لڑکی نے سُنتے ہی قالین پر قلابازی لگائی۔ سیدھی ہوئی اور بولی۔
‘‘ ماں جی جانے سے پہلے زردے کی دیگ پکوا کر اپنی موئی ماں کے شریکے میں خود بانٹنے جاؤں گی ۔مرن جوگے میرا ٹھٹھا (مذاق) اڑاتے تھے کہ لو یہ باندری چین جائے گی۔’’
کِھل کِھل کرتے ہوئے اُسے پھر ہنسی کا دورہ پڑا۔جب ذرا نارمل ہوئی تو رازدرانہ انداز میں بولی۔
‘‘ماں جی دراصل باجی تو گئی ہی اس لیے ہیں کہ میں نے وہاں جانا تھا۔’’

اب مجھے ہنسی آئی۔واہ کیا حسین سا حُسن اتفاق ہے۔ ماں سمجھتی ہے بیٹی اس کے لیے جارہی ہے اور ملازمہ کو یقین ہے کہ اس کی مالکن اس کے لیے چین بھیجی جارہی ہے۔رہی بیٹی تو اس کے نصیب میں بھی کچھ لکھا گیا ہے اس پر دونوں کا دھیان نہیں۔

لمبے چوڑے جھمیلے تھے جنہیں اپنے حسابوں حل کرکے اسلام آباد روانہ ہوئی۔کمبختوں نے لاہور میں کِسی جیری ،فیڈکس یا ٹی سی ایس کی بھی خدمات نہیں لی ہوئی ہیں۔چند مہینے پہلے سارا کام مینوئل تھا ۔اب آن لائن کردیا مگر حاضری سفارت خانے میں لازمی ٹھہری۔

سفارت خانے کے ویزہ  سیکشن والے بیرونی حصّے میں بظاہر ماٹھے سے لوگوں کی لمبی قطاریں تھیں۔ اُن کے اندر خانے کے احوال ہوسکتا ہے  کروڑ پتیوں کے حسابوں میں جاتے ہوں۔ مگر ظاہراً حال حُلیے کُلّی طور پر ‘‘بیچاروں’’ کی صف والے تھے۔سکیورٹی پر متعین پاکستانی گارڈ ہی فرعون بنے ہوئے تھے۔ اُن کے دبکے شبکے عام لوگوں کو ہراساں کیے دیتے تھے۔ تاہم میں نے تو دو مونڈھے مارے اور ذرا رعب دار انداز میں کہا۔
‘‘جانے دو گیارہ بجے کا ٹائم ہے۔’’

اسی گُر کے ساتھ دونوں اندر پہنچ گئی تھیں۔سفارت خانہ ضرور چینی تھا مگر صفائی ستھرائی سے لے کر بہت سے دیگر معاملات میں پاکستانی کلچر کا نمائندہ تھا۔ اندر کا کراؤڈ بھی باہر جیسا ہی تھا۔ بس تین بچیاں حجاب میں لپٹی ملیں۔ بات چیت سے معلوم ہوا کہ دو وہاں پڑھ رہی ہیں اور تیسری جاب کے لیے جارہی ہے۔ نمبر کی پکار پر جب کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوئیں تو کمبخت مارے نے لڑکی کی تو صورت دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ تو نہیں جاسکتی۔
فوراً جی چاہا کہوں میاں ایسی بھی کیا اتابی شتابی۔شکل ضرور مسکین سی ہے پر اندر ذرا مسکین نہیں ۔اور ہاں ذرا ساتھ لگے ایمبیسی کے کاغذات بھی دیکھ لو۔

تیزی سے الٹے پلٹے ہاتھ چلے۔ پھر انہیں ایک طرف رکھا اوربڑی بی کے پلندے جانب توجہ کی۔چلو شکر یہاں تھوڑی سی نرمی برتی گئی۔ایمبیسی کا خط ساتھ ہونے کی وجہ سے کیس سفیر کو بھجوا دیا گیا۔ چلو اب بیٹھو اور انتظار میں سوکھو۔

کوئی دو گھنٹے بعد کھڑکی کے پاس آنے کا اذن ملا۔نسرین کا پولیس سرٹیفیکٹ ضروری اور بڈھی کو استشنائی ملی۔ اب وجہ کیا تھی؟عمر یا دیگر ملکوں کے ٹھپوں کی تعداد ۔واللّٰہ اَعْلَمُ بِالصّواب۔

تقریباً نو ہزار تین سو سنتالیس میں پڑنے والے اِس ناکام چکر نے دل بڑا پریشان کیا۔نسرین کی بوتھی مکمل طور پر لٹکی ہوئی تھی۔اس کا خیال تھا کہ اس کی ماں کا شریکہ اپنے ٹونے ٹوٹکوں سے اس کی راہیں کھوٹی کررہا ہے۔ساری عمر اِن بے سروپا باتوں پر یقین نہ کرنے والی اِس عورت کو اُس نوجوان لڑکی کو سمجھانا بڑا مشکل ہورہا تھا۔ اُس کی بات میں بھی وزن تھا کہ تھانے کچہری میں اُس کے غریبڑے باپ اور بھائی کی کِس نے سُننی ہے۔

واقعی اس بات پر شاید غور نہیں کیا تھا۔اب جو سوچا تو چھوٹی سی لڑکی کے ذہن میں بہت ہی سچی بات کھلبلی مچارہی تھی۔اپنا ایک سسرالی عزیز یاد آیاجس کی ساری زندگی قبولے اور وہاڑی کے تھانوں میں تھاینداری کرتے گزری تھی۔اُسے فون کھڑکایا۔وہ کام جو پہاڑ جیسا نظرآتا تھا وہ صرف دو دنوں میں بہت سہولت سے ہوگیا ۔

لڑکی کھلکھلا تی ہوئی باپ کے ساتھ آگئی۔ابھی ایک اور بڑا سیاپا سر پر کھڑا تھا اور وہ ویزا پروٹیکٹر آفس لاہور میں لڑکی کی بمعہ اس کے باپ کے حاضری تھی۔جہاں حلفیہ بیان ہونا تھا کہ وہ لڑکی کو اپنی مرضی سے بھیج رہا ہے۔

سچی بات ہے نسرین اگر منہ پھٹ اور ہتھ چھٹ قسم کی نہ ہوتی تو بیچاری کے چین جانے کی کہانی نے اوندھے منہ زمین پر آگرنا تھا۔وہاں تو نالائق اہلکاروں نے لڑکی کی تنخواہ کا معاملہ پچاس ہزار تک اٹھا دیا تھا۔لڑکی خود میدان میں کُودی اور بولی ۔
‘‘نوکر کا تو میرے اوپر یونہی ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ وگرنہ تو میں ایک طرح اُن کی لڑکی ہی ہوں۔میری شادی وادی سب اُس میاں بیوی نے ہی کرنی ہے۔میرے باپ کا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں۔اپنا اچھا بھلا میں خود سمجھتی ہوں۔پانچ سال سے تیرے میرے گھروں میں کام کررہی ہوں اور لوگوں کو پڑھنا سیکھ گئی ہوں۔صاحب مہربانی کریں اور ٹھپہ لگائیں۔’’
صاحب بھی کسی بھلی ماں کا تخم تھا۔ فوراً تعمیل ارشاد ہوگئی تھی۔

زردے کی دیگ پکانے کی نسرین کی آرزو کو بہرحال میں نے اڈہ لگنے نہیں دیا۔ایسا اس کی ہمدردی میں ہرگز ہرگز نہیں تھا بس اپنی ہمدردی مطلوب تھی کہ آخر تو یہ ہرجانے کی کڑوی گولی مجھے ہی نگلنی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو خدا کا شکر کہ یہ چھوٹے بڑے پل صراط طے ہوئے اور ہم دالوں ،مصالحوں، چاول کے بوروں سے لدے پھندے ائیرپورٹ پہنچ گئے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply