سفرِ بلوچستان/ مُولا، جھل مگسی و بولان(2،آخری حصّہ )–ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری

کُھلے آسمان تلے بیٹھ کر ہم نے دنیا جہان کی باتوں پر تبادلہ خیال کیا۔ سیاحت، بلوچستان کے حالات، سیاست، یہاں کے مسائل، بلوچ نوجوان اور شعور، تعلیم و ترقی، علاقے کی صورتحال سمیت کئی ایک معاملات پر میں نے اپنے بلوچ ساتھیوں کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ یہاں میں یہ بتا دوں کہ یہ سب لوگ پڑھے لکھے، کاروباری اور باشعور لوگ تھے جو اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ملانے کا اتنا ہی شوق رکھتے تھے جتنا کہ ہم۔ ان کے خیالات جان کر بہت خوشی ہوئی اور افسوس بھی کہ کاش ان کے علاقوں کو وہ سہولیات میسر ہوتیں جو  ہمارے  حصے  میں ہیں۔

اتنی دیر میں سلیم بھائی کے ساتھ آئے ایک مقامی بزرگ جنہیں سب نانا کہہ رہے تھے، دریائے مُولا سے مچھلیاں پکڑ کے  آ گئے۔ عمر رسیدہ نانا نے کسی بھی طریقے سے بڑھاپے کو خود پہ سوار نہیں ہونے دیا۔ ہر لحاظ سے چاک و چوبند نانا نے رات کو اس وقت دریا پَار کیا جب اس کی موجیں تیز تر ہو چکی تھیں۔

نانا جی نے علیحدہ سے دو طرف آگ جلائی اور سجی کے لیے بکرے کی ران کو صاف کر کے  سلاخ میں پِرو دیا۔ دو سلاخوں کو کچھ فاصلے سے پتھروں میں اس طرح گاڑھا کہ دونوں طرف سے آگ کا سیک برابر پہنچے۔ یہ سجی چونکہ آگ کی حِدت سے پکتی ہے سو اس کو تیار ہونے میں ایک لمبا وقت درکار تھا۔ تب تک سلیم بھائی مٹن کا سالن بھون رہے تھے اور ہم سب دوست فوٹوگرافی میں مصروف تھے۔

ہنسی مذاق کرتے کب  وقت گزر گیا ،پتہ بھی نہیں چلا۔ نئی جگہوں کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ ان کی خوبصورتی اور پراسراریت میں بندہ ایسا مدہوش ہو جاتا ہے کہ وقت اپنی رفتار سے آگے نکل جاتا ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتا۔ نانا کی اسپیشل سجی تیار تھی جبکہ مچھلیاں بھی تیل میں تڑ تڑ کر رہی تھیں۔ مُولا کی یہ مچھلی بغیر کسی مرچ مصالحے کے نمک لگا کے  فرائی کی گئی تھی۔ کھانے کی سب سے منفرد چیز تھی یہاں کی مقامی روٹی جسے ”کُرنو یا کَاک” کہتے ہیں۔ یہ پتھر کو گرم کر کے  اس پہ پکائی جاتی ہے۔ گوندھے ہوئے آٹے کی موٹی تہہ ایک گرم اور گول پتھر پر لگائی جاتی ہے جسے چاروں طرف سے ڈھکنے کے بعد آگ کے پاس رکھ دیا جاتا ہے۔ پکنے کے بعد اس سخت روٹی کو توڑ کر ٹکڑوں میں دسترخوان کی زینت بنایا جاتا ہے جس کا باہر کا حصّہ سخت اور اندر کا نرم ہوتا ہے اور یہ سب کو نہیں پسند آتی۔ ہمارے دوست آفتاب کے مطابق اسے رات کو تازہ کھانے کے ساتھ، جبکہ صبح چائے کے ساتھ بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ مولا کے شور میں لذیز اور منفرد کھانے سے فارغ ہو کے  ہم نے پتھروں پہ لمبی واک کی اور اس علاقے کو چاند کی روشنی میں دریافت کیا۔ دو گھنٹوں بعد پھر قہوہ نوش کیا اور ایک بجے کے قریب سب سونے کے لیے اپنے اپنے خیمے میں چلے گئے۔

رات کے کسی پہر میری آنکھ کُھل گئی۔ وقت دیکھا تو ڈھائی بج رہے تھے۔ ارے واہ ، یہ وقت ضائع کرنا تو گناہ ہوتا، سو میں اٹھ کہ باہر آ گیا۔ دریا سے پانی پیا اور چاند کی روشنی میں بیٹھ گیا۔ انجان علاقوں میں تھکاوٹ کے باوجود خود کے ساتھ وقت گزارنا بھی ایک عیاشی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ رات کا یہ پہر، جب جسم ڈھیلا اور دماغ تروتازہ ہوتا ہے، انسان کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی قوت کے لیئے سب سے بہترین ہوتا ہے سو ہم نے بھی کل اور پرسوں کے پلان کو ترتیب دیا اور آدھا گھنٹہ مٹرگشت کرنے کے بعد کیمپ میں آ سوئے۔

رات گئے اس چہل قدمی کے بعد تو بڑی زبردست نیند آئی اور صبح ڈرون کی آواز سے آنکھ کھلی جب محمود بھائی ڈرون سے تصاویر و ویڈیوز بنا رہے تھے۔ کیونکہ آج ہمارے پلان میں سیاحت کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیاں بھی تھیں سو جلد از جلد نانا جی کے لائے تازہ دودھ (جو وہ پہاڑ پہ بنے ایک چرواہے کے گھر سے لائے تھے) کی چائے اور بسکٹ سےناشتہ کیا گیا اور کیمپنگ کی جگہ صاف کر کے  سامان سمیٹا۔ سب نے اپنے اپنے حصے کا سامان اٹھا کر دریا کو پار کیا اور اس جگہ کو الوداع کہا۔ بائیکس پر دوبارہ سفر شروع ہوا اور ہم پھر سے چھتل شاہ نورانی پہنچ گئے۔ باقی دوستوں کو تالاب پہ بھیج کر  میں سلیم اور محمود بھائی کے ساتھ اس علاقے کی طرف آ گیا جہاں شدید بارشوں سے تباہی کی داستانیں بکھری ہوئی تھیں۔ راستے میں ایک عظیم استاد درخت تلے کوئی آٹھ نو بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ یہاں مختلف گھروں کا دورہ کیا اور معلومات لیں۔ اپنے دوستوں کی بھیجی گئی امانتیں مستحقین کے حوالے کیں اور  پھر ہم بھی واپس تالاب پر آ گئے۔

اس کی خوبصورتی کے ڈسے ہوئے سیاحوں نے یہاں ایک بار پھر ڈبکی لگائی اور کپڑے بدلنے کے بعد کوٹرو کی راہ لی۔

کوٹرو یا کوٹرہ، گنداواہ کے جنوب مغرب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں کی ہر دیوار پہ غربت اور کسمپرسی کی علیحدہ داستان لکھی ہوئی ہے۔ یہ بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں کے بوائز سکول کی دیوار گر چکی ہے جبکہ بہت سے گھر بھی بری حالت میں ہیں۔ یہاں ایک کمرے پر مشتمل بوسیدہ سے کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ہم نے اپنا میڈیکل کیمپ لگایا۔ کمرے میں ادویات ترتیب سے رکھ کر باری باری اہلِ علاقہ کو اندر بلایا گیا۔ علاقے میں پہلے ہی کیمپ کا بتا دیا گیا تھا سو یہ تمام لوگ پہلے سے یہاں موجود تھے۔ چونکہ یہ بلوچی بولنے والوں کا علاقہ ہے سو مابدولت کو ایک ترجمان بھی دے دیا گیا جس کی ضرورت ویسے کم ہی پڑی کہ مجھے ان کی بہت سی باتیں سمجھ آنے لگی تھیں۔ ایک ڈاکٹر کو مختلف ثقافتوں سے لازمی روشناس ہونا چاہیے اور پھر مریض کے درد کی زبان تو ہر ڈاکٹر ہی سمجھ لیتا ہے۔

خیر، آہستہ آہستہ مریض آنا شروع ہوئے اور ہماری توقع کے برعکس اس چھوٹے سے شہر میں اچھا خاصا رش لگ گیا۔

روایتی بلوچی پگڑی باندھے بوڑھے بابے

خوبصورت کڑھائی والی قمیضیں پہنے خواتین

گھیر والی روایتی شلوار پہنے لڑکے

ہنستے مسکراتے اور مجھے حیرانی سے دیکھتے بچے

خمیدہ کمر اور سر پہ دوپٹہ لیے بوڑھی دادیاں

جن کے محنت کش اور کھردرے ہاتھ اتنے پیارے لگے کہ میرا دل کیا انہیں چوم لوں۔

ہم نے مریضوں کو بیماریوں سے احتیاط اور بچاؤ  کی تجاویز بھی دیں اور کچھ پڑھے لکھے لوگوں کو ملیریا، ڈینگی اور ہیضہ جیسی بیماریوں سے اپنے طور پہ نمٹنے  کا طریقہ بھی بتایا تاکہ وہ علاقے کے دیگر لوگوں کو بھی سمجھا سکیں۔

کیمپ سے فارغ ہو کے  ایک چکر میں نے یہاں کے پرانے بازار کا لگایا اور ہم سب سلیم بھائی کے گھر آ گئے۔ یہاں درختوں کے بیچ خوبصورت رَلیوں پر دوپہر کا کھانا چن دیا گیا۔ دسترخوان پر اُبلے ہوئی چاول، تلے ہوئے آلو، سلاد اور یہاں کا خاص ٹماٹروں کا سالن تھا۔ گھر کے پکے سالن کا نہایت منفرد ذائقہ جو لمبے عرصے تک مجھے یاد رہے گا۔ یہاں کے ہر کھانے میں بلوچستان کی خوشبو سمیت ہمارے میزبانوں کا خلوص بھی شامل تھا جو اس کے ذائقے کو بہتر سے بہترین بنا رہا تھا۔

کھانے سے فارغ ہو کہے سلیم بھائی کے ساتھ واپسی کے سفر پہ روانہ ہوئے۔جہاں راستے میں مختلف مقبروں کا دورہ بھی کرنا تھا۔ سب سے پہلے ہم ”میراِلتاز خان” کے مقبرے پر رکے جو بارشوں کے باعث کافی حد تک تباہ ہو چکا تھا۔ خان آف قلات میر التاز خان قمبرانی کا یہ مقبرہ لگ بھگ ساڑھے تین سو سال پرانا ہے جسے روایتی انداز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دو منزلہ مقبرے کے چاروں اطراف محرابیں ہیں اور اس پر ایک بڑا گنبد تعمیر کیا گیا تھا جو حالیہ بارشوں میں ڈھے چکا ہے۔ یہ مقبرہ دریائے مُولا اور سڑک کے بیچ میں اپنی تباہی کی داستان سنا رہاتھا۔

اس کے بعد فتح پور شریف آیا جہاں پیر چیزل شاہ اور دکھل شاہ کے مقبروں کو دیکھا۔ پیر چیزل شاہ کا سنہری مقبرہ بالکل جدید انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔
فتح پور سے روانہ ہوئے اور بیابانوں کی بھول بھلیوں سے ہو کے مُولا کی پھیلی ہوئی شاخوں میں سے ایک کے قریب موجود ”مقبرہ موتی گہرام” پہ آ ٹھہرے۔ سردار گہرام لاشاری اور موتی کے اس مقبرے کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ”بلوچستان کا تاج محل” کہا جاتا ۔ نیلے رنگوں کا خوبصورت کام، چہار جانب ایستادہ محرابیں، دو منزلہ گنبد اور اندر محرابوں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار۔۔۔
اس تاریخی مقبرے کو دیکھ کے  دل کٹ کے رہ گیا۔ ایک تاریخ تھی جو بس مٹنے کو تھی۔ سامنے ایک بدحال سا مقبرہ ایک قدیم مسجد کے ساتھ کھڑا تھا جو شاید کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔

یہاں سے سلیم بھائی نے ہمیں رخصت کیا اور ہم اسی کچی پکی سڑک سے ہو کہ براستہ نوتال واپس ڈیرہ اللہ یار پہنچ گئے۔ سب بہت تھکے ہوئے تھے سو مجھے ڈیرے پہ چھوڑ کر  فریش ہونے چل دیئے۔ رات کا کھانا سب نے اکٹھے کھایا اور گپ شپ کے بعد دوستوں نے رخصت چاہی۔

اگلے دن ایک نئی قوت اور جذبے سے بیدار ہوا کہ آج کے دن زیادہ تر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنا تھا۔ ذوالفقار بھائی کے ڈیرے کی عکسبندی کی جو ان کے ماموں چیف آف ممل کھوسہ، میر فیض محمد خان کھوسہ کی تصاویر سے مُزین تھا۔ یہاں کی اہم چیز فریم میں لگی وہ تلوار تھی جو 1935 میں برٹش گورنمنٹ جرگہ کے ممبر اور اس وقت کے چیف، ”میر مَسُو خان کھوسہ” کو برطانوی حکومت کی طرف سے اعزازی طور پہ دی گئی تھی۔ صبح کے ناشتے کے بعد ہم نے جعفر آباد سے صحبت پور کی طرف سفر شروع کیا۔

ڈیرہ بگٹی اور سندھ کے اضلاع جیکب آباد و کشمور کے درمیان ایک چھوٹا سا ضلع صحبت پور ہے جسے 2013 میں جعفرآباد سے الگ کر کہ ضلع کا درجہ دیا گیا۔ مانجھی پور، سعید خان کنرانی، ہیر دین، فرید آباد، پنھور اور صحبت پور اس ضلع کی چھ تحصیلیں ہیں۔ یہ نصیرآباد ڈویژن کا سب سے چھوٹا ضلع ہے۔ ماضی میں یہاں ایک تاریخی قلعہ ہوا کرتا تھا جس کے اندر شہر کی مکمل آبادی رہتی تھی۔ قلعے کے اندر پانی کے تالاب، خوبصورت بازار ایک بہت بڑی اور انتہائی خوبصورت مسجد موجود تھی جو آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مسجد کے اندر اور باہر انتہائی خوبصورت نقاشی کا کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ قلعہ سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک اپنی اصل حالت میں موجود رہا مگر 2010 اور 2012 کے سیلاب نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ یہاں کے قبرستان میں ایک تاریخی مقبرہ موجود ہے جو خان بہادر سردار سخی صحبت گولہ کی آخری آرام گاہ بتایا جاتا ہے۔

صحبت پور میں سب سے پہلے قمر دین کھوسہ تحصیل فرید آباد کے ایک ٹینٹ سکول کا دورہ کیا۔ یہ سڑک کنارے ”پین فاؤنڈیشن” کا قائم کیا گیا چھوٹا سا ٹینٹ سکول تھا جہاں مختلف کلاسوں کے قریباً پچاس بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں جو نہایت چاق و چوبند تھے۔ بچوں کو پڑھانے والے مقامی استاد عطا اللہ، نوجوان اور محنتی ہیں۔ بچوں سے مختلف باتیں کیں اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔
یہاں سے آگے بڑھے تو صحبت پور کے نواحی علاقے آدم پور کھوسہ کی راہ لی جہاں کی جامع مسجد ہمارے انتظار میں تھی۔ تقریباً 125 سال پرانی یہ مسجد ”میر آدم خان کھوسہ” کی تعمیرشدہ ہے جس کے تین نہیں بلکہ سات گنبد ہیں۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے اوپر ایک چار محرابی کمرہ ہے جس پر گنبد بھی ہے۔ یہ جگہ پرانے وقتوں میں اذان دینے کے لیئے بنائی جاتی تھی تاکہ اونچی جگہ اذان دینے سے دور دور تک سنائی دی جا سکے۔ اس جگہ تک پہنچنے کے لیئے مسجد کے اندر سے سیڑھیاں جاتی ہیں۔

اس کے بعد ہم نے صحبت پور کی قدیم مسجد، سردار سخی صحبت خان گولا مسجد دیکھی جو کسی زمانے میں قلعے کے اندر ہوا کرتی تھی۔ اس مسجد کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے۔ نیلی ٹائل اور سفید بڑے گنبدوں پر مستمل اس مسجد میں لکڑی کا نہایت خوبصورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ حالانکہ اب اس کی تزئین و آرائش کر دی گئی ہے لیکن دیکھنے سے کہیں کہیں پرانے آثار بھی مل جاتے ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر مساجد کا نام انہیں تعمیر کرنے والوں یا تاریخی شخصیات کے نام پہ رکھا گیا ہے۔
صحبت پور سے ڈیرہ اللہ یار واپس آتے ہوئے راستے میں سڑک سے ذرا ہٹ کے  ایک پرانا اور بدحال سا مقبرہ کھڑا ہے جس کی اینٹیں نیچے سے اکھڑ چکی ہیں اور اندر کوئی قبر موجود نہیں ہے۔ یہ تباہ حال مقبرہ اپنے دور کے عظیم جنگجو بلوچ سردار نوری نصیر خان کا بتایا جاتا ہے۔

خان آف قلات، میر نصیر خان بلوچ (1749–1794) اٹھارویں صدی کے دوران بلوچستان کے حکمران تھے۔ انہیں ”نوری نصیر خان عظیم” کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ اس خطے کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے مختلف قبائل اور قوموں کے ساتھ صحت مند دوستانہ تعلقات قائم کیئے، اور بلوچوں کے بکھرے ہوئے قبائل کو ایک وحدت بنایا۔ انہوں نے اسلامی شریعت اور بلوچ روایات پر کام کرنے کے لیے ایک بلوچ پارلیمنٹ بھی قائم کی۔

ان کے دور میں پوری ریاست میں مساجد تعمیر کی گئیں، اور زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے سرکاری سطح پر انتظامات کیے گئے۔ اسلامی تصورات کے خلاف عسکری قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے انہوں نے تمام مسلم خواتین کے لیے پردہ کو ان کی عمر سے قطع نظر لازمی قرار دیا۔ سب سے اہم بات کہ قدیم نام ”توران” کو ختم کر کہ اس سرزمین کا نام بلوچستان رکھ دیا گیا۔ نوری نصیر خان یہاں کیسے آئے اور یہ مقبرہ کب تعمیر کیا گیا اس کے حوالے سے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملے۔

بلوچستان کے اس تاریخی ورثے کی حالتِ زار پہ آنسو بہا کے  ہم اوستہ محمد کو چل دیئے جہاں ”نور محمد جمالی” اپنے دوست کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے۔ نور محمد جمالی پیشے سے ایک معلم اور لکھاری ہیں جنہوں نے سیلاب کے دنوں میں اپنے علاقے گنداخہ میں کافی فلاحی کام کیا ہے۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہیں سو کشتیوں کے ذریعے بھی بہت سے علاقوں تک پہنچے ہیں۔ وقت کی قلت کے باعث انہیں گنداخہ سے اوستہ بلا لیا گیا۔ سڑک کنارے ایک ٹرک ہوٹل پہ ہماری پہلی ملاقات ہوئی اور ہم برسوں کے دوستوں کی طرح گپیں لگانے لگے۔

بلوچستان اور خصوصاً اوستہ محمد کی صورتحال اور میری کتاب سمیت دیگر موضوعات پرگھنٹہ بھر گفتگو ہوئی۔ اس دوران انہوں نے ہمیں آگے چلنے کے لیئے بہت کہا لیکن مغرب ہو چکی تھی اور ہم نے واپس پہنچنا تھا سو نور بھائی کو ادویات کے ڈبے اور مستحقین کی امانتیں تھمائیں اور ہم نے واپسی کی راہ لی۔

رات آفتاب بھائی کی طرف سے پر تکلف عشائیے کا اہتمام تھا جس میں تلی ہوئی مچھلی، چاول، دیسی مرغ اور کراری بھنڈیاں شامل تھے۔ رات کو چائے پرخیمہ بستیوں میں رہ رہے سیلاب زدگان کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور کچھ پراجیکٹس کو حتمی شکل دے کے  ہم سو گئے۔

اگلا دن میرا یہاں آخری دن تھا سو ہم سب آرام سے تیار ہوئے اور جھٹ پٹ کی سیر کو نکل گئے۔ محمود بھائی، وحید اور ذوالفقار بھائی نے راقم کو اعزازی طور پہ بلوچی پگڑی پہنائی جسے پہن کہ میں کسی بلوچ سردار جیسا محسوس کر رہا تھا۔ ان دوستوں کی معیت میں شہر کی قدیم جیل، انگریز دور کا چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن اور مسجد دیکھی۔ اس کے بعد شہر کے نواح میں مرکزی سڑک پہ ان حضرات کی بسائی گئی خیمہ بستی کا دورہ کیا جس کے دونوں اطراف پانی ہی پانی کھڑا تھا۔

افسوس کہ بلوچستان حکومت نے ابھی تک سیلاب کے پانی کے اخراج کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ مقامی لوگ عورتوں اور بچوں سمیت یہاں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے تھے۔ مردوں سے بات چیت کی اور ان کی ضروریات اور مسائل دریافت کیئے۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ اگلی بار یہاں کس قسم کا سامان لے کہ آنا ہے۔ ان احباب سے اجازت لے کہ ہم جیکب آباد کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہاں میرے میزبانوں نے مجھے جیکب آباد کا مشہور وکٹوریہ ٹاور، بخاری مسجد اور بازار دکھایا اور سکھرشہر کے لیئے مجھے بس اڈے پر اتار دیا۔ بہت سی دعاؤں، محبتوں اور خلوص کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا اور دوبارہ آنے کے وعدے پر میں نے سکھر کی جانب سفر شروع کیا۔
سکھر سے بذریعہ بس ہم نے اپنے گھر کی راہ لی کہ

Advertisements
julia rana solicitors

شام ڈھلے ہر اک پنچھی کو گھر جانا پڑتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply