• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قفل ابجد، قفل، دعائیں، قبولیت، محبت اور امن۔۔۔۔ شاہد محمود، ایڈووکیٹ

قفل ابجد، قفل، دعائیں، قبولیت، محبت اور امن۔۔۔۔ شاہد محمود، ایڈووکیٹ

کبھی کبھی ذہن حیران رہ جاتا ہے کہ دنیا بھر میں مختلف مذاہب، اقوام و ملت کے لوگ کس طرح سے خدا اور محبت پر یقین رکھتے ہیں لیکن پھر بھی دنیا میں امن نہیں ہے۔ تو کیوں نہ جس طرح دنیا میں درخت لگانے کی مہم چلائی جاتی ہے اسی طرح امن و محبت پھیلانے کی بھی مہم چلائی جائے اور ایسے پہلو اجاگر کئے جائیں جو مختلف مذاہب و اقوام میں مشترک ہوں۔ درج ذیل تحریر اسی ضمن میں ایک کوشش ہے۔

مرزا غالب کا ایک شعر ہے؛

تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

پانی پت میں مشہور صوفی بزرگ حضرت شرف الدین بو علی شاہ قلندر رحمت اللہ علیہ کا مزار ہے جس کی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ مزار مغل بادشاہ جہانگیر کے جرنیل مہابت خان نے تعمیر کروایا۔ مہابت خان کا اپنا مقبرہ بھی حضرت قلندر کے مزار کے ساتھ ہی واقع ہے۔ حضرت قلندر رحمت اللہ علیہ کی شہرت چہار دانگ عالم میں ہے اور آپ کے فارسی کلام پر مشتمل دیوان حضرت شرف الدین بو علی قلندر صوفی شاعری میں بلند مقام کا حامل ہے۔

قلندر بادشاہ رحمت اللہ علیہ کی شہرت چہار دانگ عالم میں ببانگ دہل بول رہی ہے اور آپ کا فیض جاری و ساری ہے۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ مزار پر آتے اور حضرت قلندر رحمت اللہ علیہ کے وسیلے سے منتیں مانگتے ہیں اور اپنی مرادوں کو تالوں Locks میں بند کر جاتے ہیں یعنی مزار پاک پر ایک جگہ منت کے تالے لگا جاتے ہیں اور جب ان کی مراد پوری ہو جاتی ہے تو بند تالے کو کھول کر اللہ کریم کی راہ میں غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، نیاز تقسیم کرتے ہیں، حضرت قلندر پاک کی لحد پر چادر چڑھاتے ہیں۔ پانی پت والے کچھ لوگ انہیں تالے والے بابا بھی کہتے ہیں۔

اب آتے ہیں “قفل ابجد” کی طرف؛
غالب نے ایک شعر میں قفل (تالے) کا تذکرہ کیا ہے؛

تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

زمانہ قدیم سے تالے (قفل) مختلف انداز میں بنتے رہے۔ جہان ان کے ڈیزائن میں ندرت و جدت آتی رہی وہیں ان کے۔مقاصد میں بھی ندرت آتی رہی۔ قفل ابجد ایسے تالے ہوتے ہیں جو حروف کے حساب سے بنائے جاتے ہیں۔ کون سا حرف کون سے دوسرے حرف سے مل کر تالا کھولے گا یہ راز صرف تالے والے کے علم میں ہوتا تھا۔

گو مرزا نے تالے کے کھلنے کو جدا ہونے کے معنوں میں استعمال کیا ہے لیکن حضرت شرف الدین بو علی قلندر رحمت اللہ علیہ کی مقدس درگاہ میں تالا لگانے والا اس وقت ہی تالا کھولتا ہے جب مراد والے کی مراد بر آتی ہے۔

تالے (قفل) کے مقصد میں مراد بر آنے یا دعا پوری ہونے کی ندرت صرف برصغیر پاک و ہند میں ہی نہیں پوری دنیا میں آئی ہے۔ دنیا بھر میں مختلف مذاہب و اقوام کے لوگ مختلف مقامات پر منت کے قفل (تالے) لگاتے ہیں۔

اس طرح کی ایک جگہ منیلا فلپائن Baclaran Church کے باہر ہے۔ لوگ یہاں اپنی منت (مراد، دعا) پوری ہونے کے لئے خدا کو گواہ بنا کر تالے (قفل) لگاتے ہیں۔ لوگ اپنی محبت کو پانے کے لئے بھی یہان منت کے تالے (قفل) لگاتے ہیں اور ان کے نزدیک محبت کے لئے یا کسی بھی دعا کے پورے ہونے کے لئے سب سے اہم عہد خدا سے کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ ان تالوں کو “یقین کے تالے Faith Locks” بھی کہتے ہیں اور کچھ محبت کرنے والے انہیں “محبت کے تالے Love Locks” بھی کہتے ہیں۔

اٹلی کے شہر روم میں پونٹ میلویو برج Ponte Milvio Bridge پر لوگ اس تالے لگانے کی رسم کو بڑی عقیدت سے ادا کرتے ہیں اور اس کی مقبولیت کی بنیاد معروف اطالوی مصنف “فیڈریشنیکو موکویا Federico Moccia” کی کتاب “ہو وگلویا ڈی ٹی Ho Voglia Di Te” (میں آپ کو چاہتا ہوں) بنی۔ اس کتاب پر بعد میں ایک فلم کی بھی بنائی گئی تھی۔

فرانس کے شہر پیرس میں منت کے تالے (قفل) لگانے کی سب سے مشہور جگہ پونٹ ڈی آرٹس کا پل Pont des Arts Bridge ہے۔ لیکن اس پل کا پیدل چلنے والا ایک حصہ تالوں کے بوجھ کی وجہ سے ٹوٹ جانے کے باعث اس پل پر فی الحال تالے لگانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

لاہور میں بیبیاں پاک دامناں رح کے مزار پر بھی دور دراز سے لوگ آ کر منت مانتے ہیں اور منت کے تالے لگاتے ہیں۔

یہ سب جگہیں اور دنیا بھر میں اس طرح کی دیگر بہت سی جگہیں اس بات کی عکاس ہیں کے لوگ دعا پر یقین رکھتے ہیں، جس سے دعا مانگی جاتی ہے اس ہستی پر یقین رکھتے ہیں چاہے اسے جس نام سے بھی پکاریں، دعا مانگ کر سکوں محسوس کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ محبت میں یقین رکھتے ہیں جو فاتح عالم ہے اور یہ لوگ ہمیشہ محبت و امن کے سفیر ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا بھر کے ممالک اپنی اس مشترکہ قدر کو اجاگر کر کہ سیاحت میں اضافے کے ساتھ ساتھ دنیا میں باہمی امن و محبت کی خواہش کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply