کُتے کے پیچھے دوڑ پڑیں گے /گل بخشالوی

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے الوداعی خطاب میں جو کہا ، کچھ اچھا نہیں کہا ، جنرل باجوہ صاحب نے کہا کہ فوج پچھلے برس فروری سے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے ، یہ جنرل باجوہ صاحب کا پچھلی سات دہائیوں کے دوران فوج کی سیاست میں غیر آ ئینی مداخلت کا اعتراف ہے۔
تسلیم کرنا ہو گا کہ وطن عزیز میں ہر ادارے ،سیاسی پارٹی یہاں تک کہ سول سوسائٹی سے غلطیاں ہوئی ہیں ان غلطیوں سے سبق سیکھنا اور آ گے بڑھنا چاہیے۔ قمر جاوید باجوہ نے تسلیم کیا کہ پاکستان آج  جس سنگین معاشی بحران سے دو چار ہے کوئی ایک پارٹی اس سے نہیں نکال سکتی۔ ہم جمہوریت کے گُن گاتے ہیں تو جمہوریت کی ماں کہلانے والے ملک برطانیہ کی مثال ہمیں سامنے رکھنا ہو گی جہاں چند برسوں میں کئی حکومتیں بدل گئیں مگر کوئی بھونچال نہیں آ یا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا رہا۔ ہمیں بیانات میں شائستگی اختیار کرنا ہوگی، خواہ وہ فوج کے حوالے سے ہوں، مخاطب دوسری سیاسی پارٹیوں سے ہو یا موضوع سخن کوئی دوسرا ملک ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آ گے بڑھیں، تمام ادارے اور حلقے آ ئین کے دائرے  میں رہ کر کام کریں اور ملکی مفاد کو مقدم رکھیں۔

برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے باجوہ صاحب شاید بھول گئے کہ بر طانیہ غیر مسلموں کا دیس ہے اور پاکستان بفضل تعالیٰ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اس دیس کے باشندے مسلمان ہیں لیکن قیادت برطانیہ اور امریکہ کی غلام ہے وہ جن کے آپ سہولت کار رہے ہیں۔

جا نے منصب اختیار پر بیٹھنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ زمینی خدا کا بھی انجام موت ہے ، فرغون نمرود اور یزید بھی تو زمینی خدا تھے کہا ں ہیں ، اپنے دیس میں دیکھیں ، جنرل ضیا  الحق کے ساتھ کیا ہوا ، جس نے تخت اختیار پر بٹھایا اسی کو ڈس گیا ،لیکن انجام کیا ہوا ، جن کے ہاتھوں میں کھیلا انہوں نے ہی فضا میں اُڑا کر دیا ، لیکن مقامِ  عبرت ہے جس محسن کو ماورائے عدالت قتل کیا آج اس کے دربار پر دعا دینے والوں کا میلا لگا رہتا ہے اور وقت کے جا بر کے مزار کے گرد رات بھر گیدڑ بھیڑیوں کا طواف ہوتا ہے۔

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد ، ہم عام عوام اپنے دیس سے محبت میں یہ دعا مانگتے ہیں لیکن آج ہمارے پاکستان میں تین پاکستان ہیں ، ایک اسلام آباد کا پاکستان ، دوسرا خیبر پختون خوا ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل پاکستان ، اور تیسرا افواجِ  پاکستان کا پاکستان ، جس کے نئے چیف ہیں آصف منیر ، اور نظام عدل کا جھکاؤ  اس طرف ہے، جو مغرب کا یار ہے ، چیف کا نام میں نے آصف منیر لکھا ، غلط نہیں لکھا اور نہ  ہی میں پیپلز پارٹی کا ایم این اے ہوں ، پاکستان کے وزیر داخلہ خو اجہ آصف ہیں اور آرمی چیف۔

عا صم منیر ، پی ڈی ایم کی سوچ میں خواجہ آصف اور عاصم منیر ایک جان دو قالب ہیں ، لیکن ہم عام پاکستانی پی ڈی ایم کی سوچ نہیں سوچتے ، البتہ ہم تینوں پاکستا نوں کے عام پاکستانی یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہر پاکستان کی قیادت کی نظر میں ہم عام پاکستانی بھیڑ بکریاں ہیں ، خود پرست ہمیں جس طرف ہانکیں ہم جوتے اُتار دیتے ہیں ، اگر وہ   کہیں کہ تمہارا کان کتا لے گیا ہے تو ہم کان نہیں دیکھیں گے، کُتے کے پیچھے دوڑ پڑیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم تو بس پاکستان کے لئے دعا مانگتے ہیں ۔ دماغ ہے لیکن کبھی بھی اپنے دماغ سے اپنے لئے نہیں سوچا ، ان کو سوچا  جنہوں نے ہمارے دیس کو نوچا ، قومی معیشت کا رونا رونے والے نمازیوں کی مسجد میں جماعت کے بعد امام صاحب نے سلام پھیرا تو ایک نمازی کی آواز آئی ، امام صاحب دعا کروا دیں کہ پاکستان کی معاشی حالت ٹھیک ہو جائیں ، تو امام صاحب نے جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا اور کہا مجھے یہ نوٹ مسجد کے دروا زے کے ساتھ ملا ہے ، جس کا ہو ہاتھ اُٹھا لیں ، دس نمازیوں نے ہاتھ اٹھا دیے، تو امام صاحب نے نوٹ جیب میں رکھا اور کہا یہ نوٹ میرا ہے ،پہلے خود ٹھیک ہو جاؤ، معاشی حالت  بھی ٹھیک ہو جائے گی ،   امام صاحب نے غلط نہیں کہا ، ہم اگر خائن نہ ہوتے تو خیانت کرنے والوں کو سجدے نہ کرتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply