اتنی مداراتوں کے بعد(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

16 دسمبر 1971 کو ملک دو لخت ہوا اور میں یعنی شہباز علی ولد نثار علی اسی سیاہ رات تولد ہوا۔ کیسا محروم بچہ جس کی پہلی چیخ کے ساتھ اس کی ماں اور دادی کی آہ و بکا بھی شامل تھی۔

اب میری عمر پچاس سال ہے۔ دادی بیس سال پیشتر ہمارا ساتھ چھوڑ گئی،مگر اس نے دادا اور ابا کو میری آنکھوں میں مجسم کر دیا تھا۔ میں ابا کو محسوس کرتا ہوں گو کہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ ہاں فوج کی طرف سے آیا وہ خط جس میں ابا کی شہادت کی اطلاع تھی اسے اماں نے ہمیشہ تعویذ جاں رکھا اور اب وہ بہت حفاظت سے میرے پاس موجود ہے۔ اماں کی شدید خواہش تھی کہ وہ تو نہیں جا سکتی مگر میں ایک دفعہ ابا سے ضرور مل آؤں۔ سو آج یہی حسرتوں کا سفر درپیش ہے۔ پچاس سال بعد سپاہی نثار علی کی قبر پر اس کا کوئی اپنا آئے گا۔
کیا ابا مجھے پہچان لے گا؟

مجھے اماں نے ابا کے پندرہ کے پندرہ خط پڑھوائے تھے۔ وہ خطوط کب تھے، وہ تو آتش عشق سے سوختہ کسی عاشق کی کتھا تھے۔ شروع کے خطوط محبت سے لبریز تھے۔ اس خط جس میں اماں نے ابا کو باپ بننے کی خوشخبری دی تھی اس کے جواب میں ابا نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا تھا اور اماں سے کہا تھا کہ اگر لڑکا ہو تو نام شہباز علی اور لڑکی ہو تو نام مریم علی رکھنا۔ پھر ان خطوط کا رنگ بدلتا گیا اور ان خطوط میں محبت کا رنگ مدھم اور وطن کی بقا کی فکر زیادہ جھلکنے لگی۔ آنے والی کالی آندھی کو ابا کے دل نے محسوس کر لیا تھا اور اب ان کے خطوط میں مستقبل کی پلاننگ کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔
بےشک شہادت بہت بڑا رتبہ ہے مگر شہیدوں کی بیوائیں اور بچے بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہی ہیں جو مچلتے جذبات بھی رکھتے ہیں۔ ساری زندگی وہ ایک ٹینے کی پیٹی اور ایک تعریفی خط یا اعزاز و اسناد کے ساتھ نہیں گزار سکتے کہ بیوہ پر موسم بھی شدت سے حملہ آور ہوتا ہے اور بچے کو بھی زندگی کے اسرار سمجھنے کے لیے باپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عید گاہ جاتے ہوئے وہ بچہ بھی بچھڑے باپ کی انگلی پکڑنے کے لیے بلکتا ہے اور نماز کے بعد باپ سے گلے ملنے کو ترستا ہے۔ میرا سارا بچپن اکلاپے کی  نذر  ہو گیا تھا۔ مجھے دو ماؤں نے مل کر پالا جن کو میں نے ہنستے بہت کم اور روتے بہت زیادہ دیکھا تھا۔

اماں کو میرے بچے دیکھنے کا بہت شوق تھا سو اس نے جلد ہی میری شادی کرا دی، دادی اپنا پہلا پڑ پوتا دیکھ کر خلد آشیاں ہوئیں۔ میں پنڈی میں راجا بازار کے قریب رہتا ہوں اور راجا بازار میں آڑھتی ہوں۔ اماں بڑا تڑپتی تھی کہ کسی طرح ایک بار جاکر ابا کو دیکھ آئے۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ جس زندہ انسان کا خاکہ میرے ذہن نے بنا لیا ہے اس کی قبر دیکھ کر اس کو مردہ مان لوں کہ میں نے اپنی خیالی دنیا میں ابا کو زندہ رکھا ہوا تھا۔

اماں اب ستر کے پیٹے میں ہے اور وہ منہ سے تو کچھ نہیں کہتی مگر اس کی آنکھیں ہر پل سوالی رہتیں ہیں سو میں ان کا جواب لینے کے لیے اسلام آباد سے دوبئی اور دوبئی سے ڈھاکہ پہنچا ہوں۔ ڈھاکہ جیسا کہ ابا نے خط میں لکھا تھا ویسا ہی سرسبز ہے پر جانے کیوں مجھے سبزے پر لالی غالب لگی۔ میں آج دوپہر بنانی آرمی قبرستان گیا۔

وہ ایک اجاڑ ویرانہ ہے۔ یہاں وہ لوگ سپرد خاک تھے جو جانے کتنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھے پر یہ اُجاڑ قبرستان مضطر خیر آبادی کے شعر کی تفسیر تھا
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں، میں وہ بےکسی کا مزار ہوں

میں نے مین گیٹ کے کنارے کھڑے ہو کر اہل قبور کے لیے فاتحہ پڑھی پھر ابا کی قبر ڈھونڈنی شروع کی۔ خلاف توقع مجھے ابا کی قبر جلدی ہی مل گئی اور میں حیران رہ گیا کہ ان کی قبر نسبتاً بہتر حالت میں تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی وہاں آتا رہتا ہے کہ قبر پر باسی پھول تھے اور سرہانے بجھے چراغ میں تیل اور سلگ کر بجھی اگربتیاں۔

اگلا  دن جمعرات تھا اور میں ناشتہ  کرتے ہی قبرستان چلا آیا۔ جب میں ابا کی قبر پر پہنچا تو میں نے وہاں ایک بہت بوڑھی عورت کو دیکھا جو لاٹھی کے سہارے چل رہی تھی اور بالکل جھکی ہوئی تھی جیسے حالت رکوع میں ہو۔ میرے قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور میرا خیر مقدم ایک بے ریا مسکراہٹ سے کیا۔
یہ بنگلہ دیش کی پہلی مسکراہٹ تھی۔
“بہت دیری کیا آنے میں” بوڑھی اماں نے لرزتی آواز میں کہا۔
پتہ نہیں یہ سوال تھا یا اظہار خیال سو میں نے خاموشی میں عافیت جانی۔ میں ابا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے لگا اور وہ بوڑھی اماں پاکستان کے دوسرے شہدا کی قبروں کی صفائی اور پھول بچھانےاور اگربتی سلگانے میں مصروف ہو گئی۔ سچی بات ہے کہ میں اس کی وجہ سے کچھ بے آرام ہو گیا تھا۔ دو گھنٹے کے بعد جب وہ واپس جانے لگی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور وہ کیوں ان قبروں کی دیکھ بھال کر رہی ہے کہ یہ سب تو اس کے دشمن تھے۔
کہنے لگی دشمن کیوں یہ تو میرے اپنے ہیں۔
یہ سب میرے جمال اسلام ہیں۔ میرا بیٹا جمال اسلام جو پاکستان آرمی میں صوبے دار تھا وہ اکہتر کی جنگ میں مغربی پاکستان میں شہید ہوا۔ اس کا مدفن پنڈی میں آرمی کا قبرستان ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ہم بنگالیوں کے لیے مغربی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں تھی لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے ، میری بہو اور دونوں پوتوں کو مغربی پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی۔ بدقسمتی دیکھو ہم لوگ بنگلہ دیش یعنی اپنی ہی جنمو بھومی میں بھی نا قابلِ قبول کہ میرا بیٹا پاکستان آرمی کا شہید تھا۔ ہم یہاں بھی غدار گنے جاتے ہیں اور مغربی پاکستان بھی ہمیں اپنانے کو تیار نہیں تھا کہ ہماری محب وطنی مخدوش تھی۔ یہاں بنگلہ دیش میں ہمیں جمال اسلام شہید کا پاکستان آرمی کی طرف سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا کہ ہم لوگ اب سرے سے پاکستانی ہی نہیں۔ ارے جو بہاری یا غیر بنگالی لوگ بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان گئے وہ کم از کم اپنے جانی اور مالی نقصانات پر کھل کے رو تو سکتے ہیں، مشرقی پاکستان کو ڈنکے کی چوٹ پر یاد تو کر سکتے ہیں۔ ہم حرماں نصیب تو کھل کر اپنے شہید بیٹے کو یاد بھی نہیں کرسکتے۔ ہم بد نصیب تو کراچی،ملتان اور واہ کا نام بھی نہیں لے سکتے ،آہ بھی نہیں بھر سکتے۔
بولو ہم کس سے منصفی چاہیں اور کس کے دروازے پر اپنا رونا روئیں ۔۔

میری بہو اور دونوں پوتے امریکہ چلے گئے ہیں اور اب امریکہ ہی ان لوگوں کا ملک اور شناخت ہے۔ یہاں میرے پوتوں کو نوکری نہیں ملتی تھی کیونکہ ان کا باپ پاکستان آرمی میں تھا۔ بہو اور پوتوں کے امریکہ جانے کے بعد ہم نے بیریسال میں اپنا  پشتینی  مکان بیچ دیا اور ادھر ڈھاکہ آ گئے۔ ہم ہر جمعرات کو اس قبرستان میں آتے ہیں اور مقدور بھر صفائی ستھرائی کر دیتے ہیں۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد کچھ دیر ان لوگوں سے باتیں کر لیتے ہیں کہ ان کا دل بھی لگا رہے اور میرے سینے کا بوجھ بھی ناسور نہ بنے۔ بتاؤ کیا یہ ظلم نہیں کہ ان کو یہاں ان کے پیاروں سے دور دفنا دیا گیا؟

سب کے کتبے پڑھو، کوئی پنڈی سے تو کوئی مظفرآباد سے اور کوئی کراچی سے ہے۔ سب اپنوں سے دور اور اپنوں کی چاپ کے لیے ترستے ہوئے۔ میرا جمال اسلام بھی بجائے بیریسال کے پنڈی میں دفن ہے اور میں وہاں جا نہیں سکتی۔

شروع میں تو مغربی پاکستان کے شہدا فضائی راستے سے مغربی پاکستان بھیجے جاتے تھے اور اسی طرح بنگال کی سرزمین کے شہدا مشرقی پاکستان بھیج دئیے جاتے تھے مگر جون کے مہینے سے جب شہدا کی تعداد بڑھنے لگی تو چیف آف جنرل اسٹاف نے فرمایا کہ
“مردہ بےکار ہے خواہ وہ مشرقی پاکستان میں ہو یا مغربی پاکستان میں”

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

اب ماؤں ،بیویوں اور بیٹیوں کی تڑپ چیف آف جنرل اسٹاف کیا جانے؟
یحییٰ خان کو یہ کون بتائے کہ یہ مردہ جسدِ خاکی بھی ماؤں کے لعل، بیواؤں کے سہاگ اور بیٹیوں کی امان اور خوشیاں ہیں۔
ہم یہاں ان بیٹوں کی خبر گیری کرتے ہیں اور اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہاں کوئی دکھیا ماں بہن میرے جمال اسلام کی بھی دیکھ رکھ کرتی ہو ۔
میں سکتے کی سی کیفیت میں اس بلکتی ماں کی فریاد و حسرت سن رہا تھا۔ میں یہ بھی نہ کہہ سکا کہ اماں تمہارا جمال اسلام تو پھر بھی اپنی سرزمین اور اپنوں میں ہے۔ میرے باپ کی بےکسی دیکھو کہ وہ اپنی زمین پر اپنے فرائض نبھاتے ہوئے نثار ہوا مگر اب نہ یہ زمین اس کی ہے اور نہ ہی یہ لوگ اس کے اپنے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک کھینچی گئی لکیر کتنا بڑا فرق ڈال دیتی ہے۔ واقعی لکیریں بھی کمال ہوتیں ہیں۔ زمینوں پر کھنچ جائیں تو سرحدیں وجود میں آ جاتی ہیں اور اگر دلوں میں در آئیں تو فاصلے اور دراڑیں۔ ہمارے لئے ہمارا راشد منہاس شہید اور مطیع الرحمان غدار اور بنگلہ دیشیوں کے لیے مطیع الرحمان ہیرو۔ ہمارے شہید فوجی ہمارے ہیرو اور بنگالیوں کے نظر میں غاصب۔ جو لکیر کے ادھر وہ دوست جو لکیر کے ادھر وہ دشمن یا غدار۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر میں اس بوڑھی اماں سے کچھ بھی نہ کہہ سکا اور برستی آنکھوں سے اماں کے دونوں ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگا لیا۔ اماں بھی شاید آج مدت   ضبط  کرتے کرتے ہار گئی تھی کہ قبرستان میں ہم دونوں کی گھٹی گھٹی آہیں بین کرتی ہوئی ہواؤں کے ساتھ مل کر جیسے ہم دونوں کو ہمارے پیاروں کا پرسہ دے رہی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply